بدعنوانی اور بیروزگاری
ان کے پاس تین ہی راستے ہوتے ہیں، یا انھیں روزگار ملے یا عصمت فروشی کریں یا پھر خودکشی کرلیں
لاہور:
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ چار بدعنوان ممالک نائیجیریا، ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں۔ حال ہی میں 479 ارب روپے کی بدعنوانی میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہائی مل گئی، ادھر کروڑوں پاؤنڈ کی منی لانڈرنگ کرنے والی ماڈل ایان علی کو باہر جانے کی اجازت اور ضمانت بھی مل گئی۔ حج کرپشن کے ملزم حامدکاظمی باعزت طور پر بری ہوگئے۔
سندھ کے وزیر شرجیل میمن پر اربوں روپے کی بدعنوانی کے الزام تھے، وہ ملک سے باہر غائب تھے اور اب ملک میں آمد پر ان کے سر پر سونے کا تاج پہنایا گیا۔ سوئس بینک میں اربوں روپے کے مقدمے پر آصف علی زرداری برسوں قید میں رہے۔ فریال تالپور سے عدالت نے پوچھا کہ نوے ارب روپے لاڑکانہ میں کس جگہ خرچ ہوئے؟ نواز شریف اور ان کے خاندان کے پاس لندن، دبئی اور رائے ونڈ محل کی جائیداد کے لیے اربوں روپے کہاں سے آئے۔
پاناما آف شور کمپنی کے الزامات، اسحاق ڈار پر نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ کے الزام، پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ، موٹرویز میں خوردبرد اور کمیشن کے الزامات۔ بہاماس آف شور کمپنی میں دیگر لوگوں کے علاوہ پروفیسر غفور احمد کی رقوم کی موجودگی کا انکشاف، عمران خان پر شوکت خانم کینسر اسپتال کی فنڈنگ میں خوردبرد کا الزام، جہانگیر ترین پر بدعنوانی کے الزام، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان پر رقوم ہڑپ کرنے اور ملک ریاض پر لینڈ مافیا سے مل کر ناجائز طور پر ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے کے الزامات۔ حالیہ ایک اطلاع کے مطابق سوئس بینک میں 156 پاکستانیوں کے 81 کھرب روپے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کی تفصیلات سوئس بینک فراہم کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔
بدعنوانیوں پر تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، مگر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بدعنوانیاں سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ حالیہ پاک چین سی پیک سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ مگر گزشتہ برس 2016ء میں پاکستان کو تجارتی خسارہ سب سے زیادہ چین سے ہی ہوا۔ اسٹاک ایکسچینج مسلسل مندی میں جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ تجارت میں خسارے کا سامنا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دو دو روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ تیل، دالیں، گوشت، انڈے، چنے، پھل اور سبزیاں مہنگی ہوگئی ہیں۔ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔
ان پریشانیوں سے عوام تو تنگ آ ہی چکے ہیں، لیکن بیروزگاری کی وجہ سے نچلے درجے کی بدعنوانی یعنی جینے کے لیے غلط راہیں اختیار کرنے پر لوگ مجبور ہورہے ہیں، جیسا کہ ڈاکا، چوری، عصمت فروشی، خودکشی، منشیات نوشی، گداگری، ٹارگٹ کلنگ، بردہ فروشی، نومولود بچوں کی خریدو فروخت، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری وغیرہ۔ ملک میںکارخانے، مل فیکٹریاں بند ہوتی جارہی ہیں، چند لوگوں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے تو کروڑوں لوگ بے روزگار اور بے زمین ہیں۔ جب بھوک، بیماری اور فاقوں سے اکتا جائیں گے تو کیا کریں گے؟ ہمت والا ڈاکا مارے گا اور کم ہمت والا چوری کرے گا۔ لاکھوں نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھوک سے بلکتی رہتی ہیں، پھر وہ تنگ آکر عصمت فروشی پر مجبور ہوتی ہیں۔
ان کے پاس تین ہی راستے ہوتے ہیں، یا انھیں روزگار ملے یا عصمت فروشی کریں یا پھر خودکشی کرلیں۔ خودکشی تو ہمارے ہاں معمول بن چکی ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب کسی کو روزگار نہیں ملتا ہے اور چوری چکاری کرنی بھی نہیں آتی تو وہ منشیات نوشی کے عادی ہوجاتے ہیں اور چند سال میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ جنھیں روزگار نہیں ملتا یا جزوی معذوری کی وجہ سے ان کے لیے لائق کام حکومت میسر نہیں کرپاتی تو پھر وہ چونکہ خودکشی کرنے سے گھبراتے ہیں اس لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے بھکاری بن جاتے ہیں۔
معروف بنگالی دانشور اور ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کا کہنا ہے کہ ''انسان اگر بھوک سے تڑپ رہا ہو اور بھگوان بھی اس کے سامنے آجائے تو وہ اسے کھا جائے گا''۔ یہی صورتحال ٹارگٹ کلرز، بردہ فروشوں اور نومولود بچہ فروشوں کی ہے۔ لوگ بھوک سے یہاں تک مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے لخت جگر کو خود فروخت کر دیتے ہیں۔ ان دردناک اور پریشان کن مسائل کے علاوہ پاکستان کے شہروں میں بسنے والے شہریوں کو پولیس اور ٹریفک پولیس کی لوٹ مار کا سامنا ہے۔ دن دیہاڑے سب کے سامنے پولیس والے روزانہ ہزاروں روپے عوام کی جیبوں سے بٹورتے ہیں۔
میری کالونی میں قندوز کا علاؤالدین نامی پٹھان خاکروب، جو ہماری گلی کا کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، اس کا والد حال ہی میں ٹرین کی ٹکر سے جاں بحق ہو گیا۔ اس پر میں نے ''ایک خاکروب کی موت'' کے عنوان سے مضمون لکھا تھا۔ اس غریب علاؤالدین کو حال ہی میں پولیس والے اٹھا کر لے گئے اور افغانی ہونے کے الزام میں اس سے تیس ہزار روپے لے کر چھوڑ دیا۔ اس لوٹ مار سے عوام بلبلا اٹھے ہیں، جب کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ہوں یا حزب اقتدار کی، ان مسائل پر خاموش ہیں۔ کوئی احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی میں بات اٹھاتے ہیں۔
ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں سارے مذاکرات صرف نان ایشوز پر ہوتے ہیں۔ مگر اسمبلی ممبران اپنی تنخواہیں گاہے بگاہے بڑھواتے رہتے ہیں، لیکن مزدوروں کی کم از کم تنخواہ اعلان شدہ بارہ ہزار روپے بھی نوے فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی۔ دیہی علاقوں میں چند خان، وڈیرے، سردار اور جاگیردار لاکھوں کروڑوں ایکڑ زمینوں پر قابض ہیں اور وہی اسمبلی میں جاتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے میں ہی ممکن ہے، لیکن اس بار جب سیاستدان ووٹ لینے آئیں تو مزدوروں اور کسانوں کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پہلے پینے کا صاف پانی دو، ملاوٹ سے پاک غذا دو، روزگار دو، زمین دو، اشیائے خورونوش سستی کرو تو ووٹ دیں گے۔ حکومت چاہے تو کھربوں روپے جو بیرون ملک اور اندرون ملک کرپشن، دفاعی اخراجات اور عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں اسے عوام پر خرچ کرے۔
ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ چار بدعنوان ممالک نائیجیریا، ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان ہیں۔ حال ہی میں 479 ارب روپے کی بدعنوانی میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہائی مل گئی، ادھر کروڑوں پاؤنڈ کی منی لانڈرنگ کرنے والی ماڈل ایان علی کو باہر جانے کی اجازت اور ضمانت بھی مل گئی۔ حج کرپشن کے ملزم حامدکاظمی باعزت طور پر بری ہوگئے۔
سندھ کے وزیر شرجیل میمن پر اربوں روپے کی بدعنوانی کے الزام تھے، وہ ملک سے باہر غائب تھے اور اب ملک میں آمد پر ان کے سر پر سونے کا تاج پہنایا گیا۔ سوئس بینک میں اربوں روپے کے مقدمے پر آصف علی زرداری برسوں قید میں رہے۔ فریال تالپور سے عدالت نے پوچھا کہ نوے ارب روپے لاڑکانہ میں کس جگہ خرچ ہوئے؟ نواز شریف اور ان کے خاندان کے پاس لندن، دبئی اور رائے ونڈ محل کی جائیداد کے لیے اربوں روپے کہاں سے آئے۔
پاناما آف شور کمپنی کے الزامات، اسحاق ڈار پر نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ کے الزام، پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ، موٹرویز میں خوردبرد اور کمیشن کے الزامات۔ بہاماس آف شور کمپنی میں دیگر لوگوں کے علاوہ پروفیسر غفور احمد کی رقوم کی موجودگی کا انکشاف، عمران خان پر شوکت خانم کینسر اسپتال کی فنڈنگ میں خوردبرد کا الزام، جہانگیر ترین پر بدعنوانی کے الزام، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان پر رقوم ہڑپ کرنے اور ملک ریاض پر لینڈ مافیا سے مل کر ناجائز طور پر ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کرنے کے الزامات۔ حالیہ ایک اطلاع کے مطابق سوئس بینک میں 156 پاکستانیوں کے 81 کھرب روپے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کی تفصیلات سوئس بینک فراہم کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔
بدعنوانیوں پر تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، مگر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بدعنوانیاں سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ حالیہ پاک چین سی پیک سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ مگر گزشتہ برس 2016ء میں پاکستان کو تجارتی خسارہ سب سے زیادہ چین سے ہی ہوا۔ اسٹاک ایکسچینج مسلسل مندی میں جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ تجارت میں خسارے کا سامنا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دو دو روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ تیل، دالیں، گوشت، انڈے، چنے، پھل اور سبزیاں مہنگی ہوگئی ہیں۔ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔
ان پریشانیوں سے عوام تو تنگ آ ہی چکے ہیں، لیکن بیروزگاری کی وجہ سے نچلے درجے کی بدعنوانی یعنی جینے کے لیے غلط راہیں اختیار کرنے پر لوگ مجبور ہورہے ہیں، جیسا کہ ڈاکا، چوری، عصمت فروشی، خودکشی، منشیات نوشی، گداگری، ٹارگٹ کلنگ، بردہ فروشی، نومولود بچوں کی خریدو فروخت، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری وغیرہ۔ ملک میںکارخانے، مل فیکٹریاں بند ہوتی جارہی ہیں، چند لوگوں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہے تو کروڑوں لوگ بے روزگار اور بے زمین ہیں۔ جب بھوک، بیماری اور فاقوں سے اکتا جائیں گے تو کیا کریں گے؟ ہمت والا ڈاکا مارے گا اور کم ہمت والا چوری کرے گا۔ لاکھوں نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھوک سے بلکتی رہتی ہیں، پھر وہ تنگ آکر عصمت فروشی پر مجبور ہوتی ہیں۔
ان کے پاس تین ہی راستے ہوتے ہیں، یا انھیں روزگار ملے یا عصمت فروشی کریں یا پھر خودکشی کرلیں۔ خودکشی تو ہمارے ہاں معمول بن چکی ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب کسی کو روزگار نہیں ملتا ہے اور چوری چکاری کرنی بھی نہیں آتی تو وہ منشیات نوشی کے عادی ہوجاتے ہیں اور چند سال میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ جنھیں روزگار نہیں ملتا یا جزوی معذوری کی وجہ سے ان کے لیے لائق کام حکومت میسر نہیں کرپاتی تو پھر وہ چونکہ خودکشی کرنے سے گھبراتے ہیں اس لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے بھکاری بن جاتے ہیں۔
معروف بنگالی دانشور اور ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کا کہنا ہے کہ ''انسان اگر بھوک سے تڑپ رہا ہو اور بھگوان بھی اس کے سامنے آجائے تو وہ اسے کھا جائے گا''۔ یہی صورتحال ٹارگٹ کلرز، بردہ فروشوں اور نومولود بچہ فروشوں کی ہے۔ لوگ بھوک سے یہاں تک مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے لخت جگر کو خود فروخت کر دیتے ہیں۔ ان دردناک اور پریشان کن مسائل کے علاوہ پاکستان کے شہروں میں بسنے والے شہریوں کو پولیس اور ٹریفک پولیس کی لوٹ مار کا سامنا ہے۔ دن دیہاڑے سب کے سامنے پولیس والے روزانہ ہزاروں روپے عوام کی جیبوں سے بٹورتے ہیں۔
میری کالونی میں قندوز کا علاؤالدین نامی پٹھان خاکروب، جو ہماری گلی کا کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، اس کا والد حال ہی میں ٹرین کی ٹکر سے جاں بحق ہو گیا۔ اس پر میں نے ''ایک خاکروب کی موت'' کے عنوان سے مضمون لکھا تھا۔ اس غریب علاؤالدین کو حال ہی میں پولیس والے اٹھا کر لے گئے اور افغانی ہونے کے الزام میں اس سے تیس ہزار روپے لے کر چھوڑ دیا۔ اس لوٹ مار سے عوام بلبلا اٹھے ہیں، جب کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ہوں یا حزب اقتدار کی، ان مسائل پر خاموش ہیں۔ کوئی احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی میں بات اٹھاتے ہیں۔
ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں سارے مذاکرات صرف نان ایشوز پر ہوتے ہیں۔ مگر اسمبلی ممبران اپنی تنخواہیں گاہے بگاہے بڑھواتے رہتے ہیں، لیکن مزدوروں کی کم از کم تنخواہ اعلان شدہ بارہ ہزار روپے بھی نوے فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی۔ دیہی علاقوں میں چند خان، وڈیرے، سردار اور جاگیردار لاکھوں کروڑوں ایکڑ زمینوں پر قابض ہیں اور وہی اسمبلی میں جاتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے میں ہی ممکن ہے، لیکن اس بار جب سیاستدان ووٹ لینے آئیں تو مزدوروں اور کسانوں کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ پہلے پینے کا صاف پانی دو، ملاوٹ سے پاک غذا دو، روزگار دو، زمین دو، اشیائے خورونوش سستی کرو تو ووٹ دیں گے۔ حکومت چاہے تو کھربوں روپے جو بیرون ملک اور اندرون ملک کرپشن، دفاعی اخراجات اور عیاشیوں پر خرچ ہوتے ہیں اسے عوام پر خرچ کرے۔