بھٹوکی پھانسی سے بینظیرکے قتل تک
بھٹوکی سیاست تین بنیادی اصولوں سامراجیت کا خاتمہ، خود انحصاری اور اقتصادی آزادی کے گرد گھومتی ہے
پاکستان پیپلزپارٹی کا 49 واں یوم تاسیس ابھی کل کی بات ہے جس کی سات روزہ تقریبات 30 نومبر سے 6 دسمبر 2016ء تک لاہور میں منعقد ہوئی تھیں۔پنجاب کی راجدھانی کو پیپلز پارٹی کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو کبھی اس کا سیاسی گڑھ بھی ہوا کرتا تھا۔ یوں وفاق اورعوام کی پارٹی ہونے کی دعویدار پی پی پی اپنے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت اپنے قیام کے 50 ویں سال میں داخل ہو گئی۔ بھٹو خاندان کے یہ نوجوان وارث ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے ہیں۔اپنی والدہ بینظیر بھٹو سے ورثے میں ملی ہوئی پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کے لیے بلاول نے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے کارکنوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ ملک بھر میں ڈویژنوں اور ضلعوں کی سطح پر تنظیمی ڈھانچوں کو مکمل کرنے کا کام آگے بڑھایا جاسکے۔
ایک ہفتے پر محیط یوم تاسیس کی تمام تقریبات بلاول ہاؤس لاہور کی چار دیواری کے اندر تک محدود تھیں، جو در اصل وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہوا فارم ہاؤس ہے جو مبینہ طور پر رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے منسلک ایک مشہورومعروف شخصیت نے انھیں تحفتاً پیش کیا تھا۔تقریبات کا آغاز اس خاص ایونٹ سے ہوا جس میں بلاول نے پارٹی کے آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، انھوں نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو اس پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا جس کا مقصد پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو آڑے ہاتھوں لینا ہے۔بعد ازاں پارٹی کارکنوں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور ثقافتی شو منعقد کیے گئے۔ پروگرام کے منظم انداز میں انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے پارٹی کی طرف سے ہر علاقے کے لیے الگ تنظیمی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
اس موقعے پر میڈیا کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی پی پی پنجاب کے صدر قمرزماں کائرہ نے دعویٰ کیا کہ اس سالانہ اجتماع میں چاروں صوبوں،گلگت بلتستان اورآزادکشمیر سے آئے ہوئے پارٹی رہنما اورکارکن شریک ہوئے۔انھوں نے کہا اگرچہ یہ کوئی جلسہ عام نہیں پھر بھی یہ پی پی پی کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا جس میں بڑی تعداد میں لوگوںنے باہم ملاقاتیں کرکے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعد، طے شدہ پروگرام کے مطابق چیئرمین نے پارٹی کے عہدوں کے لیے بلوچستان، خیبر پختون خوا، جنوبی پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور وسطی پنجاب کے امیدواروں کے انٹرویوزکیے۔
پی پی پی کے شریک چیئر پرسن اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بقول یہ صرف خوشیاں منانے کا موقعہ نہیں تھا بلکہ اس میں پارٹی کارکنوں سے آزادانہ اور بے تکلفانہ ماحول میں تبادلہ خیال کر کے اپنا جائزہ لیا گیا نیزتنظیمی معاملات پر صلاح مشورے بھی کیے گئے۔ اس موقعے پر پی پی پی میڈیا ونگ کی جانب سے تقسیم کردہ پیغام میں آصف علی زرداری نے کہا کہ پارٹی کے جڑواں اصول، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور'' طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں'' آج بھی عوام کے ذہنوں پر نقش ہیں اور انھیں ہرگز محو نہیں ہونے دینا چاہیے۔
دریں اثنا ایک مشہور سیاسی مبصر نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقعے پر اپنے دلچسپ تبصرے میں کہا کہ تمام تر مثبت و منفی تنقید سے قطع نظر پیپلز پارٹی کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ وہ سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر عوام میں لے آئی اور تمام تر مشکلات کے باوجود اس نے اپنے اس کارنامے کو زندہ بھی رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری میں 2018ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کامیابی دلانے کی صلاحیت ہے جس کی بنیاد ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی۔
مبصر نے اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا کہ بلاول اس موقعے پر انتخابی سیاست کے اکھاڑے میں اترنے کا اعلان کر سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو ان کے لیے لاڑکانہ سے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی نشست پر انتخاب لڑنا اور جیتنا قطعاً مشکل نہ ہوگا، اس طرح وہ قومی اسمبلی میں کم عمر ترین قائد حزب اختلاف بن سکتے ہیں جو ان کے لیے اگلے عام انتخابات سے قبل پارلیمانی سیاست کا تجربہ حاصل کرنے کا بہترین موقع ہو گا۔
(مبصرکا اندازہ درست ثابت ہوا اور نہ صرف بلاول بلکہ آصف زرداری بھی بالترتیب لاڑکانہ اور نواب شاہ سے ضمنی انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں) بلاول کے لیے، جن کا تعلق بھٹوکی تیسری نسل سے ہے، موجودہ حقائق کے ساتھ پارٹی کی نظریاتی اساس کو بحال کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔بھٹو سے بے نظیر اور پھر آصف زرداری سے بلاول کو منتقلی تک پیپلز پارٹی نے بڑے عروج و زوال دیکھے ہیں۔ مبصر کے مطابق بلاول کے لیے سب سے بڑا چیلنج پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنا ہے جو فی الحال مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے آپس میں بانٹ رکھی ہے۔
رموز سیاست سمجھنے والے کہتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت سنجیدگی اختیارکرے تو محنت کشوں، کسانوں، اقلیتوں اور خواتین میں اب بھی اس کے لیے گنجائش موجود ہے۔ بدقسمتی سے پارٹی نے سندھ میں طرز حکمرانی کی کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی جو ایسے وقت اس کے بڑے کام آ سکتی تھی۔بھٹو کی پھانسی سے بے نظیر کے قتل تک پیپلز پارٹی کو مٹانے کی بڑی سازشیں کی گئیں، 1988ء میں پیپلز پارٹی کی بھرپور انتخابی کامیابی کو گھٹانے کے لیے آئی جے آئی تشکیل دیا گیا، اس کی پہلی حکومت ختم کرنے کے لیے ''مڈ نائٹ جیکال'' منصوبہ بنایا گیا، پھر انتخابی دھاندلیوں کے لیے مہران بینک اسکینڈل سامنے آیا، اس کے باوجود اپنی خراب کارکردگی کا شکار ہونے سے قبل پارٹی یہ سارے وار سہہ گئی۔پارٹی کی قیادت بھٹو سے زرداری کو منتقل ہوئی تو 2008ء میں انتخابی کامیابی کے باوجود اس کے لیے مشکلات کا آغاز ہو گیا۔زرداری کے بارے میں پائے جانے والے عمومی تاثر کے باوجود انھیں یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان ہی کے دور صدارت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور انھوں نے اپنے صدارتی اختیارات پارلیمان کو منتقل کر کے آیندہ نسلوں کے لیے لازوال مثال قائم کی۔
بھٹوکی سیاست تین بنیادی اصولوں سامراجیت کا خاتمہ، خود انحصاری اور اقتصادی آزادی کے گرد گھومتی ہے، وہ سیاست کو عوام میں لائے، ہزاروں افراد پابند سلاسل ہوئے، کوڑے کھائے، پھانسی پر چڑھے اورکچھ نے تو خود سوزی بھی کی۔یہ دنیا کی حالیہ سیاسی تاریخ کی نادر مثالیں ہیں۔پیپلز پارٹی کی جدوجہدکی ایک طویل تاریخ ہے، جمہوری استحکام میں اس کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس کا یہ غیرمعمولی کردار خصوصاً بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کمزور پڑگیا۔
پیپلز پارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی لیکن اپنی لیڈر کے قتل کا معمہ حل نہیں کر سکی۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے پاکستان کے سیاسی محرکات کو سرے سے بدل کر رکھ دیا۔ملک کو ان کے بعد پھر ایسا کوئی رہنما نہیں ملا جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبول ہو۔بھٹو کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے بدترین مخالف بھی انھیں کرپشن کی آلودگی سے پاک، صاف ستھرا اور شفاف سیاستدان مانتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دیا، آزاد خارجہ پالیسی دی، اسلامی بلاک کو متحد کیا، ناوابستہ ممالک کی تحریک میں تاریخی کردار ادا کیا، ملک کو ایٹمی پروگرام دیا، مشرق وسطیٰ میں ہزاروں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کیے اور پہلی بھاری صنعت پاکستان اسٹیل کا قیام عمل میں لائے لیکن ان کے جانشینوں نے نوجوان بلاول کے لیے ورثے میں مشکلات چھوڑی ہیں، انھیں خراب حکمرانی اورکرپشن کے الزامات کا اضافی بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان مشکلات کا سامنا کس طرح کرتے ہیں اور آنے والے مراحل سے کیسے سرخرو ہوکرنکلتے ہیں۔