کچھ دن اسپتال میں

کافی وقت سے طبیعت نا ساز ہونے کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا


ظفرالحق میمن April 06, 2017

قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ کافی وقت سے طبیعت نا ساز ہونے کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ دل توبہت چاہتا تھا، لیکن بیماری کی وجہ سے کچھ لکھنے پڑھنے میں من نہیں لگتا تھا۔کچھ دن اسپتال میں بھی رہنا پڑا ۔ بہرحال اسپتال میں رہنے کے سلسلے میں کچھ تجربات بیان کررہا ہوں۔

سب سے پہلے یہ کہ عام طور پر ہر اسپتال میں مریضوں کی عیادت کے لیے اوقات مقرر ہوتے ہیں،کچھ لوگ ان اوقات کے بغیر اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں، جن میں کچھ تو کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن اکثر نہیں۔ بہر حال میرے ایک عزیز نے، جو حیدرآباد سے آئے ہوئے تھے، مجھے صبح 11 بجے موبائل پر فون کیا کہ مجھے اندر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ تم وقت مقررہ پر آؤ۔ تقریبا1 گھنٹے بعد پھر اس کا فون آیا کہ مجھے نہ صرف آنے نہیں دیا جا رہاہے، بلکہ عملے کے کسی آدمی نے مجھے دھکا بھی دیا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اپنا وقت ضایع نہ کرے، شام کو آئے۔ کہنے لگا میرے ساتھ کچھ دوست بھی ہیں، شام کو ہمیں سیر کرنے بھی جانا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میری طبیعت قدرے بہتر ہے، تم گھر والوں کو بتانا کہ میں ٹھیک ہوں۔یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب ہے کہ قارئین بھی اس بات کا خیال رکھیں اور مقررہ اوقات کے علاوہ کسی بھی اسپتال میں گھسنے کی کوشش نہ کریں۔

دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسپتال بنوانے یا اعلان کرنے کا زیادہ شوق ہوتاہے، شاید اس طرح جیسے شاہجہاں کو عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ کچھ دن پہلے ٹھٹھہ میں 500 بستروں کے اسپتال بنوانے کا اعلان ہوا۔ ٹنڈو اللہ یار کی ایک لیڈر صاحبہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ جلد ہی وہاں بھی 1000 بستروں کے اسپتال کا اعلان ہونے جارہا ہے، جو کسی بڑے صاحب کی آمد پر ہو گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مزے کی بات ہے کہ موجودہ اسپتالوں یا ڈسپنسریوں میں نہ تو دوائیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر اور دیگر عملہ موجود نہیں ہوتا ہے۔

کاغذات میں ان کا وجود تو ہوتا ہے، لیکن وہ موجود نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح جس طرح اسکولوں میں اساتذہ کاغذوں میں تو ہوتے ہیں، لیکن وہ خود نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریض دورکسی بڑے شہرکے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور وہ شہرکراچی علاوہ کوئی اورنہیں ہوتا۔ آپ اندازہ لگایے کہ کراچی آنا، وہاں اسپتال میں داخلہ ملنا اور تیمارداروں کے لئی رہنے سہنے اور کھانے پینے کا کتنا خرچہ اورکتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر تیماردار تو اسپتالوں کے فٹ پاتھوں پر چادریں بچھاکر بیٹھتے اور سوتے ہیں، چاہے گرمی ہو یا سردی یا بارش۔پتا نہیں وہ بیت الخلا یا دوسری سہولتیں کہاں سے پوری کرتے ہونگے؟

دنیا کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر بیماریاں صاف پانی کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ Water is Life۔ اس علاوہ ایک مقولہ ہے، Prevention is better than Cure یعنی پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ہمارے اسکول کے نصاب میں ایک مضمون ہوتا تھا، Physiology & Hygieneیعنی علم بدن اور حفظان صحت ) آجکل وہ مضمون نصاب میں شامل نہیں ہے(، جس میں جسم اور گھر کی صفائی ستھرائی کے متعلق مکمل معلومات اور ہدایات ہوتی تھیں، جس میں صاف پانی کے لیے خصوصی ہدایات درج تھیں۔ افسوس ہے کہ ملک کو 70سال ہوگئے ہیں، لیکن ابھی تک صاف پانی مہیا نہیں کیا جاسکا ۔ یہ نہیں کہ 1947سے پہلے ملک میں صاف پانی میسر نہیں ہوتا تھا۔

کراچی کی مثال لے لیجیے۔ یہاں کی سڑکیں روزانہ رات کو صاف پانی سے دھلتی تھیں۔ اس زمانے میں گاڑیاں عام نہیں ہوتی تھیں۔ عام سواری تانگے اور بگیاں ہوتی تھیں، جنھیں گھوڑے کھینچتے تھے۔ اس کے علاوہ اونٹ اور گدھا گاڑیاں بھی مال برداری کے کام آتی تھیں۔ سڑکوں کے دونوں اطراف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جمعدار بیٹھے ہوئے تھے، جو ان جانوروں کا گرم گرم فضلہ اٹھا لیتے تھے۔ اس طرح سڑکیں دن میں بھی صاف رہتی تھیں۔ گلیوں میں بھی جھاڑو باقاعدگی سے لگایا جاتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تب ممکن تھا جب کہ کراچی کی آبادی کم تھی۔ مان لیا، لیکن اس وقت کے ایم سی کے وسائل بھی تو کم تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ City Fathers کو شہر سے انسیت تھی اور ان میں ایک طرح کا Sense of Belonging ہوتا تھا۔Where there is a will, there is a way۔ سیاست نہیں ہوتی تھی۔ باری باری مسلمان، پارسی اور ہندو کے ایم سی کے میئر بنتے تھے۔الا الا خیر صلا۔

چھوٹے قصبوں میں بھی بہشتی مشکیزوں سے نالیوں میں پانی ڈالتے تھے اور جمعدارصاف کرتے تھے۔ اس طرح صفائی بھی رہتی تھی اور بدبو بھی نہیں پھیلتی تھی۔اس طرح سڑکوں اورگلیوں میں جھاڑو بھی باقاعدگی سے لگایا جاتا تھا۔

ہر سال اسکولوں میں بچوں کو ملیریا سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے Quinin کی پیلے رنگ کی کڑوی گولیاں کھلائی جاتی تھیں، جو بعد میں ان کی جگہ پر سفید رنگ کی کم کڑوِی گولیوں سے بدل دی گئیں تھیں۔ اس زمانے میں زیادہ تر کنوؤں سے پینے کا پانی نکالا جاتا تھا۔ ان میں ہر سال Potassium Permanganate نامی کیڑا مار دوا ڈالی جاتی ہے جس کا رنگ بینگنی ہوتا تھا اور اس میں اس دوا کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا تھااور وہ رنگ کچھ دنوں میں زائل ہو جاتا تھا۔ اس زمانے میں پبلک ہیلتھ کی طرف سے واٹر سپلائی کا نظام کم ہوتا تھا، لیکن جہاں جہاں بھی ہوتا تھا ان کی ٹنکیوں میں کلورین ڈالی جاتی تھی۔ لیکن آج کل تقریبا ہر قصبے میں پبلک ہیلتھ کی ٹنکیاں ہیں، لیکن ان میں کلورین نہیں ڈالی جاتی ہے۔کلورین کی خریداری کتابوں میں تو درج ہوتی ہے، لیکن ڈالی نہیں جاتی۔ اس امر کا اظہار سندھ ہائی کورٹ کی ایک observation میں بھی کیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے لیے بھی اسکول ہیلتھ سروس قائم کی گئی ہے، جس کے تحت ڈاکٹر صاحبان مہینے میں ایک مرتبہ ہرکلاس کے طالب علم کا معائنہ کریںگے اور بچوں کو حفظان صحت کے بارے میں ہدایات دیں گے اور اگر کسی بچے کو مزید علاج معالجے کی ضرورت ہوگی تو والدین کو آگاہ کریں گے۔لیکن تاحال ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ ہم پہلے تو اسکولوں میں ماسٹروں کے غائب رہنے کا رونا روتے تھے، اب ڈاکٹر صاحبان کا۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں تحفظات ۔ ہمیں خاندانی منصوبہ بندی پر بھی تحفظات ہیں، تو پولیو کے قطرے پلانے پر بھی ۔ خاندانی منصوبہ بندی کا تعلق صرف زیادہ بچے پیدا نہ کرنے سے نہیں ہے، بلکہ عورتوں کی صحت سے بھی ہے۔ مسلسل ہر سال یا دوسرے سال زچگی سے عورتوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے وقفہ ضروری ہوتا ہے۔ پولیو کے قطروں کے بارے میں معلوم نہیں ان تحفظات والے حضرات نے کس لیبارٹری سے ان قطروں کو چیک کروایا ہے۔

ماشااللہ ہم نے کتنی ترقی کرلی ہے کہ ہم منرل واٹر پیتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ وقتاً فوقتاً اخبارات میں منرل واٹرکی کمپنیوں کے بارے میں خبریں آتی ہیں کہ فلاں فلاں کمپنیوں کے سیمپل لیے گئے ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔اس کے باوجود ان کمپنیوں کا پانی عام بک رہا ہے اور ہم مزے لے کر دھڑا دھڑ پی رہے ہیں۔ کولا ڈرنکس کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ مضر صحت ہیں۔ ان سے کموڈ بھی صاف کیے جاتے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ ان کے بغیر ہمارا گزارا مشکل ہے۔ہر گھر میں بچوں کے لیے اور ہر محفل مہمانوں کے لیے کولڈ ڈرنک کا ہونا ضروری ہے۔

ہمارے ملک میں ملاوٹ بھی عام ہو گئی ہے۔ پہلے پہلے تو کالی مرچ کی جگہ پپیتے کے بیج ، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے اور پتہ نہیں کیا کیا۔ دوائیں بھی جعلی، دو نمبر، تین نمبر اور اب تو پتہ نہیں کونسا نمبر چل رہا ہے؟ اب تو ماشااللہ گدھے کا گوشت بھی چل پڑا ہے۔ آپ کے لیے یہ بات باعث خوشی ہوگی کہ گدھوں کی کھالیں برآمد ہوتی ہیں، جس سے ہمارے ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہے ناں خوشی کی بات؟ گذشتہ ہفتے ٹی وی پر خبر آئی کہ فیصل آباد سے 93من گدھے کا گوشت پکڑا گیا ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی کہ اس گوشت کا کیا بنا؟

کافی سال پہلے پنجاب سے ایک واعظ صاحب نے ایک مقولہ ارشاد فرمایا تھا، ''اک ہوندا اے مسئلا، دوجھی ہوندی اے مسئلے دی ماں'' ۔ تو ہمارے ملک کا مسئلہ ہے حفظان صحت پر عمل نا کرنا۔ حالانکہ اس سے خاندان کی سائز بھی کنٹرول ہو سکتی ہے، جس سے مائیں صحت مند رہ سکتی ہیں اور عام لوگ بیماریوں سے بھی بچے رہیں گے اور زیادہ اسپتالوں کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں