مصباح الحق پاکستانی کرکٹ کا بُردبار اور باوقار نام

ایک بردبار اور باوقار کپتان کی حیثیت سے پاکستانی کرکٹ کے لئے مصباح کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گیں۔


سعید احمد April 06, 2017
مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم کوئی ورلڈ کپ نہ جیت سکی لیکن ان کا ایک منتشر اور لڑکھڑاتی ٹیم کو ہر موقعے پر متحد اور یکجا رکھنا ورلڈ کپ جیتنے سے بھی بڑی کامیابی ہے۔ فوٹو: فائل

مجھے جولائی 2010ء کا وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے، جب انگلینڈ کے خلاف لارڈز کے تاریخی میدان میں گرین کیپس پہنے تین کھلاڑی پوری دنیا میں بدنامی کا باعث بنے اور پھر پاکستان میں کرکٹ کرپشن کی داستانیں جنگل کی آگ کی طرح بھڑکائی جانیں لگیں۔ پاکستان کے تین میچ وِننگ کھلاڑیوں پر کرپشن کے الزامات لگے اور پھر ان پر کرکٹ کے دروازے بند کر دیئے گئے۔

اِس مشکل صورت حال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک انتہائی دھیمے مزاج شخص کے کاندھوں پر کپتانی کی ذمہ داری ڈالی جو انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل ہی نہ تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ قسمت کی دیوی جس پر مہربان ہو تو پھر ریت بھی سونا اُگلنے لگتی ہے، ایسا ہی کچھ مصباح الحق کے ساتھ بھی ہوا۔

کرپشن اسکینڈل کی وجہ سے آئی سی سی نے سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر پابندی عائد کی تو اِس وقت کے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے مصباح الحق سے ملاقات کرکے انہیں ٹیم کا کپتان بننے کی پیشکش کی جسے کرکٹ شائقین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہت سے کرکٹ شائقین کی طرح میرے دماغ میں بھی اِس منفی سوچ نے جنم لیا کہ مصباح الحق کو بھی بہت جلد قربانی کا بکرا بنا کر قصہِ پارینہ بنادیا جائے گا۔

مصباح الحق نے جب قومی ٹیم کے کپتان کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اِس وقت انہیں سست بیٹنگ کے باعث ''مسٹر ٹُک ٹُک'' کے نام سے پکارا جاتا تھا؛ اور جب وہ ون ڈے میں بیٹنگ کےلئے کریز پر آتے تو مجھ سمیت نہ جانے کتنے ہی لوگ انہیں بُرا بھلا کہتے اور سمجھتے کہ مصباح تو آتے ہی مخالف ٹیم کو جتوانے کے لئے ہیں۔

لیکن مصباح تمام تر تنقیدوں کے باوجود، اچھے اور بُرے کی پروا کئے بغیر، بہتے پانی کی طرح سخت چٹانوں اور سنگریزوں پر اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب مجھ سمیت وہ تمام لوگ جو ان پر ''مسٹر ٹُک ٹُک'' کی پھبتی کسنے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتے تھے، وہ بھی انہیں مردِ بحران کہنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ تب یہ وہ مصباح بن چکے تھے جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیمم نے نہ صرف آسٹریلیا کو متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی بلکہ 2016ء میں نیوزی لینڈ کو زیر کرکے ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان کو نمبر ون بنا دیا تھا۔

ہر کھلاڑی کی طرح مصباح الحق کے کیریئر میں بھی بہت سے یاد گار اور ناقابل فراموش لمحات آئے لیکن اِس حوالے سے مصباح الحق کا کہنا ہے،
''میرے لئے سب سے یادگار لمحہ وہ رہا جب پاکستانی ٹیم ٹیسٹ میں نمبر ون رہی، اور جس چیز کا مجھے ہمیشہ پچھتاوا رہے گا، وہ یہ ہے کہ میں پاکستان کو ورلڈ کپ نہ جتواسکا۔''

آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں صرف 56 گیندوں پر سینچری اسکور کرکے مصباح الحق نے لیجنڈ ویسٹ انڈین کرکٹر سر ویوین رچرڈز کا تیز ترین سنچری کا ریکارڈ برابر کیا اور اسی ٹیسٹ سیریز میں فتح کے بعد پُش اپس لگا کر منفرد انداز میں جیت کی خوشی نے مصباح الحق کے کیریئر کو چار چاند لگادیئے۔

گزشتہ برس پاکستان کو ٹیسٹ میں نمبر ون ٹیم بنانے کے بعد مصباح الحق ریٹائرمنٹ لینا چاہتے تھے لیکن چیئرمین پی سی بی کی درخواست پر انہوں نے پاکستان کرکٹ کے مفاد میں ریٹائرمنٹ ملتوی کرتے ہوئے بعد میں کسی مناسب وقت پر کرکٹ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔ مصباح الحق نے گزشتہ برس آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں شکست کُھلے دل سے تسلیم کی اور پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن سے قبل ہی اعلان کردیا کہ وہ جلد ریٹائرمنٹ سے متعلق فیصلہ کرلیں گے۔

مصباح الحق 2012ء میں ٹی ٹوئنٹی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے تھے اور جب 2015ء میں پاکستان کو بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں عبرتناک شکست ہوئی تو انہوں نے ون ڈے سے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا لیکن ڈومیسٹک اور لیگ کرکٹ جاری رکھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے جب 2015ء میں ''پاکستان سپر لیگ'' (پی ایس ایل) کرانے کا اعلان کیا تو مصباح الحق کو اسلام آباد یونائیٹڈ کا کپتان مقرر کیا گیا، اور پھر انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے نوجوان کھلاڑیوں کو مستفید کرتے ہوئے ٹیم کو پہلے پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن کا چیمپئن بنوادیا۔

اگر مصباح کے کیریئر پر ایک نظر ڈالی جائے تو انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز مارچ 2001 میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے کیا لیکن پھر انہیں ایک لمبے عرصے کےلیے ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ اِس کے بعد اُن کے کیریئر کا ایک بار پھر سے 2009 میں آغاز ہوا اور تب سے اب تک وہ 72 ٹیسٹ میچز کی 126 اننگز میں 45.84 کی اوسط سے 4951 رنز بنا چکے ہیں جبکہ وہ 21 اپریل سے ویسٹ انڈیز کے خلاف شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز کو اپنی بہترین کارکردگی سے یادگار بنانے کے خواہش مند ہیں۔

مصباح الحق کو پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے کامیاب کپتان بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک روزہ میچز کا آغاز بھی انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپریل 2002ء میں کیا اور مارچ 2015ء میں اپنا آخری میچ کھیلنے تک انہوں نے 162 میچوں میں 43.40 کی اوسط سے 5122 رنز بنائے۔ مصباح الحق ون ڈے کرکٹ کے واحد کھلاڑی ہیں جو 42 نصف سنچریاں بنانے کے باوجود ایک بار بھی 100 کا ہندسہ عبور نہ کرسکے۔ ٹی ٹوئنٹی میں مصباح الحق نے 39 میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 37.52 کی اوسط سے 788 رنز بنائے۔

مصباح الحق ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کے بعد ہر قسم کی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہوجائیں گے لیکن ان کی کمی ابھی سے شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی ہے۔ ایک بردبار اور باوقار کپتان کی حیثیت سے پاکستانی کرکٹ کے لئے ان کی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی، گو کہ مصباح الحق کی قیادت میں قومی ٹیم کوئی ورلڈ کپ نہ جیت سکی لیکن ان کا ایک منتشر اور لڑکھڑاتی ٹیم کو ہر موقعے پر متحد اور یکجا رکھنا ورلڈ کپ جیتنے سے بھی بڑی کامیابی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔




اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں