مصباح کے کیریئر کی دھوپ چھاؤں

افسوس پاکستان میں ازخود جانے کی روایت نہیں.


Saleem Khaliq April 06, 2017
افسوس پاکستان میں ازخود جانے کی روایت نہیں. فوٹو : فائل

WAGAH/LAHORE: آخرکار مصباح الحق نے بھی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر ہی لیا،43 سال کی عمر میں اب ان کیلیے کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا آسان بھی نہیں رہا تھا، ویسے یہ اعلان انھیں خود ہی کرنا چاہیے تھا مگر ایک دن قبل چیرمین پی سی بی شہریارخان نے یہ کہا کہ ''مصباح ویسٹ انڈیز کیخلاف کیریئر کی آخری سیریز کھیلیں گے'' اس سے قبل وہی یہ کہہ چکے تھے کہ انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز بنا دیا جائے گا، گوکہ مصباح اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے مگر محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی ڈیل موجود ہے، سینئر بیٹسمین نے اس وقت پاکستانی ٹیم کو سنبھالا جب اسپاٹ فکسنگ تنازع نے اسے کافی پیچھے دھکیل دیا تھا، اس دوران خصوصاً ٹیسٹ میں کارکردگی اچھی رہی گزشتہ برس چاہے چند روز کیلیے ہی سہی ورلڈ نمبر ون کا اعزاز بھی ملا، مصباح کی خاص بات کمٹمنٹ تھی، وہ ظہیر عباس، جاوید میانداد یا انضمام الحق کے جیسے عظیم بیٹسمین نہیں تھے مگر اپنی صلاحیت کے مطابق ہمیشہ سو فیصد کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے،سخت محنت کی بدولت ہی اس عمر تک کھیلنے کے قابل ہوئے، فکسنگ کے حوالے سے بھی کبھی ان کا نام سننے میں نہیں آیا، وہ تنازعات سے دور رہتے تھے اور ان کی ساکھ ایک سلجھے ہوئے کرکٹر جیسی رہی۔

مصباح نے اپنا کیریئر بھی بیٹنگ اننگز کی طرح آگے بڑھایا، ابتدا میں وہ محتاط انداز اپنا کر بورڈ کی باتیں مانتے رہے، پھر جب سیٹ ہوئے تو من مانی بھی کی، یو اے ای کے میدانوں میں ان کا راج رہا مگر گزشتہ برس انگلینڈ کیخلاف سیریز برابر کرنا بھی بڑا کارنامہ تھا،اس دوران لارڈز ٹیسٹ میں سنچری بھی یادگار رہی، اسی لیے جاتے جاتے انھیں وزڈن کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں بھی شامل ہونے کا موقع مل گیا، یہ اعزاز انگلینڈ میں پرفارمنس کی بنیاد پر ہی دیا جاتا ہے، ٹیسٹ میں کارناموں سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں مصباح اتنے کامیاب نہ رہے، خصوصاً ورلڈکپ2015 میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے سبب انھیں قیادت بھی چھوڑنا پڑی، پھر انھوں نے اپنے منظور نظر اظہر علی کو کپتان بنوا دیا جو ان سے بیحد متاثر تھے، اسی لیے گرین شرٹس مزید زوال پذیر ہوئے اور اب اگلے ورلڈکپ میں براہ راست شرکت کے لالے پڑے ہوئے ہیں،پاکستان میں مرحومین کے ساتھ ریٹائر ہونے والوں کی بھی خامیاں بھلا کر صرف تعریفیں ہی کی جاتی ہیں مگر مصباح کے حوالے سے میں چند حقائق بھی بیان کرنا چاہوں گا جو شاید ان کی ''ٹویٹر فورس'' کو پسند نہ آئیں، ایک تو انھوں نے بہت زیادہ دفاعی انداز اپنایا جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم''مصباح اسٹائل'' وائرس کا شکار ہو گئی، اب باوجود کوشش وہ دفاعی خول توڑا نہ جا سکا،اسی لیے ہم اب بھی محدود اوورز میں پرانے دور والی کرکٹ کھیل رہے ہیں، اسی طرح مڈل آرڈر بیٹنگ لائن میں انھوں نے کسی نئے کھلاڑی کو سیٹ نہ ہونے دیا، فیصل اقبال اور فواد عالم جیسے کئی پلیئرز ان کے دور میں نظر انداز ہوئے،اسی طرح ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ان کی ٹائمنگ اچھی نہ رہی۔

گزشتہ برس جب ٹیم نمبر ون بنی تو ان کیلیے آئیڈیل وقت تھا مگر اس وقت بعض خوشامدیوں نے انھیں باور کرایا کہ وہ ابھی مزید کئی برس کھیل سکتے ہیں، شہریارخان نے بھی ایسے بیانات دیے جیسے وہ مصباح کو تاحیات کپتان بنا رہے ہیں مگر یہ کوئی کرکٹ بورڈ کی سربراہی تھوڑی تھی کہ طویل عمر تک وہ برقرار رہتے، بڑھتی عمر میں سب سے پہلے بیٹ نے بے وفائی کی ، دورۂ آسٹریلیا میں اندازہ ہو گیا کہ اب کپتان کے جانے کا وقت آ گیا تھا، برے وقت میں اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، سب سے پہلے چیئرمین نے ہی نگاہیں پھیریں، انضمام الحق نے اپنے دور قیادت میں بھی مصباح کو دور دور رکھا پھر بطور چیف سلیکٹر بھی ان کی کوشش رہی کہ جلد از جلد انھیں گھر بھیج دیا جائے، انھوں نے کئی ایسے اشارے دیے کہ ''مصباح کو ریٹائر ہو جانا چاہیے ، ہم مستقبل کیلیے نوجوانوں کی ٹیم بنانا چاہتے ہیں'' مگر مصباح نہیں چاہتے تھے کہ کیریئر کا اختتام کلین سوئپ شکست پر کریں، اگلا شکار بھی ویسٹ انڈیز کی صورت میں بالکل کمزور تھا لہذا ڈیل ہوئی کہ اس سیریز کے بعد وہ ریٹائر ہو جائیں گے، ایسے میں بعض لوگوں نے چیئرمین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیتنے کے بعد مصباح کا ارادہ بدل جائے اور وہ مزید کھیلنے کی خواہش ظاہر کر دیں ، اسی لیے چیئرمین کو ازخود اعلان کرنا پڑا کہ مصباح اگلی سیریز کے بعد ریٹائرہو جائیں گے، اب مصباح کو ڈائریکٹر کرکٹ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں، یقیناً ان کی بڑی خدمات ہیں اورکوئی ذمہ داری ضرور سونپنی چاہیے لیکن جیسے بھارت نے راہول ڈریوڈ کو جونیئر لیول کی ٹیموں کے ساتھ مصروف رکھا ہے ویسا ہی کریں، مصباح کو انڈر 19 و دیگر جونیئرزکی تیاری کا کام سونپیں، اکیڈمی میں بھی کوئی عہدہ سونپا جا سکتا ہے، اس دوران وہ کوچنگ کورسز کرلیں تاکہ اس شعبے میں مزید آگے بڑھ سکیں۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ مصباح الحق کی خدمات سے کرکٹ بورڈ میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، غیرملکی کرکٹرز سے ان کے خوشگوار تعلقات ہیں جنھیں استعمال کر کے وہ پی ایس ایل کیلیے انھیں پاکستان بلانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، افسوس پاکستان میں ازخود جانے کی روایت نہیں، یا تو پلیئر کو نکالا جاتا ہے یا پھر کوئی ڈیل ہوتی ہے، انضمام الحق نے ریٹائر ہونے کیلیے بورڈ سے ایک کروڑ روپے نقد لیے تھے شکر ہے مصباح نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، وہ بس فتح پر اختتام چاہتے تھے اسی لیے ویسٹ انڈیز سے سیریز کھیلنے پر اصرار کیا، بطور ٹیسٹ کپتان اظہر علی بہترین انتخاب ہیں لیکن بورڈ سرفراز احمد کو ہی ذمہ داری سونپے گا،اظہر خود بھی مایوس ہو کر نائب کپتانی چھوڑ چکے ہیں،مصباح کی ملک کیلیے جو خدمات ہیں ان کے صلے میں شایان شان انداز سے رخصت کرنا چاہیے، کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا یقیناً وہ بھی نہیں ہیں مگر انھوں نے ایک کمزور ٹیسٹ ٹیم کو مضبوط بنانے کیلیے جو محنت کی اس پر انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں