بیاد پروفیسر مجتبیٰ حسین
والد محترم کو ادب کی دنیا سے اوجھل ہوئے 28 برس بیت گئے
والد محترم کو ادب کی دنیا سے اوجھل ہوئے 28 برس بیت گئے۔ یہ بات یکم اپریل 1989ء کی ہے جب پہلی بار بے نظیر شہید نے اقتدار سنبھالا تھا تو انھوں نے ملک بھر کے ادبا، شعرا اور دانشوروں کا ایک عظیم الشان جلسہ لاہور میں منعقد کیا تھا۔ یہ سہ روزہ جلسہ ملک کے ہر حصے کے ادیبوں اور شاعروں کا نمایندہ تھا، جس میں ملک میں نافذ مارشل لا جو ضیا کی دین تھا اور ان کی باقیات پر گفتگو کی گئی۔ وقت گزرتا گیا قدآور علمی ادبی شخصیات رخصت ہوتی چلی گئیں۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین الٰہ اباد یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ ایم اے تھے، آپ سید باقر حسین ڈپٹی کلکٹر کے چھوٹے بیٹے تھے، بڑے بھائی سید مصطفیٰ حسین بھارت میں ہی رہ گئے۔
آپ نے سخت جہاد آفریں زندگی کراچی میں گزاری، حالانکہ ان دنوں ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بہت کمی تھی مگر ترقی پسندی کا ٹھپہ ان پر لگ گیا تھا، اس لیے سرکاری حکومت کی پکی نوکری آپ کے لیے مشکل بن گئی تھی۔ البتہ زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کراچی کے روح رواں تھے، وہ مجتبیٰ حسین پر مہربان تھے۔ وہ ایک ذریعہ معاش تھا اور دادی مرحومہ جو اثاثہ خصوصاً گنی اور سونا لائیں، گاہے بگاہے کام آتا رہا۔ ایوب خان کے مارشل لا سے قبل چینی سفارت خانہ کے شعبہ ابلاغ عامہ سے منسلک رہے۔ چند برس بعد 1962ء میں نیشنل کالج کے پرنسپل حسن عادل نے شعبہ اردو کے انچارج کی حیثیت سے آپ کا تقرر کیا۔ مجتبیٰ صاحب کے آتے ہی کالج میں اساتذہ کی تمام مضامین کی ایک مضبوط ٹیم بن گئی، جن میں پروفیسر یحییٰ سلام، پروفیسر ظفر عمر زبیری کے علاوہ کلیہ سائنس نے بھی ترقی کی۔ آپ تقریباً ایک عشرے کے قریب وہاں پر فرائض انجام دیتے رہے اور بعدازاں فیڈرل کیپٹل ایریا میں سراج الدولہ کالج قائم کیا اور پرنسپل کے فرائض اپنے ایک ساتھی کو دے دیے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 1974ء کی ایک شام میر غوث بخش بزنجو گھر تشریف لائے، ان کے ہمراہ بی ایم کٹی بھی تھے اور بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا قیام اور اردو کو وہاں کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کی بات کی، تو والد محترم نے تقریباً 14 برس یونیورسٹی کی خدمت کی۔ آپ بلامعاوضہ شام کو بھی کلاسیں لیتے تھے اور تمام اساتذہ سے یہ کہا کرتے تھے کہ یہاں ایک مشنری کے جذبے کے تحت کام کرنا ہے، پروفیسر سحر انصاری اس بات کے گواہ ہیں۔ اچھے اساتذہ کے لیے دائیں اور بائیں بازو کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ مجتبیٰ صاحب کے پاس رات گئے تک لڑکے پڑھنے کے شوق میں گھر آتے تھے، عموماً دس بجے تک گرمیوں کے دنوں میں طلبا کی اکثریت رہتی تھی۔ آپ طلبا کے ساتھ ڈیرہ بگٹی تک گئے۔ میں بھی کئی برس وہاں رہا، سارا نظارہ میرے سامنے کا ہے۔ مجتبیٰ حسین وہاں ایسا رچ بس گئے جیساکہ وہاں کے مقامی ہوں۔
طلبا ان کو بے حد پسند کرتے تھے، وہ طلبا کی شخصی تربیت، رکھ رکھاؤ، زبان اور بیان کا خاصا خیال رکھتے تھے۔ وہاں کے ایک درویش صفت عالم جمالدینی، مجتبیٰ حسین کا بے حد خیال کرتے تھے اور جب وہ بے نظیر کی آواز کے اعلان پر لاہور جانے کو تیار ہوئے اور قدامت پرستی کے غلط رسم و رواج پر بولنے کے لیے تیار ہوئے تو تقریباً دو بوگیاں بھر کے لوگ روانہ ہوئے، پورے راستے ایک نویدنو پر گفتگو جاری رہی۔ کیا معلوم تھا کہ اس خوش رنگ قافلے کا انجام کیا ہوگا؟ عام لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم نے اسی قسم کے ایک جلسے میں سید سبط حسن کو گنوا دیا اور دوسرے جلسے میں مجتبیٰ حسین کو کھو بیٹھے۔
جلسہ ختم ہوا، سب کی خیر خیریت سے واپسی کی تیاری ہوگئی، کوئٹہ شہر کے لوگ بھی واپس جا رہے تھے، ہوٹل سے گاڑیاں ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو رہی تھیں۔ والد صاحب کو لینے کے لیے بھی پی ٹی وی کی گاڑی آ گئی تھی، مگر عین اسی وقت ڈاکٹر طارق عریز ہوٹل آن پہنچے۔ وہ ایک نوجوان ادیب تھے جو کہ معذور تھے، ان کی ایک اسپیشل گاڑی تھی جس کو وہ چلا کر لاہور ہوائی اڈے لے جا رہے تھے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ مجتبیٰ حسین ان کے ساتھ جائیں۔ بالآخر مجتبیٰ حسین نے ڈاکٹر طارق عریز کا مان رکھنے کے لیے ان کی کار کا انتخاب کر لیا۔ غالباً انھیں یہ مصرع یاد آگیا کہ:
ہوتا ہے آبگینے سے نازک بشر کا دل
وہ بھی ایک اسپیشل شخص، جو صاحب بیاض ہو۔ وہ یکم اپریل 9 بجے کے قریب گاڑی میں بیٹھ گئے اور مجھے کراچی ہوائی اڈہ آنے کے لیے فون کردیا کہ میں 11 بجے لینے آجاؤں، لہٰذا میں نے اسی اعتبار سے نکلنے کی تیاری کرلی، مگر جوں ہی کچھ دیر میں نکلنے کی تیاری کی کہ فون آیا مجتبیٰ حسین کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ فون کرنے والے فخر الزمان تھے۔ کسی نے کہا کہ یہ اپریل فول کی کال ہے مگر دل نہ مانا۔ یہ مذاق نہیں ہوسکتا، دل پکڑ کر بیٹھ گیا، ہوش جاتے رہے، لگا کہ دل بند ہونے کو ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک اور فون آیا وہ فخرزمان کا فون تھا کہ انیس، مجتبیٰ صاحب بس کی ٹکر سے ہلاک ہو گئے، دماغ پر چوٹ لگی اور اس حصے پر کار کی اگلی سیٹ پر جہاں وہ بیٹھے تھے، سگنل پر ٹرک ٹکرا گیا۔ ادب کی دنیا اشکبار ہوئی اور میں تابوت لینے ایک بجے ایئرپورٹ آیا۔ اس طرح ادب کی دنیا کا یہ شہسوار رخصت ہوا۔ بی بی سی، آل انڈیا، ریڈیو پاکستان کے اخبارات نے یہ سوگ کی خبر سنائی۔ خاص طور سے بی بی سی پر کئی ماہ تک یہ خبر چلتی رہی۔
والد مرحوم کا ہر عمل زندہ و جاوید ہے، ہزاروں طالب علموں کو تعلیم کے علاوہ کردار کے پل صراط سے گزارنا، سراج الدولہ کالج فیڈرل کیپٹل ایریا میں قائم کرنا، جہاں کم مایہ طلبا سے فیس بھی نہ لی جاتی تھی، اکثر طلبا کی فیس معاف کردی جاتی تھی، جو درخواستیں دیتے تھے۔ کالج کی تعمیر میں والد نے اپنے احباب سے رقم لی اور ہر ماہ برسوں یہ کام جاری رہا۔ اس کالج کے قیام میں راجہ صاحب آف محمود آباد کی بھی اعانت قابل ذکر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جن دنوں کالج تعمیر ہو رہا تھا یہ وہی دن تھے جب بھٹو شہید روس کے اشتراک اور معاونت سے اسٹیل مل بنوا رہے تھے۔ انھی دنوں والد محترم کے پاس سوویت یونین کراچی کے کونسل جنرل کا فون آیا تھا کہ وہ معاونت کرنا چاہتے ہیں۔
مگر وہ انکار کرگئے اور اپنے جوتے کا وزن کسی اور کے ذمے نہ کیا، انھی کے اس رویے نے مجھے جرأت بخشی کہ اسٹیل مل کی نوکری میں نے بھی ٹھکرادی، کیونکہ ہم لوگ سوشلسٹ نظریات کے حامی نہ کہ کرائے کے کارکن تھے۔ یہ درس والد محترم کا ہے کہ نظریہ اور موقف برائے فروخت نہیں ہوتے، اسی لیے ان کی توقیر نظریات کی دنیا میں مسلم ہے اور ادبی دنیا میں ان کا مقام بلند ہے۔ سیکڑوں طلبا اور طالبات ان کے مقالات، ادبی تحریروں سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جوش ملیح آبادی کی تحریر، جو انھوں نے اپنی کتاب ''یادوں کی برات'' میں لکھی وہ صفحہ 273 پر موجود ہے، اس کی چند سطور ماضی کا جونپور، حال کا وطن پاکستان، الٰہ آباد یونیورسٹی کے مایہ ناز گریجویٹ، سراج الدولہ کالج کے قابل فخر پروفیسر فکری اعتبار سے اپنی تلوار، کبھی کبھی منہ کا مزا بدلنے کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں، آب دار شعر کہتے ہیں، مگر ان کا اصل مقام انتقاد اور سیاست ہے۔ انتقاد کے وقت ان کی نگاہ عکس ریز (X-Rays) کا کام کرتی ہے۔ ادب کے بدن میں ڈوب کر اس کے تمام مصائب اور محاسن کا معائنہ کرلیتی ہے اور ان کی نقاد جودت اس بلا کی نوکیلی ہے کہ پتھروں تک کو برسا دیتی ہے اور فولاد تک میں ڈوب جاتی ہے۔
ان کی تنقیدی کتب طلبا کے لیے ایک بیش بہا خزانہ ہیں۔ ہر سال طلبا اور طالبات ان کی نگارشات افسانے، ڈرامے، تنقیدی کتب پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرتے ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ان کے نام پر ایک ہال موجود ہے۔ ان کی موت کے دو برسوں تک ان پر جرائد اور رسائل نکلتے رہے، مگر گزشتہ دس برسوں سے ان کی ذات پر یاد رفتگاں پر جو پروگرام آرٹس کونسل کراچی میں ہوئے ہیں، ان پر گفتگو نہیں ہوتی، مگر وہ اب بھی اپنے بنائے ہوئے کالج، کتابوں کی شکل خصوصاً تنقیدی ادب میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر ہلال نقوی دوبارہ ان کی کتب کی اشاعت میں کوشاں ہیں۔ اختتام گفتگو پر مجھے حسین انجم، مظہر جمیل، مسلم شمیم، فوزیہ وحید، جمال نقوی، پروفیسر سحر انصاری، حسن عابدی، امیر امام، محسن احسان ودیگر کا شکریہ ادا کرتا چلوں جو کبھی کبھی انھیں یاد کرلیتے ہیں۔ پروفیسر ضیا علیگ نے پروفیسر صاحب کے متعلق فرمایا ہے:
ذوق علم و ادب کے پردے میں
کام تھا شرح کائنات اس کا
اب مزید تاب سخن ممکن نہیں
اور رخصت ہوتے ہوئے ان کے اس شعر پر اختتام محفل
یہ میرا دل ہے محبت کی بارگاہ ہے یہ
یہ آئینہ نہیں جس پر غبار ٹھہرے گا
(مجتبیٰ حسین)