ہماری تعلیم اساتذہ کرام اور نئے ڈاکٹر

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری اِن محترم استانیوں اور دیگر اساتذہ کرام سے جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں

tanveer.qaisar@express.com.pk

UMERKOT:
مرکزی، صوبائی حکومتوں اور صوبائی و مرکزی وزرا کا دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے میدانوں میں بہتری لانے اور ان شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ کئی جگہ پر ان کوششوں کے مثبت اثرات بھی بر آمد ہُوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کے کئی اسکولوں اور کالجوں کو بہتر بنانے اور اسلام آبادی طلبا اور طالبات کو بہترین ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے محترمہ مریم نواز شریف کی مساعی جمیلہ ۔اور جناب شہباز شریف کی طرف سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کی اسکول کی بچیوں کے لیے ماہانہ ایک ہزار روپے وظائف کا اعلان۔ اور ملک کے کئی حصوں میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے مستحقین کے لیے ''صحت کارڈز'' کا اجرا۔مگر کیا ان اقدامات کو کافی قرار دیا جا سکتا ہے؟

مجھے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ضلع سیالکوٹ، ضلع نارووال، تحصیل ظفروال اور تحصیل ڈسکہ کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے، جن براہ راست مشاہدات اور تجربات کا سامنا کرنا پڑا ہے، سچی بات یہ ہے کہ اِن کا احوال بڑا ہی تلخ ہے۔ جناب نواز شریف نے مذکورہ علاقوں سے تین وفاقی وزیر بنا رکھے ہیں۔ تینوں صاحبان کے پاس اہم ترین وزارتیں ہیں۔ احسن اقبال صاحب ''سی پیک'' کے عظیم الشان منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جو کوششیں دن رات کر رہے ہیں، ان کی تحسین ہر کوئی کر رہا ہے۔

اُنہوں نے اپنے انتخابی حلقے، نارووال، میں قابلِ ذکر اور قابلِ تعریف ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں۔ یہ نظر بھی آ رہے ہیں۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ مذکورہ تینوں وفاقی وزراء صاحبان کے علاقے کی ہر سڑک ویرانوں اور کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہی ہیں۔ مجھے سیالکوٹ سے پسرور، پسرور سے نارووال، نارووال سے ظفروال اور پھرپسرور سے ڈسکہ جانے کا خود تازہ تازہ اتفاق ہُوا ہے۔ حیرانی ہے کہ ادھڑی اور جگہ جگہ کئی کئی فٹ گہرے کھڈوں والی ان سڑکوں پر لوگ سفر کیسے کرتے ہیں؟ جب کبھی یہ تینوں وفاقی وزرا اپنے حلقوں میں جاتے ہیں، توکیا انھی کمر شکن سڑکوں پر ان کی قیمتی سرکاری گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوں گی؟ ضلع نارووال کے ایک گرلز ہائی اسکول کی محترم ٹیچر نے مجھے اپنے اسکول کی حالت زار کا ذکر کرتے ہُوئے بتایا: ''تین ہزار بچیاں ہمارے ہائر سیکنڈری اسکول میں پڑھتی ہیں۔

ایف ایس سی کی طالبات کوفزکس، میتھ ، بیالوجی اور کیمسٹری پڑھانے کے لیے کوئی باقاعدہ خاتون لیکچرار یا پروفیسر سرے سے ہی نہیں ہے۔ چودھویں یا سولہویں سکیل کی وہ خواتین اساتذہ جو نویں اور دسویں کی طالبات کو یہ سائنسی مضامین پڑھا رہی ہیں، وہی بیچاری محنتِ شاقہ سے ایف ایس سی کی طالبات کو پڑھا رہی ہیں۔ یہ تو سراسر زیادتی بھی ہے اور طالبات سے ناانصافی بھی۔ جن لوگوں نے ہمارے گرلز ہائی اسکول کو ہائر سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا تھا، اُنہیں یہاں متعلقہ مضامین کے لیے مناسب لیکچراروں کے تقرر کا بندوبست بھی کرنا چاہیے تھا۔ استانیوں کی بار بار درخواستوں پر بھلا کون کان دھرتا ہے؟''استانیوں اور طالبات سے نا انصافی کی یہ واحد مثال نہیں ہے۔


تحصیل ظفر وال کی کئی اساتذہ نے بھی انوکھی شکایت کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ تحصیل شکر گڑھ اور تحصیل نارووال کی سب اساتذہ کو شیڈول اور اصول کے مطابق ترقیاتی چودھواں سکیل گزشتہ کئی ماہ سے مل بھی چکا ہے لیکن تحصیل ظفروال کی تمام اساتذہ اس پرموشن سے مسلسل محروم رکھی جا رہی ہیں۔ کوئی فریاد بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف اپنے صوبے کے مسائل سے ہمیشہ باخبر رہتے ہیں۔ نہیں معلوم مذکورہ طالبات اور اساتذہ سے جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں، اِن کی بازگشت اُن تک کیوں نہیں پہنچ پا رہی؟

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری اِن محترم استانیوں اور دیگر اساتذہ کرام سے جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں، اُنہی کی وجہ سے تعلیم کا شعبہ مسلسل زوال اور بحرانوں کی زد میں ہے؟ اسکولوں کو راہِ راست پر لانے، نتائج بہتر بنانے اور خواتین و مرد اساتذہ کی نگرانی کے لیے شہباز شریف صاحب نے ایک این جی او کو بھی فرائض سونپ رکھے ہیں۔ اس کے باوجود سرکاری اسکولوں کی تعلیم بہتر ہو رہی ہے نہ اُن پر عوام کا اعتمادبحال ہو رہا ہے۔اقوام ِ متحدہ نے پاکستان کی تعلیم اور نظامِ تعلیم کے بارے میں جوحالیہ رپورٹ جاری کی ہے، یہ بھی ہم سب کے لیے خاصی مایوس کُن ہے۔ اسےGlobal Education Monitoring Reportکا نام دیا گیا ہے۔اس کے حقائق خاصے ہوشربا ہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے :''پاکستان دنیا کے اُن پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے 40 فیصد طلبا و طالبات کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاتی۔'' رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تعلیم کے میدان میں پاکستان کو جدید دنیا کا ہم پلّہ ہونے کے لیے ابھی مزید پچاس سال لگیں گے۔ سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان تعلیم کے میدان میں جدید دنیا سے ابھی نصف صدی پیچھے ہے۔ہم تعلیم کے میدان میں بھلا ماڈرن ورلڈ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں جب کہ ہماری پسماندگی کا عالم یہ ہے( بی بی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق)کہ پاکستان کے دو کروڑ بچے سرے سے اسکولوں میں جاتے ہی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ہی کے بڑے بڑے شہروں میں ایسے اسکول بھی ہیں جہاں پرائمری کے ایک بچے کی ماہانہ فیس پچاس ہزار روپے سے زائدہے۔ یہ ہمارا سماجی المیہ ہے۔ اس کی موجودگی میں معاشرتی تفاوت اور امتیازات میں جو اضافہ ہو رہا ہے، وہ مجموعی طور پر ہمارے قومی مفاد ات سے متصادم ہے۔

یہ درست ہے کہ وطنِ عزیز میں آنے والی متعدد حکومتوں کی متنوع نااہلیوں اور نا لائقیوں کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پھلنے پھولنے اور اپنے پَر پُر زے پھیلانے کے مواقع ہیں۔ ان کی وجہ سے غریب والدین کے لائق بچوں پراچھی اوراعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہُوئے ہیں۔ اِس حقیقت کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ اب بھی سرکاری اسکولوں اور سرکاری اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان کے نامور تحقیقی ادارے IPRI (اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ)کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد 31 فیصد اور سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 69 فیصد ہے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کرام کی تنخواہیں بھی پرائیوٹ اسکولوں کے اساتذہ سے زیادہ ہیں اور ان سرکاری ٹیچرز کی ملازمتیں، پرائیویٹ ٹیچرز کے مقابلے میں، زیادہ محفوظ بھی ہیں۔ ان سہولیات کے باوجود اگر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور استانیاں (بشمول سرکاری کالجوں کے اساتذہ کرام) اپنے طلباو طالبات کا معیارِ تعلیم بلند نہ کررہے ہوں تو اس پر تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

اِس کے ساتھ ہی مگر اب یہ خیال بھی مستحکم ہوتا جا رہا ہے کہ ملک بھر میںپھیلتے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے احساسِ محرومی کو بڑھاوا دیا ہے۔ خصوصاً کھمبیوں کی طرح اُگتے پرائیویٹ میڈیکل کالج جن کی ہوشربا فیسیں سنگین مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ضلع نارووال میں ایک ٹیچر نے اِسی احساسِ محرومی تلے تقریباً روتے ہُوئے مجھے بتایا : ''میری بیٹی نے ایف ایس سی پری میڈیکل میں بہت اعلیٰ نمبر حاصل کیے لیکن انٹری ٹیسٹ کی وجہ سے وہ کسی سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ نہ لے سکی ۔ اورپرائیویٹ میڈیکل کالج کی لاکھوں کی فیس ہم افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہی محلے میں میری ہی بیٹی کی کلاس فیلو نے پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے، حالانکہ اُس کے نمبر میری بیٹی سے کہیں کم بھی تھے۔ وہ مگر اس لیے اب ڈاکٹر بن جائے گی کیونکہ اُس کے والدین پرائیویٹ میڈیکل کالج کے پچاس ساٹھ لاکھ روپے بھر سکتے ہیں۔'' ٹیچر نے ایک آہِ سرد بھر کر کہا: ''کیا اب ہمارے ملک میں ڈاکٹر صرف امیر والدین کے بچے ہی بنا کریں گے؟''
Load Next Story