صرف ایک روپیہ
تاریخ میں پہلی بار وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان دبئی میں کیا
ملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان دبئی میں کیا اور قوم کو خوشخبری دی کہ اوگرا کی سفارشات کے برعکس پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں صرف ایک ،ایک روپیہ فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے جب کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے جس کی پرانی قیمت جو پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل سے زیادہ ہے برقرار رہے گی۔
اپوزیشن نے حسب روایت صرف ایک روپے کے اس اضافے کو بھی مسترد کردیا اور اپوزیشن رہنماؤں اورمیڈیا کے ہونے والے سروے میں عوام نے بھی ایک روپیہ اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی وجہ قرار دیا ہے جب کہ مہنگائی تو اس سے قبل ہی بڑھ گئی ہے اور تین ماہ میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ پانچواں اضافہ کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو ہمیشہ سے مہنگائی بڑھنے کا سبب بتایا جاتا ہے جب کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا فائدہ کبھی حکومت پاکستان نے فوری طور پر عوام کو نہیں دیا اور دیا بھی تو تاخیر سے اور وہ بھی معمولی طور پر دیا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلے بجٹ میں سال میں اضافہ ہوتا تھا جو بعد میں ماہانہ ہوگیا اور اب ہر پندرہ روز بعد پٹرول بم گرا دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن خواہ مسلم لیگ (ن) ہی کیوں نہ ہو وہ بھی پی پی کی حکومت میں پٹرولیم قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کیا کرتی تھی اور اب خود اضافے پر اضافہ کر رہی ہے اوراپوزیشن پارٹیاں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی صرف ایک روپے کے اضافے پر احتجاج کررہی ہیں۔ اپوزیشن کے احتجاج کا حکومت وقت پر ماضی میں کبھی اثر ہوا ہے نہ حال میں ہورہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔
پٹرولیم مصنوعات اگر مہنگائی کا سبب بنتی ہیں تو یہ وفاقی حکومت کی کمائی اورکمائی میں مسلسل اضافے کا ذریعہ بھی ہیں جس پر اپوزیشن کا احتجاج معمول اورعوام کو بھی حکومت کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقعہ فراہم کردیتا ہے اور ٹی وی پر آنے کے شوق میں عوام بھی حکومت پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں اور ووٹ بھی مہنگائی بڑھانے والی پارٹیوں ہی کو دینے پر مجبور ہیں۔گزشتہ ماہ ملک بھر میں بڑھنے والی مہنگائی پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی احتجاج اور وفاقی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیا ہے جب کہ قیمتوں کی نگرانی اورکنٹرول اب وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے جو صوبائی حکومتیں اور متعلقہ افسران کو یاد نہیں صرف پنجاب میں کچھ نظر آتا ہے باقی صوبے خاموش ہیں اور دو ماہ بعد رمضان المبارک میں صوبائی حکومتیں بیدار ہوں گی جن کا فائدہ عوام کو کم اور گراں فروشوں کو مہنگائی بڑھا کر اور متعلقہ افسر گراں فروشوں پر جو جرمانے کریں گے اس سے حکومتی خزانوں میں اضافہ ہوگا اور بعد میں گراں فروش اپنا ادا کردہ جرمانہ مزید مہنگائی بڑھا کر عوام سے ہی وصول کرلیا کرتے ہیں۔
ملک میں پٹرولیم مصنوعات وہ واحد مصنوعات ہیں جن کی قیمتوں کا تعین عالمی سطح پر ہوتا ہے اور اضافے کا اطلاق پاکستان میں فوری اورکمی کا اطلاق ہمیشہ تاخیر سے پاکستان کی ہر حکومت کرتی آرہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اور ملک میں مہنگائی بڑھائے جانے کا سبب قراردیا جاتا ہے اور اشیائے ضرورت اور خصوصی طور پر اشیائے خوردنی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے نرخ فوری طور پر بڑھا کر وجہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو قرار دے دیا جاتا ہے اور ہر چیز کا تعلق پٹرولیم مصنوعات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد قیمتوں پر کنٹرول اور تعین کے اختیارات صوبوں کو ملے ہوئے ہیں اور ہر صوبے نے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سبزیوں، پھلوں کے نرخوں کے تعین کے لیے مارکیٹ کمیٹیاں ملک بھر میں قائم ہیں جن کے اوپر بیوروآف سپلائی اینڈ پرائسز صوبائی سطح پر قائم ہیں جن کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوتے ہیں جو کہیں فعال نظر نہیں آتے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صوبوں میں اکثر غیر حقیقی طور پر نرخوں کا تعین کرتے ہیں جنھیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ بازاروں میں آٹے دال کا کیا بھاؤ چل رہا ہے۔ گوشت، مرغی، مچھلی کس دام پر ملتی ہیں۔ دالوں، سبزیوں اور پھلوں پر منافع خور قیمتیں کس طرح بڑھا دیتے ہیں۔ صبح مہنگی فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت کے نرخ شام ہوتے ہی کیسے کم ہوجاتے ہیں۔
ٹھنڈے اور آرام وہ کمروں میں وقت گزارنے والے یہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نہ خود کبھی خریداری کرنے بازاروں میں جاتے ہیں نہ انھیں نرخوں کا کچھ پتا ہوتا ہے، افسروں کے گھروں میں کپڑوں، جوتوں اور زیورات کے علاوہ روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیا گوشت، سبزیوں اور پھلوں کی خریداری انھیں سرکاری طور پر ملے ہوئے ملازمین خصوصاً خانسامہ اور ڈرائیور کرتے ہیں جو سرکاری گاڑیوں میں جاکر یہ خریداری کرتے ہیں تو سرکاری لوگوں اور گاڑیوں کے باعث دکاندار ان سے خصوصی برتاؤ کرتے ہوئے قیمت بھی کم لیتے ہیں اور معیاری اشیا فراہم کرتے ہیں کیونکہ دو نمبر اور 3 نمبر اشیا، دوائیں وغیرہ افسروں کا نہیں عام لوگوں کا مقدر ہوتی ہیں۔
کراچیمیں حال ہی میں دودھ کے نرخ میں 5 روپے لیٹر اضافہ کردیا گیا جب کہ دودھ اس سے قبل ہی پچاسی اور نوے روپے لیٹر فروخت ہو رہا تھا۔ باڑے والوں اور ہول سیلرز کے کہنے پر نرخ بڑھا دیے گئے عوام سے کسی نے نہیں پوچھا اور نہ بھینسوں کے باڑے والوں، دودھ کے ہول سیلرز اور رٹیلرز سے یہ پوچھنے کی زحمت کی کہ باڑوں میں بھینسوں کی تعداد اور ان کی جائیدادیں کیسے بڑھ رہی ہیں اگر انھیں نقصان ہو رہا ہے۔ پانی ملا دودھ بلکہ مضر صحت دودھ ملک بھر میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے مگر دودھ کا معیار چیک نہیں ہوتا۔ یہی حال کھانے پینے کی ہر چیز کا ہے جن کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے سرکاری محکمے بھی ہیں جن کا کام کمائی ہے اور وہ اسی میں مصروف ہیں۔ فوجی حکومتوں میں گراں فروشوں اور ملاوٹ کرنے والوں کو کچھ خوف ہوتا ہے مگر جمہوری دور میں ہر کسی کو عوام کو لوٹنے اور ان کی صحت سے کھیلنے کی آزادی ہوتی ہے اور سیاسی سفارشیں چلتی ہیں۔
جب حکمرانوں اور بیورو کریٹس ہی کو مہنگائی اور اشیائے خوردنی کے معیار کی فکر نہ ہو تو مہنگائی کیسے رک سکتی ہے اور عوام کو منہ مانگے نرخ دے کر بھی خالص اشیا کیسے مل سکتی ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات بڑھانے والے تو صرف ایک روپیہ بڑھا کر اربوں روپے وصول کرلیتے ہیں مگر گراں فروش صرف ایک روپیہ نہیں بڑھاتے بلکہ نرخ اوپر سے نیچے آتے آتے کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اس کی فکر صرف ایک روپیہ بڑھانے والوں کو نہیں ہوتی۔
اپوزیشن نے حسب روایت صرف ایک روپے کے اس اضافے کو بھی مسترد کردیا اور اپوزیشن رہنماؤں اورمیڈیا کے ہونے والے سروے میں عوام نے بھی ایک روپیہ اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی وجہ قرار دیا ہے جب کہ مہنگائی تو اس سے قبل ہی بڑھ گئی ہے اور تین ماہ میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ پانچواں اضافہ کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو ہمیشہ سے مہنگائی بڑھنے کا سبب بتایا جاتا ہے جب کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا فائدہ کبھی حکومت پاکستان نے فوری طور پر عوام کو نہیں دیا اور دیا بھی تو تاخیر سے اور وہ بھی معمولی طور پر دیا۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلے بجٹ میں سال میں اضافہ ہوتا تھا جو بعد میں ماہانہ ہوگیا اور اب ہر پندرہ روز بعد پٹرول بم گرا دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن خواہ مسلم لیگ (ن) ہی کیوں نہ ہو وہ بھی پی پی کی حکومت میں پٹرولیم قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کیا کرتی تھی اور اب خود اضافے پر اضافہ کر رہی ہے اوراپوزیشن پارٹیاں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی صرف ایک روپے کے اضافے پر احتجاج کررہی ہیں۔ اپوزیشن کے احتجاج کا حکومت وقت پر ماضی میں کبھی اثر ہوا ہے نہ حال میں ہورہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔
پٹرولیم مصنوعات اگر مہنگائی کا سبب بنتی ہیں تو یہ وفاقی حکومت کی کمائی اورکمائی میں مسلسل اضافے کا ذریعہ بھی ہیں جس پر اپوزیشن کا احتجاج معمول اورعوام کو بھی حکومت کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقعہ فراہم کردیتا ہے اور ٹی وی پر آنے کے شوق میں عوام بھی حکومت پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں اور ووٹ بھی مہنگائی بڑھانے والی پارٹیوں ہی کو دینے پر مجبور ہیں۔گزشتہ ماہ ملک بھر میں بڑھنے والی مہنگائی پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی احتجاج اور وفاقی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیا ہے جب کہ قیمتوں کی نگرانی اورکنٹرول اب وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے جو صوبائی حکومتیں اور متعلقہ افسران کو یاد نہیں صرف پنجاب میں کچھ نظر آتا ہے باقی صوبے خاموش ہیں اور دو ماہ بعد رمضان المبارک میں صوبائی حکومتیں بیدار ہوں گی جن کا فائدہ عوام کو کم اور گراں فروشوں کو مہنگائی بڑھا کر اور متعلقہ افسر گراں فروشوں پر جو جرمانے کریں گے اس سے حکومتی خزانوں میں اضافہ ہوگا اور بعد میں گراں فروش اپنا ادا کردہ جرمانہ مزید مہنگائی بڑھا کر عوام سے ہی وصول کرلیا کرتے ہیں۔
ملک میں پٹرولیم مصنوعات وہ واحد مصنوعات ہیں جن کی قیمتوں کا تعین عالمی سطح پر ہوتا ہے اور اضافے کا اطلاق پاکستان میں فوری اورکمی کا اطلاق ہمیشہ تاخیر سے پاکستان کی ہر حکومت کرتی آرہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کو حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اور ملک میں مہنگائی بڑھائے جانے کا سبب قراردیا جاتا ہے اور اشیائے ضرورت اور خصوصی طور پر اشیائے خوردنی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے نرخ فوری طور پر بڑھا کر وجہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو قرار دے دیا جاتا ہے اور ہر چیز کا تعلق پٹرولیم مصنوعات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد قیمتوں پر کنٹرول اور تعین کے اختیارات صوبوں کو ملے ہوئے ہیں اور ہر صوبے نے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سبزیوں، پھلوں کے نرخوں کے تعین کے لیے مارکیٹ کمیٹیاں ملک بھر میں قائم ہیں جن کے اوپر بیوروآف سپلائی اینڈ پرائسز صوبائی سطح پر قائم ہیں جن کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوتے ہیں جو کہیں فعال نظر نہیں آتے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صوبوں میں اکثر غیر حقیقی طور پر نرخوں کا تعین کرتے ہیں جنھیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ بازاروں میں آٹے دال کا کیا بھاؤ چل رہا ہے۔ گوشت، مرغی، مچھلی کس دام پر ملتی ہیں۔ دالوں، سبزیوں اور پھلوں پر منافع خور قیمتیں کس طرح بڑھا دیتے ہیں۔ صبح مہنگی فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت کے نرخ شام ہوتے ہی کیسے کم ہوجاتے ہیں۔
ٹھنڈے اور آرام وہ کمروں میں وقت گزارنے والے یہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نہ خود کبھی خریداری کرنے بازاروں میں جاتے ہیں نہ انھیں نرخوں کا کچھ پتا ہوتا ہے، افسروں کے گھروں میں کپڑوں، جوتوں اور زیورات کے علاوہ روز مرہ استعمال میں آنے والی اشیا گوشت، سبزیوں اور پھلوں کی خریداری انھیں سرکاری طور پر ملے ہوئے ملازمین خصوصاً خانسامہ اور ڈرائیور کرتے ہیں جو سرکاری گاڑیوں میں جاکر یہ خریداری کرتے ہیں تو سرکاری لوگوں اور گاڑیوں کے باعث دکاندار ان سے خصوصی برتاؤ کرتے ہوئے قیمت بھی کم لیتے ہیں اور معیاری اشیا فراہم کرتے ہیں کیونکہ دو نمبر اور 3 نمبر اشیا، دوائیں وغیرہ افسروں کا نہیں عام لوگوں کا مقدر ہوتی ہیں۔
کراچیمیں حال ہی میں دودھ کے نرخ میں 5 روپے لیٹر اضافہ کردیا گیا جب کہ دودھ اس سے قبل ہی پچاسی اور نوے روپے لیٹر فروخت ہو رہا تھا۔ باڑے والوں اور ہول سیلرز کے کہنے پر نرخ بڑھا دیے گئے عوام سے کسی نے نہیں پوچھا اور نہ بھینسوں کے باڑے والوں، دودھ کے ہول سیلرز اور رٹیلرز سے یہ پوچھنے کی زحمت کی کہ باڑوں میں بھینسوں کی تعداد اور ان کی جائیدادیں کیسے بڑھ رہی ہیں اگر انھیں نقصان ہو رہا ہے۔ پانی ملا دودھ بلکہ مضر صحت دودھ ملک بھر میں کھلے عام فروخت ہو رہا ہے مگر دودھ کا معیار چیک نہیں ہوتا۔ یہی حال کھانے پینے کی ہر چیز کا ہے جن کی کوالٹی چیک کرنے کے لیے سرکاری محکمے بھی ہیں جن کا کام کمائی ہے اور وہ اسی میں مصروف ہیں۔ فوجی حکومتوں میں گراں فروشوں اور ملاوٹ کرنے والوں کو کچھ خوف ہوتا ہے مگر جمہوری دور میں ہر کسی کو عوام کو لوٹنے اور ان کی صحت سے کھیلنے کی آزادی ہوتی ہے اور سیاسی سفارشیں چلتی ہیں۔
جب حکمرانوں اور بیورو کریٹس ہی کو مہنگائی اور اشیائے خوردنی کے معیار کی فکر نہ ہو تو مہنگائی کیسے رک سکتی ہے اور عوام کو منہ مانگے نرخ دے کر بھی خالص اشیا کیسے مل سکتی ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات بڑھانے والے تو صرف ایک روپیہ بڑھا کر اربوں روپے وصول کرلیتے ہیں مگر گراں فروش صرف ایک روپیہ نہیں بڑھاتے بلکہ نرخ اوپر سے نیچے آتے آتے کہاں سے کہاں پہنچا دیے جاتے ہیں اس کی فکر صرف ایک روپیہ بڑھانے والوں کو نہیں ہوتی۔