رشتہ ٔ اخوت

اسلام انسان کی رہنمائی کے لیے ہدایت ربانی کا نام ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

KARACHI:
اُف تباہی کے دھانے پہ کھڑا ہے انساں
آگ ہی آگ ہے شعلوں کے چڑھے ہیں طوفاں
خرمن زیست پہ ہے سلسلہ برق تپاں
ایسے ماحول میں مامن ہے تو نورِ ایماں
شر کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھا سکتا ہے
دین اسلام ہی انساں کو بچا سکتا ہے

اسلام انسان کی رہنمائی کے لیے ہدایت ربانی کا نام ہے۔ اسلامی معاشرے میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد عقیدہ، اصول اور دین ہے۔ جو لوگ خدا کے ہاتھ پر اپنی جانیں فروخت کرچکے ہیں وہ سب ایک ہیں۔ چاہے وہ عربی ہو یا عجمی، رومی ہو یا مصری، یمنی ہو یا حبشی، ان کے درمیان اخوت اور وحدت کا رشتہ ناقابل شکست ہے۔ جو بھی کلمہ گو اس رشتے کو افتراق و انتشار کے ذریعے شکست و ریخت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اﷲ کی نظر میں سنگین نوعیت کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ جیساکہ آپؐ نے فرمایا: ''جو شخص الجماعت سے بالشت بھر الگ ہورہا کوئی شک نہیں کہ اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا'' (احمد، ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ) قرآن میں بتانِ رنگ و خون کا بیان ظاہری پہچان کے طور پر تو ملتا ہے لیکن ایمان کے مقابلے میں بتان کی محبت میں گرفتار ہوکر ان کی خاطر جینے اور مرنے کا اعلان کہیں نہیں ملتا۔ بتان پر نظر، ایمان سے مفر، اسلام کی نظر میں بمنزلہ کفر ہے۔ جیسا کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد سے صاف ظاہر ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

''اور جس نے جاہلیت کی پکار پر لوگوں کو بلایا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اگرچہ وہ روزے رکھتا، نمازیں پڑھتا اور اپنے کو مسلمان سمجھتا ہو۔''(احمد و ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃکتاب الامارۃ)
''نہیں ہے وہ ہم سے جس نے لوگوں کو کسی عصبیت کی طرف بلایا''(ابو داؤد، کتاب الادب)

''اور نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے کسی عصبیت کے تحت جنگ کی اور نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے کسی عصبیت کی خاطر جان دی''
خدا اور رسولؐ دین وایمان کے واسطوں کے باوجود اگر لوگ اپنی آخرت کی قطعاً فکر نہیں کرتے اور اغوائے شیطان کے تحت رنگ، نسل اور زبان کی عصبیتوںکے ذریعے رشتۂ وحدت اور اخوت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کوکیا منہ دکھائیںگے۔ بقول شاعر:

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایسے پھوٹے کرم والوں سے تنگ کے بعد جنگ، بات کے بعد لات اور بولی کے بعد گولی کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا:

''جو شخص اس جماعت کو جب کہ وہ متحد ہو، پراگندہ کرنا چاہے اسے (بدرجۂ آخر) تلوار پر رکھ لو، خواہ وہ کوئی بھی ہو'' (مسلم، جلد 2، صفحہ128)
ماضی ہو یا حال، ہر دور میں اسلام دشمنوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ بقول اقبال:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

دورِ رسالتؐ میں یہود اسلام کے کھلے اور منافقین چھپے ہوئے دشمن تھے۔ وہ اپنی ناپاک پھونکوں سے اجتماعیت کے روشن چراغ کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ مدینہ کی آبادی اوس اور خزرج قبائل پر مشتمل تھی۔ اسلام نے ان کی باہمی عداوت کو اخوت میں بدل دیا تھا۔ یہود، مسلمانوں میں افتراق اور انتشار پیدا کرنے کے لیے موقعے کی تاک میں رہتے تھے۔

اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک نوجوان یہودی کو جس کی اوس اور خزرج دونوں قبائل کے لوگوں سے دعا سلام تھی، آلۂ کار بنایا اور اس کو سمجھایا کہ جب دونوں قبائل کا مجمع کہیں اکٹھا ہو تو ماضی کی تلخیوں کی یادیں ان کے ذہنوں میں تازہ کردینا۔ اس کالی بھیڑ، آستین کے سانپ نے اس نازو وناداز اور ساز و آواز میں جنگ بغاوت کا تار چھیڑا کہ جذبہ اخوت تار تار ہوگیا اور دلوں میں نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے اور وہ ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کو تیار ہوگئے۔ جب رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ منحوس خبر پہنچی تو آپؐ اپنے جلیل القدر صحابہ کی ہمراہی میں چشم زدن میں جائے واردات پر پہنچے اور کہا ''مسلمانو! یہ کیا حرکت ہے۔ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم لوگ جاہلیت کی باتوں کو تازہ کررہے ہو'' سب کے سر شرم سے جھک گئے اور آیندہ کے لیے توبہ کی کہ اب وہ کبھی دشمن کی چالوں میں نہ پھنسیںگے۔

اجتماعیت، اسلام کی روح رواں ہے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کا بے حد احساس رہتا تھا۔ ایک دفعہ آپؐ کو یہ نجس اطلاع ملی کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں فساد نے نازک صورت اختیار کرلی ہے۔ آپؐ فوراً چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ وہاں پہنچے۔ افتراق اور انتشار کی آگ بجھانے میں اتنی دیر لگی کہ نماز کا وقت تنگ ہوگیا لیکن اس کے باوجود اس وقت تک وہاں سے واپس نہ لوٹے جب تک نزاع رفع دفع نہ کردی اور باہمی عداوت اور نفرت کو وحدت اور اخوت کے انداز گلستان میں نہ بدل دیا۔ آپؐ کی جگہ حضرت بلالؓ کی درخواست پر حضرت ابو بکرؓ نے نماز کی امامت کروائی۔ (ابوداؤد جلد2ص218)

عصبیت، اسلام اس کو قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ کیونکہ عصبیت، اجتماعیت کی جانی دشمن ہے۔ اگر یہ ذہنوں میں وہی رہے تو اندر ہی اندر وحدت کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے اور اگر ذہنوں سے باہر نکل آئے تو اجتماعیت کی بہارکو خزاں میں بدل دیتی ہے اس لیے رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس نجاست میں مسلمانوں کا گرجانا تو بڑی بات، اس کے ارد گرد منڈلانا بھی سخت ناپسند تھا۔ غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر ایک مہاجر اور ایک انصار، شیطان کے چکر میں آگئے اور باتوں سے گزر کر لاتوں پر اتر آئے اور اپنی اپنی مدد کے لیے ہر دو نے دیگر مہاجرین اور انصار کو پکارا۔ جب آپؐ نے یہ نجاست بھری آواز دونوں کے منہ سے نکلتے ہوئے سنی تو غصہ بھی ہوئے، افسردہ اور رنجیدہ بھی اور اپنی زبان پاک سے فرمایا:

''یہ کیا جاہلیت کی پکار تھی دور ہو اس سے کیونکہ یہ بڑی گندی چیز ہے'' (بخاری جلد دوم کتاب التفسیر)

ہم کو کیا ہوگیا ہے کہ آپؐ کے امتی ہونے کے باوجود آئے دن آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ یاد رکھو اس کھیل کا ریفری اور کھلاڑی دونوں جہنم کا ایندھن ہیں۔

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
Load Next Story