کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے
وقت بڑا ظالم ہے، منصف ہے، مرہم ہے، یہ کسی کا نہیں ہوتا
وقت بڑا ظالم ہے، منصف ہے، مرہم ہے، یہ کسی کا نہیں ہوتا، اپنی روانی میں بہتا ہے، اس کا وقت آگیا تھا،کیا کرتے ؟ وقت برا چل رہا ہے، وقت اچھا ہے، یہ دوا ہے، دعا ہے،گھٹا ہے، فضاء ہے، محبت کا وقت ، نفرت کا، صحت، بیماری کا ،عداوت کا،...اسی طرح حکومت کا ... بھی وقت ہے ،جیسے آج مرکز میں مسلم لیگ ن ، صوبوں میں پی پی پی، پی ٹی آئی، وغیرہ۔
لیکن ہمیں وقت کی شناخت کا مرحلہ درپیش نہیں، ہم شاید جان بھی نا سکیں، فہم وفراست کے ابتدائی مرحلے پر عقل خرد کی راہ پرچل پڑے کیسے ممکن؟ دیوانگی ہوش کو جنم دینے لگے، رات میں اجالا،گرمیوں میں سردی ، ممکن نہیں، لہذا اس میں سرکھپانے سے بہتر ہے، اپنی اوقات میں رہ کر بات کی جائے۔ قارئینِ کرام یہ جو حکومت کا وقت ہے اسے سمجھنا کسے تھا،کسے ہے اور کسے ہوگا ؟ انھی کو جن پر یہ آتا ہے۔لیکن تاریخ شاہد ہے کم ازکم پاکستان میں کوئی حکمراں ایسا نہیں گزرا جس نے وقت اقتدار میں رہتے اس حقیقت کو جان لیا ہو،جس نے اپنے پیش رو حکمرانوں سے کوئی سبق سیکھا ہو، حالانکہ دنیا بھر میں جا بجا کچھ ایسے ہی واقعات ملتے ہیں،ان میں بہت سی بہتر مثالیں بھی موجود ہیں، بدتر بھی، لیکن ادھرتو ایک ہی رخ ہے ۔
حالانکہ سبق سیکھنے کے سب سے زیادہ مواقعے بھی یہیں رہے، یہی وہ ملک ہے جہاں کے حکمراں اپنی طبعی موت سے زیادہ حادثات کا شکارہوئے، معذرت کے ساتھ میں پھانسی کو بھی حادثہ ہی سمجھتا ہوں۔کچھ کا قتل ہواکسی کا طیارہ کریش ہوگیا۔کسی کوگولی مار دی گئی،کچھ قیدوبند میں رہے، لیکن کمال ہے کہ کسی نئے آنے والے نے جانے والے کے ساتھ حادثات کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی اور مزید یہ کہ اس نے بھی وہی کیا جو اس کے پیش رو نے کیا۔ہاں ایک بات پر سب کو یقین تھا کہ جو پہلے والے کے ساتھ ہوا وہ اس کے ساتھ نہیں ہوگا ، لیکن عمل کی بات ہو تو فرق نہ تھا ۔اعمال بالکل وہی رہے اورظاہر ہے کہ نتیجہ بھی کبھی نہیں بدلا۔ صورتِ حال آج بھی وہی ہے ،آج کے حکمران اور ان کے رفقائے کار کا خیال بھی یہی ہے کہ وہ 35سال سے ملک سنبھال رہے ہیں ۔
انھوں نے عوام کی خدمت کی ہے۔ملک کو ترقی کی نئی شاہراہ پر گامزن کیا ہے، لہذا ان کا حق ہے اب حکومت میں رہنے کا اور ہمیشہ رہنے کا ،کیوں نہ اب ان کی نسلیں بھی اس ملک کی خدمت کریں اور لوگوں کوآخر تکلیف کیا ہے ؟ پاکستان کی ترقی ان سے ہضم کیوں نہیں ہوتی؟کیا ہے یہ پانامہ لیکس،ارے خادم پر تنقید کر دی ۔غضب کرتے ہیں عمران خان ، بھئی کون لوگ ہیں یہ؟ہم خدمت کررہے ہیں یہ مذمت کرتے ہیں، او بھئی تبدیلی تو آچکی ہے ۔تم کون سی تبدیلی چاہتے ہو؟ ادھر انھیں بھی قصہ یوسف کا نہیں پتہ ،وہ جوابًا یہ کہیں کہ صاحب اپنی حکومت کا وائٹ پیپر تو جاری کریں ذرا ۔ یہ جو امن ہے،کس کے مرہونِ منت ہے؟ ملکی برآمدات کا بھٹہ بیٹھ گیا، ادارے تباہ ہوگئے۔
ملکی اسٹیل مل تباہ !! پی آئی اے ختم،واپڈا ،کے ای ایس ای چائنہ کے حوالے، باقی ادارے بھی جلد حوالے کرنے کا عندیہ ِلیکن محترم کی طبیعت غالباً اس کی اجازت نہیں دیتی ،گویا حکومت وہی ،حکمران وہی۔ اغلباً وقت کا فیصلہ بھی وہی رہے گا ۔
قارئینِ کرام ! الیکشن 2018 میں کیا نتائج برآمد ہوں گے ؟ بہت حتمی رائے توکون دے،البتہ یہ کہا جاسکتا ہے، اگرکوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا تو سرِدست مسلم لیگ کی خاندانی وراثت کو حکومت سے محرومی کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ عمران خان ہیں، جوکسی طرح سنجیدہ ہوکر نہیں دیتے ۔اس میں شک نہیں کہ ان کی بے لاگ اپوزیشن کے باعث قوم کو ، ملک کو فائدہ ہوا ہے۔ حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ عمدہ فائٹر ہیں اس میں بھی شک نہیں،لیکن سمت کے تعین پر اگر اعتراض ہو ، یعنی وہ بہت حد تک جذباتی ہیں، غصیلے ہیں، یا کہہ لیجیے جلدباز تو ایسا کہنا درست ہوگا۔ان کی ملک وقوم سے خلوص پر دو رائے نہیں۔لیکن جیسا کہ ہم وقت اوراس کی ستم ظریفیوں پر ابتدا میں جو بات کررہے تھے وہ اپنی جگہ کس قدر اٹل ہے،اس کا اظہار پھر ہونا ہے۔کس شکل میں اللہ تعالیٰ ہم پررحم فرمائے۔(آمین)
قارئینِ کرام! حکومت کے چار سال پورے ہوئے ،آگے کچھ لکھنے سے پہلے مجھے آپ کو ڈاکٹر بشیربدرکا ایک شعرسنانا ہے۔
دوچاردن تو یوں بھی بڑی خیریت رہی
دو چاردن ہوئے کوئی اپنا ملا نہیں
حکومتی کارکردگی کا اگر اس وقت جائزہ لیا جائے تو اس میں پاکستان کی ترقی کے نام پر تو شاید بہت کم نکلے لیکن پنجاب کی ترقی کے لیے بہت کچھ نکل آئے گا ،جو قابلِ غوروفکر اورپریشان کن ہے،آپ باقی تین صوبوں سے یہ کہہ کرکیسے جان چھڑاسکتے ہیں کہ وہاں کی صوبائی حکومتیں آپ سے تعاون نہیں کرتیں! وفاق تو آپ کے پاس ہے ، فرض بھی آپ کا بنتا ہے ۔لیکن آپ نے دیدہ ودانستہ ادا نہیں کیا کیونکہ آپ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو ووٹ پنجاب سے ملے تھے آیندہ بھی آپ وہیں سے امید رکھتے ہیں،آپ نے کام بھی وہیں کیا،لہذا کیسے مان لیا جائے کہ آپ پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں۔
جب کہ پی پی پی کے عہدِ حکومت میں ایسا نہیں تھا، تب ترقیاتی کام سارے ملک میں ہوئے تھے ۔یہ اندازِ سیاست تباہ کن ہے ، ملکی سالمیت کے لیے، عوام کے لیے،وفاق کی اکائیوں کے لیے مناسب نہیں،جب صوبوں کے عوام ووٹ کی بنیاد علاقائی رشتوں پر رکھنا شروع کردیں۔ جب صوبائی تعصبات محسوس ہوں تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے اور اس کا فی الفور سدِباب ضروری ہے۔دشمن یہی تو چاہتا ہے،اس کا ایجنڈا یہی تو ہے ۔حکمرانوں کی تو سیاست ہوجائے گی،نقصان ملک کا ہوگا ۔
آیندہ الیکشن اس حوالے سے نہایت اہم ہیں ۔میری دلی خواہش ہے کہ پنجاب میں ppp کو سیٹیں ملیں ، سندھ میں pml-n کو کے پی کے میں دونوں کو، لیکن بدقسمتی سے ایسا لگ نہیں رہا ۔حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران تعصبات میں اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ ہمارے سیاست دان ہیں جنھیں ہر حال میں سیاست کرنی تھی ،حکومت جن کی آبائی جاگیر تھی،اسی طرح دولت،عزت، شہرت... کسی نے نہیں سوچا وہ ملک کوکس سمت میں دھکیل رہے ہیں؟بہرحال وقت ان کا فیصلہ بھی کردے گا ، وہ بھی خس وخاشاک ہوجائیں گے ،ان کا نام ونشان بھی مٹ جائے گا ۔لیکن عقل کب آئے گی اس کا پتہ نہیں۔کب ہمارے یہ عاقبت نااندیش حکمراں اپنی و اہلِ خانہ کی محبت کو چھوڑکر ملک سے محبت کریں گے ...کب...؟
قارئینِ کرام ! دوسری جانب انڈیا ہے،جس کی ہمہ وقت آپ برائی کرتے ہیں، ظالم ،جابر اور نا جانے کیا کیا اسے قراردیتے ہیں ۔وہاں یہ سب کچھ ضرورہوگا لیکن 28 ریاستیں رکھنے کے باوجود وہاں عوام میں nationalismہے، وہ اپنے ملک سے پیارکرتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟ سوچیے، مسلسل سوچیے اس لیے کہ ضرورت ہے۔وہ ہندو ہیں، ہم مسلمان ،ہمارے پاس کلمہ ہے ہم ایک خدا کے ماننے والے،ایک نبیﷺ کے چاہنے والے، ہمیں حکمِ خدا ہے کہ تم میں بڑا وہ ہے جو متقی،جس کے اعمال اچھے ہیں، پھرکیا وجہ ہے کہ ہم تعصبات میں گھرے ہیں اور وہ یکجا۔
ہمارے حکمران تک صرف اپنے لوگوں تک محدود ہیں،عام آدمی کی تو بات ہی کیا، قارئینِ کرام یہی تعصب جس کا فائدہ اب تک اٹھایا گیا اوراب بھی اٹھایا جارہا ہے ، صرف ایک شعر کے بعد اجازت چاہوں گا،
دنیا تمہیں اس موڑ پر لے آئے گی آخر
ہنسنا تو بڑی بات ہے ، رو بھی نہ سکو گے