بے وقت کی برسات رحمت نہیں زحمت
سوشل میڈیا پر رومانوی شاعری کے سیلاب لانے سے پہلے یہ یاد رکھیے گا کہ بے موسم کی برسات سے کتنے گھر اداس بھی ہوتے ہیں۔
CILACAP:
گھر کی چھت سے ٹپ ٹپ کرتے بارش کے پانی میں دھواں اُڑاتی چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے شاعری کی کتاب سامنے رکھ کر موسم سے لطف اندوز ہوئے زمانے بیت گئے ہیں۔ جنوری کی برسات، دسمبر کی برف باری اور ساون کی جھڑی کا جو لطف بچپن میں اُٹھایا باقی زندگی میں وہ نظارے کہیں گم سے ہوگئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب برسات کا موسم ہوتا تو اسکول سے چھٹی یقینی ہوجاتی، کیوںکہ ندی نالوں میں طغیانی کے خوف سے والدین بچوں کو اسکول نہیں بھیجا کرتے تھے۔ ہاں مجھے بارش کو دیکھ کر امی کے ماتھے کی شکنیں آج بھی یاد ہیں۔ بِن موسم کے برسات سے جہاں میں خوشی کے شادیانے بجایا کرتا تھا وہیں امی پریشان ہوجایا کرتی تھیں۔ اُنہیں خوف تھا مٹی کے تودے پھسلنے کا، گھر سے باہر گئے ہوئے ایک ایک فرد کا، گھر میں بندھے ہوئے جانوروں کا، بارش کی وجہ سے گھر کی ٹپکتی چھت کا۔ الغرض اتنے زیادہ مسائل کہ جنہیں یہاں بیان کرنا شاید ممکن ہی نہیں۔
گیلی مٹی کی خوشبو میں، میں محو رہتا، ہاں کبھی کبھی بجلی کے کڑکنے سے دل پر خوف سا طاری ہوجاتا تھا مگر یہ خوف استغفار کے ورد سے دور کرلیتا تھا۔ اب جب کہ شعور کی منازل طے کرلیں، آہستہ آہستہ امی کے ماتھے کی شکنوں کے راز منکشف ہونے لگے۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بِن موسم کے برکھا کیا رنگ دِکھلاتی ہے۔ اب مجھے بارش میں نہاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، اب شاعری کی کتاب تھامے چائے کے کپ سے نکلتے ہوئے دھویں سے ڈر سا لگنے لگا ہے۔ اب مجھے بِن موسم کے برسات کسی بھی حالت میں رحمت کا باعث محسوس نہیں ہوتی۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے، دوستوں کے ساتھ عشائیے پر گپ شپ جاری تھی۔ پنجاب کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے نسبتاً خوشحال دوست نے نوید سنائی کہ اِس سال گندم کی فصل کافی اچھی رہی ہے اور اُمید ہے ریٹ بھی اچھے ملیں گے۔ اِس کے بعد میری شادی تو پکی ہے، چھوٹی بہن کی شادی کیلئے بھی اچھا خاصا جہیز بن جائے گا۔ پہلے تو میں حیران ہوا کہ شادیوں کا گندم سے کیا تعلق؟ لیکن سوال کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
گزشتہ روز تیز ہوائیں چلنے اور بارش کے باعث موسم میں خاصی تبدیلی واقع ہوئی، گرمی برساتے آسمان سے ٹھنڈک برسنے لگی۔ سوشل میڈیا پر بھی برسات کے رنگ نمایاں نظر آنے لگے، دفتر میں مصروفیات کے باعث بارش کے اِس حسین منظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع تو نہیں ملا مگر فیس بک پر شاعری کی صورت میں بارش کے بارے میں سوچنے لگا۔ اِسی دوران میرے زمیندار دوست کا فون آگیا کہنے لگا، بھائی دعا کرو بارشیں تھم جائیں۔ میں نے اُسے کھری کھری سنا ڈالیں کہ ملک میں گرمی کی تازہ لہر سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ہے اور یہ قبلہ چلے بارش کے خاتمے کی دعائیں مانگنے۔
لیکن اُس کے جواب نے مجھے جیسے شرمندہ کردیا۔ وہ کہنے لگا کہ
دوست کی باتوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ کیسے موسمِ بہار کی ابتداء میں ہونے والی ژالہ باری سے ہمارے گاؤں میں کِھلے پھل دار درختوں کے پھول زمین بوس ہوجاتے تھے۔ کیسے ننھے ننھے پھل اولوں کی نذر ہوجاتے تھے اور سارا سال ہمیں پھلوں کے بغیر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ اب بھی جن علاقوں کے لوگوں کا گزارہ پھلوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے، اُن کے لئے یہ رِم جھم، ژالہ باری اور طوفان باد و باراں کتنا تکلیف دہ ہوگا، اِس کا تصور کرنا بھی دشوار ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں پریشانی بڑھ رہی ہے، وہیں پاکستان کے کسان اور زراعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت کے وقت بارشوں کا نہ ہونا اور بے وقت کی رم جھم، موسمِ سرما کا تاخیر سے آنا اور آنے سے پہلے ہی ختم ہوجانا، موسمیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے لئے خطرات بڑھنے لگے، آئندہ 24 سالوں کے دوران درجہِ حرارت میں قابلِ ذکر اضافہ ہوگا، بے وقت بارشوں سے دھان اور گندم کی پیداوار میں کمی کا خطرہ ہے۔ بارش گرمیوں میں 25 اور سردیوں میں 12 فیصد کم جبکہ 2040ء تک اوسط درجہِ حرارت قابلِ ذکر حد تک بڑھ جائے گا۔ دن کا درجہِ حرارت دو اعشاریہ آٹھ، رات کا دو اعشاریہ دو سینٹی گریڈ بڑھے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشئر پگھلنے کے بعد میدانی علاقوں میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھیں گے۔ اِسی طرح فصلوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور پاکستان کا انحصار زراعت پر ہونے کے باعث غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات بھی ہیں۔
لیکن سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ اِن بے وقت کی بارشوں، شدید گرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ ملک میں تعمیرات کے نام پر شہروں میں درختوں کی کٹائی سے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے۔ ملک کے دو بڑے شہروں ہی کی مثال لے لیں لاہور میں میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین اور شاہراؤں کی اپ گریڈیشن کے نام پر سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر اِرد گرد کے سارے زرعی رقبوں پر عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں۔ کراچی کی داستان بھی لاہور جیسی ہے، پارکوں پر قبضہ مافیا کا راج اور شہر میں درخت لگانا گویا ایک خواب بن گیا ہے اور جو درخت لگانے کی کبھی کوشش کی گئی وہ بھی سانس کی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لئے انفرادی اور حکومتی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر درخت لگانے کی مہم شروع کرنی چاہیئے اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا تدراک کرنا ہوگا، جتنے زیادہ درخت ہوں گے، ماحولیاتی آلودگی پر اتنے ہی جلدی قابو پایا جاسکتا ہے، اور ہاں یاد رکھیئے! بارش کے موسم میں سوشل میڈیا پر رومانوی شاعری کے سیلاب لانے سے پہلے غور کیجئے گا کہ اِس بے موسم کی برکھا سے کئی گھر اُداس بھی ہوتے ہیں، اُن کی اداسی کو کم کرنے، اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لئے اپنے حصے کا ایک دیا ضرور لگائیں کیوں کہ برسات، دھوپ اور چھاؤں اُن کے موسم ہی میں اچھے لگتے ہیں۔
گھر کی چھت سے ٹپ ٹپ کرتے بارش کے پانی میں دھواں اُڑاتی چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے شاعری کی کتاب سامنے رکھ کر موسم سے لطف اندوز ہوئے زمانے بیت گئے ہیں۔ جنوری کی برسات، دسمبر کی برف باری اور ساون کی جھڑی کا جو لطف بچپن میں اُٹھایا باقی زندگی میں وہ نظارے کہیں گم سے ہوگئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب برسات کا موسم ہوتا تو اسکول سے چھٹی یقینی ہوجاتی، کیوںکہ ندی نالوں میں طغیانی کے خوف سے والدین بچوں کو اسکول نہیں بھیجا کرتے تھے۔ ہاں مجھے بارش کو دیکھ کر امی کے ماتھے کی شکنیں آج بھی یاد ہیں۔ بِن موسم کے برسات سے جہاں میں خوشی کے شادیانے بجایا کرتا تھا وہیں امی پریشان ہوجایا کرتی تھیں۔ اُنہیں خوف تھا مٹی کے تودے پھسلنے کا، گھر سے باہر گئے ہوئے ایک ایک فرد کا، گھر میں بندھے ہوئے جانوروں کا، بارش کی وجہ سے گھر کی ٹپکتی چھت کا۔ الغرض اتنے زیادہ مسائل کہ جنہیں یہاں بیان کرنا شاید ممکن ہی نہیں۔
گیلی مٹی کی خوشبو میں، میں محو رہتا، ہاں کبھی کبھی بجلی کے کڑکنے سے دل پر خوف سا طاری ہوجاتا تھا مگر یہ خوف استغفار کے ورد سے دور کرلیتا تھا۔ اب جب کہ شعور کی منازل طے کرلیں، آہستہ آہستہ امی کے ماتھے کی شکنوں کے راز منکشف ہونے لگے۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ بِن موسم کے برکھا کیا رنگ دِکھلاتی ہے۔ اب مجھے بارش میں نہاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، اب شاعری کی کتاب تھامے چائے کے کپ سے نکلتے ہوئے دھویں سے ڈر سا لگنے لگا ہے۔ اب مجھے بِن موسم کے برسات کسی بھی حالت میں رحمت کا باعث محسوس نہیں ہوتی۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے، دوستوں کے ساتھ عشائیے پر گپ شپ جاری تھی۔ پنجاب کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے نسبتاً خوشحال دوست نے نوید سنائی کہ اِس سال گندم کی فصل کافی اچھی رہی ہے اور اُمید ہے ریٹ بھی اچھے ملیں گے۔ اِس کے بعد میری شادی تو پکی ہے، چھوٹی بہن کی شادی کیلئے بھی اچھا خاصا جہیز بن جائے گا۔ پہلے تو میں حیران ہوا کہ شادیوں کا گندم سے کیا تعلق؟ لیکن سوال کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔
گزشتہ روز تیز ہوائیں چلنے اور بارش کے باعث موسم میں خاصی تبدیلی واقع ہوئی، گرمی برساتے آسمان سے ٹھنڈک برسنے لگی۔ سوشل میڈیا پر بھی برسات کے رنگ نمایاں نظر آنے لگے، دفتر میں مصروفیات کے باعث بارش کے اِس حسین منظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع تو نہیں ملا مگر فیس بک پر شاعری کی صورت میں بارش کے بارے میں سوچنے لگا۔ اِسی دوران میرے زمیندار دوست کا فون آگیا کہنے لگا، بھائی دعا کرو بارشیں تھم جائیں۔ میں نے اُسے کھری کھری سنا ڈالیں کہ ملک میں گرمی کی تازہ لہر سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ہے اور یہ قبلہ چلے بارش کے خاتمے کی دعائیں مانگنے۔
لیکن اُس کے جواب نے مجھے جیسے شرمندہ کردیا۔ وہ کہنے لگا کہ
تمہیں اندازہ بھی ہے کہ اِس بارش کے باعث کتنے گھروں کے چولہے سال بھر کے لئے ٹھنڈے ہوجائیں گے؟ کتنی اُمیدوں پر پانی پِھر جائے گا؟ تمہیں اِس بات کی خبر بھی ہے کہ ملک میں گندم کی فصل کی کٹائی شروع ہوچکی ہے۔ بارش کے باعث جو فصل کھڑی ہے یا جو کاٹ لی گئی ہے وہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی، بارش کے پانی کے ساتھ گندم کی فصل ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ اِس ملک کے کسانوں کے ارمان بھی بہہ جائیں گے۔
دوست کی باتوں کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ کیسے موسمِ بہار کی ابتداء میں ہونے والی ژالہ باری سے ہمارے گاؤں میں کِھلے پھل دار درختوں کے پھول زمین بوس ہوجاتے تھے۔ کیسے ننھے ننھے پھل اولوں کی نذر ہوجاتے تھے اور سارا سال ہمیں پھلوں کے بغیر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ اب بھی جن علاقوں کے لوگوں کا گزارہ پھلوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے، اُن کے لئے یہ رِم جھم، ژالہ باری اور طوفان باد و باراں کتنا تکلیف دہ ہوگا، اِس کا تصور کرنا بھی دشوار ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں پریشانی بڑھ رہی ہے، وہیں پاکستان کے کسان اور زراعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اضطراب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت کے وقت بارشوں کا نہ ہونا اور بے وقت کی رم جھم، موسمِ سرما کا تاخیر سے آنا اور آنے سے پہلے ہی ختم ہوجانا، موسمیاتی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کے لئے خطرات بڑھنے لگے، آئندہ 24 سالوں کے دوران درجہِ حرارت میں قابلِ ذکر اضافہ ہوگا، بے وقت بارشوں سے دھان اور گندم کی پیداوار میں کمی کا خطرہ ہے۔ بارش گرمیوں میں 25 اور سردیوں میں 12 فیصد کم جبکہ 2040ء تک اوسط درجہِ حرارت قابلِ ذکر حد تک بڑھ جائے گا۔ دن کا درجہِ حرارت دو اعشاریہ آٹھ، رات کا دو اعشاریہ دو سینٹی گریڈ بڑھے گا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشئر پگھلنے کے بعد میدانی علاقوں میں سیلاب کے خطرات بھی بڑھیں گے۔ اِسی طرح فصلوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں اور پاکستان کا انحصار زراعت پر ہونے کے باعث غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات بھی ہیں۔
لیکن سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ اِن بے وقت کی بارشوں، شدید گرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ ملک میں تعمیرات کے نام پر شہروں میں درختوں کی کٹائی سے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے۔ ملک کے دو بڑے شہروں ہی کی مثال لے لیں لاہور میں میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین اور شاہراؤں کی اپ گریڈیشن کے نام پر سینکڑوں درخت کاٹ ڈالے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر اِرد گرد کے سارے زرعی رقبوں پر عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں۔ کراچی کی داستان بھی لاہور جیسی ہے، پارکوں پر قبضہ مافیا کا راج اور شہر میں درخت لگانا گویا ایک خواب بن گیا ہے اور جو درخت لگانے کی کبھی کوشش کی گئی وہ بھی سانس کی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لئے انفرادی اور حکومتی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر درخت لگانے کی مہم شروع کرنی چاہیئے اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا تدراک کرنا ہوگا، جتنے زیادہ درخت ہوں گے، ماحولیاتی آلودگی پر اتنے ہی جلدی قابو پایا جاسکتا ہے، اور ہاں یاد رکھیئے! بارش کے موسم میں سوشل میڈیا پر رومانوی شاعری کے سیلاب لانے سے پہلے غور کیجئے گا کہ اِس بے موسم کی برکھا سے کئی گھر اُداس بھی ہوتے ہیں، اُن کی اداسی کو کم کرنے، اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لئے اپنے حصے کا ایک دیا ضرور لگائیں کیوں کہ برسات، دھوپ اور چھاؤں اُن کے موسم ہی میں اچھے لگتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔