دن منائیے مگر
قومی ہیروز کو سراہنے کا کوئی تو ایسا طریقہ نکالا جائے کہ اُن جیسا کوئی اور واپس پیدا ہوسکے۔
دن منانے کا رواج دنیا بھر میں بالعموم اور ملکِ عزیز میں بالخصوص عام ہو رہا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرتا ہو جس میں کوئی نہ کوئی دن کہیں نہ کہیں منایا نہ جا رہا ہو۔
ویلنٹائن ڈے، حقوقِ نسواں کا دن، پانی کا دن، ٹی بی اور پولیو کا دن، جانوروں کا دن، اردو کی ترقی و ترویج کا دن، نیلسن منڈیلا کا دن، مارٹن لیوتھر کنگ کا دن، یومِ پاکستان، بے نظیر بھٹو کا دن اور اب تو فیض احمد فیض کا دن، علامہ اقبال کا دن، حبیب جالب کا دن وغیرہ وغیرہ۔ وہ دن دور نہیں جب فلمی اداکاراوں، کرکٹرز اور بھانڈ و میراثیوں کے دن بھی منائیں جائیں گے۔
دن منانے کے شوقین اور ٹی وی پروگرامز کرنے کی دھن میں سوار میزبان و شاَئقین کو صرف دن منانے سے مطلب ہے۔ اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس وجہ سے دن منایا جا رہا ہے وہ وجہ کیا تھی؟ وہ شخص باواقعہ کیا تھا، وہ کیا پیغام دیتا ہے اور ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ مزید بدتمیزی یہ کہ جن کے خلاف وہ عمر بھر لکھتے رہے وہی راج، وہی سماج اُن کے بارے میں رائے دیں۔ جس شخص کو فیض کی نثر تک نہ پڑنی آئے وہ بھی فیض پر بات کریں۔ اُردو ادب و شاعری کے ذوق کے دعویدار یہ تو دیکھیں کہ 70 سال میں پاکستان نے کتنے دانشور، ادیب اور شعراء پیدا کئے جن کا نام فخر سے لیا جاسکے؟ یہ تو سارے ہندوستان کی میراث ہیں فیض احمد فیض، حبیب جالب، ناصر کاظمی، شکیب صدیقی، جمیل الدین عالی، سعادت حسن منٹو سب وہاں سے آئے۔ لے دے کے پروین شاکر ہماری اپنی ایجاد ہیں۔ جو ملک 70 سالوں میں ایک درجن شعراء و ادیب نہ دے سکا کوئی اُس کے ادبی ذوق و شعور کی ضمانت کیونکر دے؟
سفارش، اقرباء پروری اور پیسوں کے رسیا لوگوں کے بیچ آپ نے ایسا کیا کیا کہ اگلا حبیب جالب یا افتخار عارف پیدا ہوسکے؟
گزشتہ دنوں حبیب جالب کو پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ مارچ کا مہینہ حبیب جالب کی پیدائش و وفات کا مہینہ ہے۔ ملک کے سیاستدان اور بچہ بچہ اِس شاعرِ انقلاب کی نظمیں ''دستور'' اور ''میں نہیں مانتا'' کا حافظ ہے مگر ستم دیکھیے کہ جن لوگوں کے خلاف نظمیں لکھیں آج وہی اُسے لہک لہک کر پڑھتے ہیں۔ یہ خراجِ عقیدت نہیں تضحیک ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جھوٹے آدمی کی تعریف سچے آدمی کے حق میں توہین ہے۔ بڑے کی تنقید چھوٹے کی تعریف بن جاتی ہے اور چھوٹے کی تعریف بڑے کے لئے باعثِ شرم ہوجاتی ہے۔ اپنا اپنا مقام ہے۔ کوئی 5 سالہ بچہ لالی پاپ چوستے ہوئے بھاتا ہے مگر 70 سال کا بوڑھا وہی حرکت کرے تو؟ آدمی کو کسی پر بات کرنے سے پہلے اپنا اور اُس کا قد کاٹھ دیکھنا چاہیے۔ جس نے زندگی میں جیل کی شکل نہیں دیکھی وہ حبیب جالب کے جیل میں کاٹے ہوئے دنوں پر لیکچر دیتا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب حبیب جالب جیل میں قید تھے تو اُس وقت اُن کا 3 سالہ بچہ فوت ہوگیا تھا؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اُن کے بیٹے کی موت پر بھٹو صاحب نے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے واپس لوٹا دئیے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حبیب جالب کی موت پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے 5 لاکھ اُن کی بیوہ کو دینے چاہے مگر انہوں نے نہ لئے حالانکہ اُس دن گھر میں کھانے تک کو کچھ نہ تھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اُن کی بڑی بیٹی جمیلہ نور جالب 41 سال کی عمر میں ٹینشن سے مرگئیں کہ شوہر کئی سالوں سے بے روزگار تھا۔ دوسری بیٹی طاہرہ جالب ڈرائیونگ سکھاتی ہے وہ بھی ٹیکسی پر۔ بیٹا یاسر مرغی فروش کی دکان پر کام کرتا ہے اور اُن کی فیملی کو حبیب جالب کی کتابوں کی رائلٹی تک نہیں ملتی۔ حبیب جالب پاکستانی تاریخ کے وہ پہلے شاعر ہیں جن کا کلام سیاسی بنیادوں پر ضبط کیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ایسا ہر ایونٹ کرنے سے پہلے کوئی ایک دو لاکھ روپے اُس کے اہلِ خانہ کو بھی دے دئیے جائیں جو 20 کروڑ لوگوں کو اُمید دے گیا۔ اتنی ہی محبت ہے تو اُن کی زندگی پر کوئی ڈرامہ بنا دو، اُن کی نظمیں نصاب میں شامل کردو۔ کوئی اکیڈمی اُن کے نام سے بنا دو۔ کوئی شاعری یا ادب کا ایوارڈ اُن کے نام سے منسوب کر دو۔
قومی ہیروز کو سراہنے کا کوئی تو ایسا طریقہ نکالیں کہ اُن جیسا کوئی واپس پیدا ہوسکے، اور جو غلطی سے ہوچکے ہیں وہ کچھ نہ کچھ کرکے چین سے مر سکیں۔
باقی آپ سب کو گزشتہ اور آنے والے تمام دن زور و شور سے مبارک ہوں!
ویلنٹائن ڈے، حقوقِ نسواں کا دن، پانی کا دن، ٹی بی اور پولیو کا دن، جانوروں کا دن، اردو کی ترقی و ترویج کا دن، نیلسن منڈیلا کا دن، مارٹن لیوتھر کنگ کا دن، یومِ پاکستان، بے نظیر بھٹو کا دن اور اب تو فیض احمد فیض کا دن، علامہ اقبال کا دن، حبیب جالب کا دن وغیرہ وغیرہ۔ وہ دن دور نہیں جب فلمی اداکاراوں، کرکٹرز اور بھانڈ و میراثیوں کے دن بھی منائیں جائیں گے۔
دن منانے کے شوقین اور ٹی وی پروگرامز کرنے کی دھن میں سوار میزبان و شاَئقین کو صرف دن منانے سے مطلب ہے۔ اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس وجہ سے دن منایا جا رہا ہے وہ وجہ کیا تھی؟ وہ شخص باواقعہ کیا تھا، وہ کیا پیغام دیتا ہے اور ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ مزید بدتمیزی یہ کہ جن کے خلاف وہ عمر بھر لکھتے رہے وہی راج، وہی سماج اُن کے بارے میں رائے دیں۔ جس شخص کو فیض کی نثر تک نہ پڑنی آئے وہ بھی فیض پر بات کریں۔ اُردو ادب و شاعری کے ذوق کے دعویدار یہ تو دیکھیں کہ 70 سال میں پاکستان نے کتنے دانشور، ادیب اور شعراء پیدا کئے جن کا نام فخر سے لیا جاسکے؟ یہ تو سارے ہندوستان کی میراث ہیں فیض احمد فیض، حبیب جالب، ناصر کاظمی، شکیب صدیقی، جمیل الدین عالی، سعادت حسن منٹو سب وہاں سے آئے۔ لے دے کے پروین شاکر ہماری اپنی ایجاد ہیں۔ جو ملک 70 سالوں میں ایک درجن شعراء و ادیب نہ دے سکا کوئی اُس کے ادبی ذوق و شعور کی ضمانت کیونکر دے؟
سفارش، اقرباء پروری اور پیسوں کے رسیا لوگوں کے بیچ آپ نے ایسا کیا کیا کہ اگلا حبیب جالب یا افتخار عارف پیدا ہوسکے؟
گزشتہ دنوں حبیب جالب کو پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ مارچ کا مہینہ حبیب جالب کی پیدائش و وفات کا مہینہ ہے۔ ملک کے سیاستدان اور بچہ بچہ اِس شاعرِ انقلاب کی نظمیں ''دستور'' اور ''میں نہیں مانتا'' کا حافظ ہے مگر ستم دیکھیے کہ جن لوگوں کے خلاف نظمیں لکھیں آج وہی اُسے لہک لہک کر پڑھتے ہیں۔ یہ خراجِ عقیدت نہیں تضحیک ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جھوٹے آدمی کی تعریف سچے آدمی کے حق میں توہین ہے۔ بڑے کی تنقید چھوٹے کی تعریف بن جاتی ہے اور چھوٹے کی تعریف بڑے کے لئے باعثِ شرم ہوجاتی ہے۔ اپنا اپنا مقام ہے۔ کوئی 5 سالہ بچہ لالی پاپ چوستے ہوئے بھاتا ہے مگر 70 سال کا بوڑھا وہی حرکت کرے تو؟ آدمی کو کسی پر بات کرنے سے پہلے اپنا اور اُس کا قد کاٹھ دیکھنا چاہیے۔ جس نے زندگی میں جیل کی شکل نہیں دیکھی وہ حبیب جالب کے جیل میں کاٹے ہوئے دنوں پر لیکچر دیتا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب حبیب جالب جیل میں قید تھے تو اُس وقت اُن کا 3 سالہ بچہ فوت ہوگیا تھا؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اُن کے بیٹے کی موت پر بھٹو صاحب نے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے واپس لوٹا دئیے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حبیب جالب کی موت پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے 5 لاکھ اُن کی بیوہ کو دینے چاہے مگر انہوں نے نہ لئے حالانکہ اُس دن گھر میں کھانے تک کو کچھ نہ تھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اُن کی بڑی بیٹی جمیلہ نور جالب 41 سال کی عمر میں ٹینشن سے مرگئیں کہ شوہر کئی سالوں سے بے روزگار تھا۔ دوسری بیٹی طاہرہ جالب ڈرائیونگ سکھاتی ہے وہ بھی ٹیکسی پر۔ بیٹا یاسر مرغی فروش کی دکان پر کام کرتا ہے اور اُن کی فیملی کو حبیب جالب کی کتابوں کی رائلٹی تک نہیں ملتی۔ حبیب جالب پاکستانی تاریخ کے وہ پہلے شاعر ہیں جن کا کلام سیاسی بنیادوں پر ضبط کیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ایسا ہر ایونٹ کرنے سے پہلے کوئی ایک دو لاکھ روپے اُس کے اہلِ خانہ کو بھی دے دئیے جائیں جو 20 کروڑ لوگوں کو اُمید دے گیا۔ اتنی ہی محبت ہے تو اُن کی زندگی پر کوئی ڈرامہ بنا دو، اُن کی نظمیں نصاب میں شامل کردو۔ کوئی اکیڈمی اُن کے نام سے بنا دو۔ کوئی شاعری یا ادب کا ایوارڈ اُن کے نام سے منسوب کر دو۔
قومی ہیروز کو سراہنے کا کوئی تو ایسا طریقہ نکالیں کہ اُن جیسا کوئی واپس پیدا ہوسکے، اور جو غلطی سے ہوچکے ہیں وہ کچھ نہ کچھ کرکے چین سے مر سکیں۔
باقی آپ سب کو گزشتہ اور آنے والے تمام دن زور و شور سے مبارک ہوں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔