چار صوبے چار وزرائے اعلیٰ

افسوس یہ کہ اب تک کراچی کا کچرا، پشاور کے چوہے، لاہور کے مچھر اور کوئٹہ کے دہشت گرد ختم نہ ہوسکے۔


حافظ خرم رشید April 09, 2017
اگر چاروں وزرائے اعلیٰ ایک ایک شہر کو ایک سال کے بڑے عرصے میں بہتر بنانے کا ہدف بنالیتے تو آج پاکستان کے 20 شہر صرف صاف ستھرے اور پُرامن ہوتے۔ فوٹو: ایکسپریس

GENEVA: ایس ایم لاء کالج کے ابتدائی دور میں ایک انتہائی شفیق اور طنزومزاح سے بھرپور شخصیت کے حامل استاد جسٹس (ر) جمیل صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور اُن کے پُرلُطف لیکچرز سننے کا موقع بھی ملا۔ اُن کی دوستانہ طبیعت میں یہ جُز بھی شامل تھا کہ نصاب کے علاوہ روز مرہ زندگی سے متعلق بھی سوالات کئے جاسکتے تھے اور اگر طالب علم نصابی سوال کر بھی لے تو وہ اِس کا جواب قانونی ہی دیا کرتے تھے۔

ایک روز دورانِ لیکچر میں نے محترم جمیل صاحب سے سوال کیا کہ سر جج کیسے بنتے ہیں اور وکیل اور جج میں کیا فرق ہوتا ہے؟ تو استادِ محترم نے جواب دیا کہ انسان خود ہی اپنے غلطیوں کا سب سے بڑا وکیل اور دوسرے لوگوں کی کوتاہیوں کا سب سے بڑا جج ہوتا ہے۔ میں اِس جواب سے مطمئن تو نہ ہوا لیکن یہ جملہ میرے دل میں تیر کی طرح پیوست اور ذہن میں نقش ہوگیا۔

گزشتہ 10 سالوں سے مختلف ٹی وی چینلز پر سیکڑوں پروگرامز میں سیاسی اکھاڑے سجائے گئے، تقریباً تمام وفاقی و صوبائی وزراء حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے ترجمان چینلز کی زینت بنے رہے اور موضوعِ بحث ملکی حالات، توانائی بحران، گیس لوڈشیڈنگ، بدامنی و دہشت گردی، بے روزگاری، کرپشن، اداروں اور معیشت کی تباہی و بدحالی رہا۔

اِن تمام مسائل کی وجوہات جب اقتدار میں رہنے والوں سے پوچھی گئی تو اُن کے مطابق قتل و غارت گری کو دراصل سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا، بڑے سانحات یعنی بم دھماکوں کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان و افغانستان کے سر تھونپا گیا، توانائی بحران اور اداروں کی ڈوبتی نیا کو نکالنے کے بجائے گزشتہ حکومت کی ناقص حکمتِ عملی کو قرار دیا گیا، گوکہ یہ تمہید ہے کہ 5 سال کے دورِ اقتدار کو قلیل وقت قرار دے کر تمام مسائل کا جواز پیش کردیا جائے۔

الغرض حکومتِ وقت، خاطر خواہ جواب سے قاصر رہتی ہے اور مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت تنزلی کا شکار ہے، قومی قرضوں میں تقریباً 8 ہزار ارب روپے بڑھے، عام ضرورت زندگی بشمول اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا، پاکستانی روپے کی قدر شرمناک حد تک گرچکی ہے جبکہ کرپشن نے قومی اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہر دور کی طرح اِِس دور میں بھی من پسند افراد کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جس سے اداروں کی بنیادیں ہِل کر رہ گئیں۔ پی آئی اے، اسٹیل مل اِس کی زندہ مثالیں ہیں۔

اب مجھے مرحوم جمیل صاحب کا یہ جملہ شدت سے یاد اورسمجھ آتا ہے کہ انسان واقعی اپنی غلطیوں کا سب سے بڑا وکیل اور دوسروں کی کوتاہیوں کا سب سے بڑا جج ہوتا ہے۔

جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی رونا روتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ آمریت ہے اور آمر ہی جمہوریت پر قابض ہوکر عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال دیتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار گزشتہ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ زکر ہے کہ اِس دور حکومت میں آئینی ترامیم کرکے آمرانہ شقوں کو بھی ختم کردیا گیا۔ اب پیپلزپارٹی کے 5 سالہ دور اقتدار کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی بخیر و عافیت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی جانب کامیابی سے رواں دواں ہے، یعنی اقتدار کے ایوانوں میں جمہوریت نے اب تک 9 سال کا عرصہ بلا خوف اور آمریت کی مداخلت کے بغیر پورا کرلیا ہے اور اُمید ہے کہ باقی ماندہ ایک سال بھی کسی نہ کسی طرح جمہوریت قائم ہی رہے گی۔

جمہوری حکومتوں کے 9 سالہ طویل عرصے میں 108 ماہ یعنی 3240 دن گزر چکے ہیں اور اب تک کراچی کا کچرا، پشاور کے چوہے، لاہور کے مچھر اور کوئٹہ کے دہشت گرد ختم نہ ہوسکے۔ پاکستان کے 4 صوبوں کے پاس اپنے اپنے 4 وزرائے اعلیٰ ہیں اور اگر چاروں وزرائے اعلیٰ ایک ایک شہر کو ایک سال کے بڑے عرصے میں بہتر بنانے کا ہدف بنالیتے تو آج پاکستان کے 20 شہر نہ صرف صاف ستھرے اور پُرامن ہوتے بلکہ اِن شہروں کا ذکر دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا۔

لیکن صاحب ! اگر یہ تمام کام ہوجاتے اوراگر تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے تو پھر یہ سیاستدان آئندہ الیکشن میں کس کام کو پورا کرنے کا وعدہ کرکے ووٹ مانگتے؟

یہ المیہ ہے کہ ہماری عوام نشان کو ووٹ دیتے ہیں اور انسان کو پسِ پشت ڈال کر ووٹ مانگنے والوں سے ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر تک نہیں کرتے۔ اب ملک کے طاقتور سیاستدانوں کو یہ رائے دینا تو ممکن نہیں لیکن عوام کو ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک سیاستدانوں کی شعلہ بیانی سے متاثر ہوکر اور بار بار وعدے وفا نہ کرنے کے باوجود بھی انہی روایتی سیاستدانوں کا چناؤ کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک انہیں اپنے ووٹ بخش کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے رہیں گے اور پھراِن کامیاب سیاستدانوں کا منہ دیکھنے کو ترسنے والے عوام کے ساتھ اِن کے منتخب کردہ امیدوار نہیں بلکہ جوں کے توں رہنے والے مسائل ہی ارد گرد گھومتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |