قانونسادگی اورسناٹا

اندھی تقلید اورغیرحقیقی داستانوں نے ہمیں ذہنی طورپربرباد کردیا ہے


راؤ منظر حیات April 08, 2017
[email protected]

چنددن قبل امریکا کے دارالحکومت میں ایک سیاہ فام شخص ایک معمولی سے اسٹورپرگیا۔ چیزیں خریدتارہا۔ سودا سلف ٹوکری میں ڈالااورپیسے دینے والی لائن میں لگ گیا۔ باری آنے پرٹوکری سے ساراسامان نکال کر کاؤنٹر پر رکھا۔ وہاں موجودخاتون نے سارے سامان کی جانچ پڑتال کی۔ بل بنایااوراس سیاہ فام شخص کے حوالے کردیا۔ اس نے جیب سے کریڈٹ نکالااور ادا ئیگی کردی ۔

وہاں سے نکلتے ہوتے ہوئے کوئی چیزاس کے ہاتھ سے گری۔اس نے زمین پرگری ہوئی چیزکواُٹھاکرسنبھال لیا۔اس کے ساتھ کوئی ملازم موجود نہیں تھا۔کوئی لاؤلشکرنہیں تھا۔کوئی ہٹوبچوکی آواز نہیں آرہی تھی۔ظلِ الہی اوربادشاہ سلامت کے نعرے نہیں لگ رہے تھے۔چندلوگ اسے پہچان کرہاتھ ملالیتے تھے۔ ذاتی حفاظت کے لیے حکومت کا باوردی سپاہی اس کے ساتھ ضرورتھا ۔گارڈ نے نہ خریداہواسامان اُٹھایا، نہ اس نے زمین پرگری ہوئی چیزاُٹھانے میں سیاہ فام شخص کی مدد کی ۔ وہ شخص اپنی گاڑی خودچلاکرگھرچلاگیا۔یہ شخص چندماہ پہلے تک دنیاکاسب سے طاقتورانسان تھا۔

آٹھ برس امریکا کا صدررہنے والابارک اوباما تھا۔اس کے چہرے پرکوئی رعونت،کوئی غصہ،کوئی تلخی یاتکبرنہیں تھا۔ہرایک سے مسکرا کر بات کررہاتھا۔حدتویہ تھی کہ اسٹورپرموجودکسی کو ظاہر ہی نہیں کیاکہ وہ سابقہ امریکی صدرہے۔عام آدمی کی طرح آیا اور سکون سے واپس چلاگیا۔کیادنیاکے مسلمان ملکوں میں مقتدرلوگوں کاایساانسانی رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔ جواب آپ سب کومعلوم ہے۔ یہ ایک کافر ملک کے نظام کی اندورنی طاقت ہے جس میں سابقہ صدربھی معمولی انسان کی طرح زندگی گزاررہاہے۔

امریکا توخیرسات سمندرپارہے۔ایشیا تک محدود ہو کرملکی حکمرنواں کے طرزعمل کوپرکھنے کی کوشش کریں۔جنوبی کوریاکی مثال لیجیے۔پارک جین ہائی اس ملک کے طاقتور ترین خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔اسکاوالدجنرل پارک ہی اٹھارہ برس تک جنوبی کوریاکاصدررہا۔اس ملک کی اقتصادی ترقی اورمعیشت کی مضبوط بنیادرکھنے والایہی فردِواحد تھا۔ اس نے بیٹی کواپنے جانشین کے طورپرتیارکیاتھا۔والدکے قتل کے بعدپارک ہائی بڑے آرام سے قصرِصدارت پہنچ گئی۔

وہی محل جہاں اسکابچپن اورجوانی کابیشترحصہ گزرا تھا۔ قصرِصدارت کوکوریامیں"بلیوپیلس"کہاجاتاہے۔پارک کاصدارتی دفتراس درجہ شاہانہ تھاکہ اسے دروازے سے اپنی میزتک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگتے تھے۔چندماہ پہلے الزام لگاکہ اس کی قریب ترین سہیلی چوٹی سون سل نے دس کمپنیوں سے ساٹھ ملین ڈالرکاچندہ وصول کیاہے۔پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ملکی نظام اس درجہ طاقتورہے کہ صدرمکمل طور پربے بس ہوگئی۔پارلیمنٹ میں اسکامواخذہ ہوا۔ عدالت میں صدرپرکرپشن اوراقرباپردری کے الزام کے تحت پولیس نے ثبوت پیش کیے۔جج کے سامنے یہ نکتہ رکھاگیاکہ صدر کسی صورت میں ملک نہیں چھوڑے گی۔ تفتیش اورمقدمہ کاسامناکریگی۔مگرجج کے سامنے سرکاری وکیل نے صرف ایک جملہ کہاکہ پارک اپنے خلاف ثبوت ختم کرانے کی کوشش کرسکتی ہے۔جج نے جنوبی کوریاکی مضبوط ترین صدرکوجیل بھیج دیا۔مگرایک اہم ترین نقطہ یہیںسے شروع ہوتاہے۔

جیل میں سب سے پہلے اس کا میک اَپ اتارا گیا۔ کسی نے بھی صدرکومیک اَپ کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔پینسٹھ برس کی پارک میک اَپ کے بغیرمکمل طورپرایک بوڑھی خاتون نظرآنے لگی۔ساتھ ساتھ بالوں سے تمام پنیں نکال دی گئیں صرف اسلیے کہ بالوں کی پن سے اپنے آپ کو جسمانی نقصان نہ پہنچاسکے۔سابقہ صدرکے قیمتی ترین سوٹ کواترواکرسبزرنگ کے جیل والے کپڑے پہنادیے گئے۔ہلکے سبزرنگ کے یہ کپڑے تمام قیدی پہنتے ہیں۔ پارک کوجس کوٹھری میں بندکیاگیا،وہ تقریباًسات میٹر کا چوکور کمرہ تھا۔اس میں ایک ٹیبل،ایک بیڈ،ایک کموڈ لگا ہوا تھا۔ صدرکوجیلرنے بتایاکہ تمہیں کھانے کے برتن خوددھونے پڑینگے۔کوئی ملازم نہیں ملے گا۔صبح چھ بجے جاگناپڑیگااورشام آٹھ بجے سوناہوگا۔ہاں،اسے جیل میں قیدتنہائی میں رہنا ہوگا۔ایک گھنٹہ کے لیے ورزش کے لیے کھولا جائیگا۔یعنی پارک کوایک عام سے قیدی کی طرح رہنا ہوگا۔ پارک کا خاندان جنوبی کوریاکاطاقتورترین خاندان ہے۔

وہ جیلرکویہ نہیں کہہ سکی کہ اسے ایک مشقتی یانوکرکی سہولت کیوں نہیں دی گئی۔اے یابی کلاس کے قابل کیوں نہیں سمجھا گیا۔ گھر کے کھانے کی سہولت کیوں میسرنہیں۔پارک نے فرمائش کرنے کی جرات بھی نہیں کی،کہ کمرمیں درد رہتا ہے، لہذا اسپتال میں منتقل کردیاجائے۔اس نے قانون اور ضابطہ کے تحت سرتسلیم خم کیا ۔کیااس طرح کے رویے کا امکان ہمارے جیسے ملکوں میں کیاجاسکتاہے۔ہمیں توقرون اولیٰ کے قصے سناسناکرذہنی طورپرمفلوج کردیا گیا ہے۔ سوچیے، ہماری جیلوں میں مقتدرلوگ کیسے رہتے ہیں۔ جاتے ہی اے کلاس حاصل کرتے ہیں۔گھرسے کھانا آنا شروع ہوجاتاہے۔جیل میں نوکرمل جاتاہے۔ہرآسائش مہیا کی جاتی ہے۔آگے بڑھیے، غور کیجیے۔ حجاز کاعلاقہ ہمارے لیے مقدس ترین خطہ ہے۔

مذہبی احترام بالکل درست ہے مگرکیاہمیں دیکھنے اور سوچنے کاموقعہ نہیں ملنا چاہیے کہ سعودی شاہی خاندان کے افرادکس پُرتعیش طریقے سے زندگی گزاررہے ہیں۔ابھی سعودی بادشاہ نے ایشیا کا سرکاری دورہ کیا ہے۔شاہی وفد میں ایک ہزاراہل خانہ، بیگمات اوردوست تھے۔ اس میں پچیس شہزادے اوردس وزیربھی شامل تھے۔ بادشاہ کے لیے مخصوص شاہی کرسی ساتھ لائی گئی تھی۔ بادشاہ کیونکہ زیادہ چل نہیں سکتے لہذاانکی سہولت کے لیے برقی سیڑھیاں اور ایلیویٹر ساتھ لائے گئے۔ اس پُرتعیش دورے سے کیاحاصل ہوا،کوئی کچھ نہیں کہہ سکا۔

اپنے ملک پرنظردوڑائیے۔کسی تعصب سے بالاتر ہو کر معاملات کوحقائق کی نظرسے دیکھنے کی کوشش کریں۔ کیا گزشتہ سترسال میں آپ نے کسی صدر، وزیراعظم، وزیر یا اہم آدمی کو دیکھاہے کہ گھرکاسوداخودخریدرہاہو۔شائدایک دولوگ ایسے مردِدرویش ہوں جن کی روحیں اقتدارمیں رہنے سے زنگ آلودنہیں ہوئیں۔معراج خالدصاحب ایسے ہی عجیب وغریب شخص تھے۔وزیراعلیٰ بھی رہے اور وزیراعظم بھی۔مگرانکی زندگی سادگی سے معمورتھی۔ان چند لوگوں کے علاوہ کوئی مثال دیں،جہاں کوئی اہم شخص کسی دکان پرگیاہواور اہل خانہ کے لیے گھرکاسامان خریدے۔ ہاں، یہ اوربات ہے کہ لندن یاامریکا جاکریہ لوگ دیوانوں کی طرح شاپنگ کرتے ہیں۔آکسفورڈسٹریٹ میں جاکر پاگلوں کی طرح کپڑے،جوتے اوردیگرذاتی سامان خریدتے ہیں۔

ہمارے ایک سابق وزیراعظم کی اہلیہ نے لندن کے ''ہیرڈز اسٹور''سے اتنی زیادہ شاپنگ کی کہ سامان کے لیے اس اسٹورسے متعددصندوق خریدنے پڑے۔شاپنگ کابل کروڑوں میں تھاجو ایک پاکستانی تاجرنے ادا کیا۔ اکثر عدالتی نظام کی بربادی کاگریہ ہوتاہے۔مگرکوئی ہے جواعلان کرے کہ مقتدر لوگوں کوجیل میں عام لوگوں جیسی سہولتیں میسرہوںگی۔ قیدیوں کے عام استعمال والے کپڑے پہننے ہوں گے۔ کھانا بھی وہ میسرہوگاجوجیل کے قیدیوں کوملتاہے۔کوئی یہ سب کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ اظہار تک نہیں کر سکتا۔

یہاں کوئی ایساذہنی طور پر طاقتور انسان نہیں جو ساؤتھ کوریا کی مثال دے سکے ۔یہاں کوئی ایساشخص نہیں جوکہہ سکے کہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے حکمران سرکاری وسائل کا اتنا مکروہ اور جاہلانہ استعمال کیونکر کرتے ہیں۔ان پرقانون کی عملداری کیوں نہیں ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ اندھی تقلید اورغیرحقیقی داستانوں نے ہمیں ذہنی طورپربرباد کردیا ہے۔ پورے عالم اسلام میں فکری قحط ہے۔وہاں بادشاہت ہے اسی طرزکی حکمرانی ہے۔وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے مقتدرطبقہ میں سادگی کی ایک بھی مثال نہیں۔قانون کی حکمرانی کی ایک بھی عملی تصویر نہیں۔قانون اورسادگی کی غیرموجودگی میں ہمارے جیسے ملکوں میں دوردورتک خاموشی ہے۔تقلیداورجہالت کاشوروالا سناٹا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں