ہماری سیاست اور سیاستدان

سیاست کا دل نہیں ہوتا اور سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن بھی نہیں ہوتا


Abdul Qadir Hassan April 08, 2017
[email protected]

KARACHI: کہتے ہیں کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا اور سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن بھی نہیں ہوتا۔ اس میں سیاسی دوستیاں بدلتی رہتی ہیں اور سیاسی دشمنی تو ہوتی نہیں مگر اختلاف ضرور ہو تا ہے جو کہ سیاستدان اپنی سیاسی و سماجی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدا کرتے رہتے ہیں، جملہ بازی بھی جاری رہتی ہے جو کہ سیاست کا ایک حسن ہے اور اسی حسین اختلاف کے دم سے سیاست میں رونق لگی رہتی ہے۔ سیاست میں کوئی مستقل زبان نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سیاست بے زبانی کا نام ہے اور سیاستدان وہی بولی بولتے ہیں جو ان کے مطلب کی ہوتی ہے ورنہ چپ رہتے ہیں۔

الیکشن گو کہ اگلے سال ہونا ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اپنے جیالوں، متوالوں اور کھلاڑیوں میں نئی روح پھونکنے اور ان کو اگلے سال ہونے والے انتخابات میں متحرک کرنے کے لیے ابھی سے میدان لگانے شروع کر دیے ہیں، سیاسی ورکر سیاسی جماعتوں کی روح ہوتے ہیں اور ان کے دم قدم سے ہی کوئی بھی سیاسی جماعت زندہ رہتی ہے اور اگر کسی جماعت کے ورکر اس سے ناراض ہو جائیں تو پھر سمجھیں کہ وہ یتیم ہو گئی بلکہ ختم ہو گئی۔

سیاست کا میدان تب تک ہی سجا رہتا ہے جب تک ملک میں کسی بھی سطح کے انتخابات ہو رہے ہوں چاہے وہ بلدیاتی ہی کیوں نہ ہوں یا پھر قومی، اس کے بعد جب حکومت بن جاتی ہے تو پھر سیاست میں وہ گرمجوشی باقی نہیں رہتی بلکہ حکومت کرنے کا عملی کام شروع ہو جاتا ہے اور عوام اس بات کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ الیکشن کے دوران کیے گئے وعدے کب پورے ہوتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد صورتحال وہ نہیں رہتی جو کہ الیکشن سے پہلے ہوتی ہے کیونکہ سیاستدان اور عوام کا رشتہ الیکشن سے پہلے ووٹر کا ہوتا ہے اور بعد میں حکمران کا۔ وہ توقعات اور قسمیں جو کہ وعدوں کی شکل میں ووٹرکی امید بنا کر نبھانے کی بات کی جاتی ہے حکمرانی کے بعد ان میں کئی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سیاستدان ووٹ کے حصول کے بعد اقتدار میں آکر سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور عوام بے چارے دلفریب وعدوں کی وفا کی آس میں اپنی امیدوںکا خون ہوتا دیکھتے ہیں۔

ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے تو جن میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے ابھی سے آیندہ سال ہونے والے الیکشن کی تیاری بھی شروع کر دی ہے اور پیپلز پارٹی جو کہ کبھی وفاق کی جماعت کا کردار ادا کرتی تھی اپنے آخری دور اقتدار کی وجہ سے اپنے آبائی صوبے سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے سابق صدر محترم آصف زرداری کا کہنا ہے کہ الیکشن اسی سال ہوں گے اور میں حکومت بنا کر دکھاؤں گا میرا تجربہ اور بلاول کی نوجوان قیادت کے جوڑ سے ہم انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔انھوں نے خاص طور پر پنجاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پنجاب آمد سے یہاں کے حکمرانوں کی حالت خراب ہو گئی ہے۔

وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں وہ پنجاب سے بھی خاطر خواہ کامیابی سمیٹیں گے۔ اس کے لیے کوئی دلیل تو ان کے پا س نہیں ہے کیونکہ انھوں نے جس منشور کے تحت الیکشن لڑا تھا وہ شہید بینظیر بھٹو کا تھا، وہ تو حادثاتی طور پر اقتدار میں آ گئے، انھوں نے شاید اس منشور کواپنایا نہیں تھا اور صرف اقتدار کے مزے ہی لوٹے۔ اپنے دور اقتدار کے بعد تو سندہ کے علاوہ کسی بھی صوبے سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے اور پیپلز پارٹی جو کہ اپنے آپ کو وفاق کی جماعت ہونے کا دعویٰ رکھتی تھی اپنے بھر پور دور اقتدار کے بعد علاقائی سطح تک محدود ہو گئی گو کہ اپوزیشن کا انتہائی اہم منصب پھر بھی اسی کے حصے میں آیا لیکن وہ اس کے ساتھ وہ انصاف نہ کر سکے جو کہ اس منصب کا وقار تھا۔

کامیابی حاصل کرنے کے ان دعوں کے پیچھے یہ نظر آرہا ہے کہ وہ حکمران جماعت کی کارکردگی کی وجہ سے کامیابیاں حاصل کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ورکر اس کو کبھی نہیں چھوڑتا ہاں ناراض ضرورہو جاتا ہے اور گھر بیٹھ جاتا ہے لیکن ہم نے گزشتہ الیکشن میں دیکھا کہ سندھ کی حد تک وہ گھر تو نہ بیٹھا لیکن باقی صوبوں میں اس نے اپنی سیاسی وفاداریوں کو کسی حد تک تبدیل ضرور کیا کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے اور جماندور قسم کے ورکروں کی پیداوار ختم ہو چکی ہے اوراب تو وہی ساتھ دیتا ہے جس کو اپنے لیڈر سے کسی قسم کی آس بلکہ نفع بخش امید ہوتی ہے۔

دوسروں کی بری کارکردگی کی بنیاد پر اپنی کامیابی کے دعوے کرنا اور وہ بھی صوبہ پنجاب میں ممکن نہیں لگتا کیونکہ پنجاب کی حد تک خادم اعلیٰ نے اپنے آپ کو منوایا ہے گو کہ شہد اور دودھ کی نہریں تو نہ بہہ سکیں لیکن بہت حد تک ترقیاتی کام پایہ تکمیل تک پہنچے جن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔

عوام اب سیاسی جماعتوںکے بھیدی ہو چکے ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کون ان کے ساتھ کتنا مخلص ہے یا باتیں ہی باتیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ عوام اب آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے ہجوم سے اُکتا چکے ہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ انھوں نے تو ہمیشہ انھی کومنتخب کیا چاہے وہ کسی بھی جماعت کی نمایندگی کررہے ہوں کیونکہ زیادہ تر کی وفاداریاں تو پارٹیوں کے درمیان بدلتی رہی ہیں لیکن عوام کو کچھ نہ ملا جس کا وہ اب برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور اس عوامی شعور کے لیے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا اور ان کو بیدارکیا اور اس کا سارا کریڈٹ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو جاتا ہے۔

جنہوں نے نہ جانے کس ترنگ میں آکر پرائیوٹ نیوز چینلز کے اجراء کی اجازت دی اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتاتے بھی ہوں کہ ان کے مشیروں نے کس طرح ان کو مروا دیا کیونکہ یہ وہی میڈیا ہے جس نے عدلیہ بحالی تحریک میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا اور پرویز مشرف کی حکومت کی غیر مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ اسی میڈیا نے عوام کے سامنے ان کے محبوب سیاستدانوں کو بے نقاب کیا اور ان کو شعور دیا اس کے بعد اب کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی مرضی کے مطابق عوام کو ووٹوں کے حصول کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتی اب ووٹ صرف اسی کو ملے گا جو کام کرے گا اور جو کام نہیں کرے گا اس کا بدلہ عوام ووٹ کی طاقت سے لیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ گھر جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں