افسرشاہی کو آزاد کرو

میں بھی کسی سرکاری بینک میں کام کرتا تھا


جاوید قاضی April 08, 2017
[email protected]

بات تو لمبی ہوگی، اس بات کو چھیڑنے سے پہلے ایک چھوٹا سا تذکرہ اپنا بھی کردوں۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اپنی تعریف کروں۔ میں بھی کسی سرکاری بینک میں کام کرتا تھا، بطور انجینئر، میرے ایک دستخط سے کروڑوں روپے کسی کو مل سکتے تھے، اگر میں یہ لکھ دوں کہ کارخانے لگانے والے اس قرض دار نے سائٹ پر اتنا کام کروادیا ہے، لہٰذا اسے قسط ادا کردی جائے اور اگر میری اس رپورٹ میں مبالغہ ہو تو مجھے اس کے عوض رشوت بھی مل سکتی تھی۔ ہم بڑی بڑی ریئل اسٹیٹ کی پراپرٹیز کو مارگیج کرتے تھے۔

اس کی قیمت کا تخمینہ لگانا میرا کام تھا۔ اس میں بھی پیسے بٹورے جاسکتے تھے۔ مگر یہ مجھ سے ہو نہ سکا۔ بڑے بڑوں کے کام رکنے لگے۔ بالآخر مجھے او ایس ڈی بنادیا گیا، اور میری باقی سروس بینک کی لائبریری میں ہی گزر گئی۔ کسی نے کہا نالائق افسر ہے، اس کو کچھ نہیں آتا جاتا، تو کسی نے مجھے پاگل قرار دیا۔ میرا کام اس نوعیت کا تھا کہ کچھ نہ بھی کروں تو بھی انکوائری ہوجاتی تھی۔ میری جب ایک بھی انکوائری نہ ہوئی تو کسی دوست افسر نے کہا ''اس کا کسی میمو پر دستخط ہو تو انکوائری بھی ہو''۔

صدر فضل الٰہی کو بھٹو نے صدر تو بنایا، مگر تھا اس کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں اور لوگوں نے ایک بات بتائی کہ ایک دن ایوان صدر کی دیوار پر چاکنگ ہوئی تھی۔ جِس کی تحریر یہ تھی ''صدر فضل الٰہی کو آزاد کرو''۔

دوسرے دن وہ تحریر مٹا دی گئی۔ پھر ایک دن اسی جگہ دوبارہ چاکنگ ہوئی تھی کہ ''صدر فضل الٰہی کو آزاد کرو'' پھر مٹائی، پھر چاکنگ، پھر مٹانا، یہ سلسلہ چلتا رہا، بالآخر بات وزیراعظم بھٹو تک پہنچی۔ ایک رات چپکے سے سرچ لائٹنگ اس دیوار کی طرف لگادی گئی کہ اس کو پکڑا جائے جو یہ چاکنگ کرتا ہے۔ رات کو ایک شخص آتا ہوا پایا گیا، جب اس نے پوری تحریر مکمل کرلی کہ ''صدر فضل الٰہی کو آزاد کردو'' تو سرچ لائٹ اس کی طرف کھول دی گئی۔ حیرانی تب ہوئی کہ وہ شخص کوئی اور نہیں خود صدر پاکستان فضل الٰہی تھے۔

تارڑ ہوں یا فضل الٰہی، یہ سارے ہمارے جیسے او ایس ڈی صدر ہیں۔ اس لفظ کے لغوی معنی میں نہیں جاتے، بس یوں کہئے کہ سب ایڈہاک پر تھے۔

ہمارے اے ڈی خواجہ، ایڈوکیٹ جنرل کہتے ہیں OPS آئی جی تھے، اب یہ کیوں OPS آئی جی تھے، اس بات کا ذکر آگے ہوگا۔ ایک زمانہ تھا بہت سارے سپریم کورٹ کے ججز ایڈہاک پر تھے اور ہائی کورٹس کے ججز کا بھی یہی ماجرا تھا۔ عدلیہ نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی۔ جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان بے نظیر سے اس بات پر ٹکرا گئے۔ آمریتوں کا کیا کہنا ہے، وہ اپنا لیگل فریم آرڈر لے کر آتے تھے۔

یوں کہئے OSD ہو یا OPS یا LFO ہو، اس کے پیچھے جو محرکات تھے، وہ یہ تھے کہ ہمارا حکم ماننا ہے اور نہ ماننے کی سزا OSD، تبادلہ یا نوکری گنوانا ہوگی۔ بیچارے OPS آئی جی، اے ڈی خواجہ کچھ زیادہ کارکردگی دکھانے لگے، جنرل راحیل کے زمانے سے۔ زرداری دبئی چلے گئے بمع شرجیل اور ٹپی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مذہبی دہشتگردی کی بنیادیں نہ ہل سکیں، مگر باقی ماندہ دہشت گردی، ڈاکا زنی، چوری، لوٹ مار و فائرنگ اور بوری میں بند لاشیں ملنا بند ہوئیں۔

بھلے ہی سندھ میں یرقان پھیلا ہوا ہو، بھلے ہی غذائی قلت سے لوگوں کے خدوخال بگڑ رہے ہوں، بھوک سے نڈھال بچے مر رہے ہوں، صحت بخش پانی نہ ملنے کی وجہ سے اسپتال بھرے ہوئے ہوں، ٹائیفائڈ لاحق ہو، لیکن ایک کام اچھا ہوا اور وہ تھی سندھ میں بہتر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال۔ اب کیسے کہئے کہ اس کا سہرا بھی پیپلز پارٹی کو جاتا ہے، یا جو گورنر زبیر کہتے ہیں کہ کراچی میں امن کا کریڈٹ نوازشریف کو جاتا ہے۔ اگر ایسے دوچار گورنر اور میاں نوازشریف کو مل گئے تو دو چار سندھ اور فتح ہوجائیں گے، مگر ہواؤں میں۔ بھلا ہو سپریم کورٹ آف پاکستان کا، جس نے OPS افسر بھرتی کرنا بند کردیے، جو مدعا ہے، تین سال کا ہو یا پانچ سال کا، اور جس گریڈ کی وہ اسامی ہے اس پر افسر کا پورا اترنا لازمی ہے اور مدت پوری کرنا بھی لازمی ہے۔

ایسے ہوتی ہے افسر شاہی آزاد، اس طرح ادارے بنتے ہیں۔ یعنی اگر غور سے دیکھا جائے تو ادارے کون برباد کرتا ہے؟ وہ جو جمہوریت کے دعویدار ہیں اور ادارے کسی کی وجہ بن رہے ہیں، اس میں سپریم کورٹ کی ججمنٹس اور مان لیجئے کہ جو حق ہے وہ دیں، چاہے کتنے بھی آپ مداخلت کے مخالف ہوں، اس میںکریڈٹ جاتا ہے جنرل راحیل کو اور پاکستان کی آرمڈ فورسز کو۔ وہ اس لیے نہیں کہ انھوں نے چاہا تھا یا جس طرح کسی زمانے میں جنرل ضیاء الحق نے چاہا تھا یا جس طرح جنرل پرویز مشرف نے، وہ اس لیے ہوا کہ فوج نے اپنی پروفیشنل سوچ کو اجاگر کیا۔

تمام اداروں کو اپنی حدوں میں رہنا ہے، تو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو بھی۔ نہ نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ والا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنا چاہیے اور نہ ہی کسی جنرل کو جنرل ضیاء الحق یا پرویز مشرف بننے کا خواب دیکھنا چاہیے، نہ اب چوہدری افتخار صاحب والاجوڈیشل ایکٹوزم ضروری ہے۔ یہ جمہوریت کے لبادے میں جو بیٹھے ہیں، بالخصوص حکومت سندھ، جاگیرداری سوچ رکھنے والے یہ شرفا، جن کے لاشعور میں یہ بھرا ہوا ہے کہ اداروں کو تباہ کرنا ہے۔ افسر شاہی کے چمچوں کا کلب بنادینا ہے۔

میں جب سرکاری بینک میں کام کرتا تھا وہاں ترقی یا پوسٹنگ پانے کا ایک ہی طریقہ تھا، یا تو بڑے صاحبوں کے گھر جاؤ، ان کی جی حضوری کرو یا پھر ان بڑے صاحبوں کو حکومت میں بیٹھے سیاست دانوں اور وزیروں سے فون کرواؤ۔ ہماری زندگی بھی گزر ہی گئی۔ کیا خوبصوت بینک کی لائبریری تھی، علم کا خزینہ تھا، جیسے میرا گھنٹوں وقت ادھر ہی گزرتا تھا۔ ہم اپنی کیمسڑی میں خوش رہے اور وہ پیسے بٹورتے رہے۔ نجانے کتنے افسر ہوں گے جن کی کہانیاں میری جیسی ہوں گی۔

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

جو عشق کو کام سمجھتے تھے

یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا

کام عشق کے آڑے آجاتا

اور عشق سے کام الجھتا رہا

پھر آخر تنگ آکر ہم نے

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

(فیض)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔