چیریٹی…صحیح مقام
یقین اور بے یقینی کی کیفیت انسان کو ادھ مرا کردیتی ہے
یقین اور بے یقینی کی کیفیت انسان کو ادھ مرا کردیتی ہے۔ انسان ارادے کرتا ہے اور توڑ دیتا ہے، بھاگنا چاہتا ہے مگر چند قدم کے بعد تھک کر بیٹھ جاتا ہے، تیز ہواؤں میں بھی سانس کم آنے کی شکایت کرتا ہے، چاہتا ہے کہ آسمانوں سے ایسی بارشیں ہوجائیں کہ سب کچھ سمندر ہوجائے، مگر انسان پھر انسان ہے۔ اس کی چاہتیں آسمانوں سے ہی اترتی ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ زمین کا باسی ہے مگر اس کو اتارا آسمانوں سے گیا ہے، اور ایک دن تھک ہار کر وہ واپس آسمانوں کی طرف ہی روانہ ہوجائے گا، مگر دیکھیے اس آنے جانے کے سفر میں صدیوں کا سفر ہے۔ نہ خاک کو چین آیا نہ آسمان سکڑا۔ برساتیں برستی رہتی ہیں اور زندگیاں ڈوبتی ابھرتی رہتی ہیں اور اسی طرح تا قیامت تک کا سفر جاری و ساری رہے گا، بہت سے راہ گزر، بہت سے رہنما اور بہت سے قلندر،کروڑوں اربوں کی تعداد میں مخلوق اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔
ایک مضبوط نظام، ایک سسٹم کسی چیزکو حد سے بڑھنے نہیں دیتا۔ صبح کی روشنی، رات کا اندھیرا، سورج، چاند،آسمانی کتابیں، نبیوں کی آمد، رب کے پیغامات، ولیوں کا راج، قلندروں کی درویشی، محبتوں کا سمندر، نعمتوں کی بھرمار، برکتوں کا نزول اور بے حساب بے شماراللہ کے احسانات کہ سورہ رحمن گواہی دیتی ہے کہ ''بس اے انس و جاں تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔''جو اللہ پاک نے اپنے نمایندے بھیجے اس دنیا میں انھیں نبی، رسول بنا کر بھیجا، کتابیں اتاری گئیں، علم پھیلایا گیا، بے انتہا سادہ زندگی، بے انتہا انصاف کے زمانے، حقوق کی ادائیگی، صاف اور سچی سچی باتیں، نہ فریب کاریاں نہ ان کا فروغ۔
سادہ مساجد، سادہ قبرستان، پکے عقیدے، آج کی زندگی اور آج کی عبادتیں، پھر نجانے کیسے آہستہ آہستہ سب ہی کچھ بدلنے لگا، آسمانوں سے اتری ہوئی محبتیں، آسمانوں سے اتری برکتیں، کیوں ہمیں کم لگنے لگیں، ہمارے عقیدے کیوں کمزور ہونے لگے، نمود و نمائش حد سے تجاوز کیوں کرنے لگی، رجب کا ماہ مبارک ہے اور رمضان شریف کی آمد۔ رجب، شعبان، رمضان تینوں مبارک مہینے، بے حساب بے لوث عبادتیں، بے شمار دعائیں، بے حساب حقوق العباد کی ادائیگیاں اور نجانے کتنے اجر و ثواب ۔ مگر ہم کھوئے ہوئے ہیں نمود ونمائش میں ایسی نمودونمائش جو ہم سے ہمارے گھروں سے، تعلیمی اداروں سے، مساجد تک پہنچ چکی ہے۔
علم کے مراکز ہمیشہ سادہ ہوتے ہیں معیار بلند ہوتے ہیں مگر دکھاؤے سے پاک ہوتے ہیں، مساجد اللہ کا گھر جس میں نمودونمائش کی کوئی ضرورت ہی نہیں کہ دکھی دل کے گناہوں کے بوجھ تلے اللہ کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں، صفائی نصف ایمان ہے، دکھاوا نصف ایمان نہیں، مگر لگتا کچھ ایسے ہی ہے جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اپنی روایات کو اپنے اعمال کو کھوتے جا رہے ہیں اپنے آپ کو بہت بڑا Planner اور عالم و فاضل سمجھنے والے لوگ آہستہ آہستہ خالی ہاتھ ہوتے جا رہے ہیں۔ کیوں سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ یہ ہمارے راستے نہیں، یہ ہماری منزلیں نہیں، بہت ساری این جی اوز بھی مختلف پروگرام کے تحت عام لوگوں کے لیے مختلف سیمینار اور کانفرنسز کا انعقاد کرتی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ان کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں مگر شرکت تو عام لوگ ہی کرتے ہیں۔ وہ اپنا پیغام آپ کو، ہمیں دے رہے ہیں ہوتے ہیں اس میں سے بھلائی ڈھونڈنا ہمارا کام ہے۔
اسی طرح گل مینا کی individual land نے بھی IBA میں مختلف موضوعات پر لگاتار پڑھے لکھے لوگوں کے لیے کانفرنس اور سیمینار کا انعقاد کیا- اس میں میڈیا، کالمسٹ، بلاگرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منتخب لوگ شامل ہوئے۔ اگرچہ ہم لوگ، زکوٰۃ، خیرات، صدقات کے نام پر بے حساب خرچ کرتے ہیں، اس غرض سے کہ اس کا استعمال کیا ہوگا۔ آیا جو کچھ ہم دے رہے ہیں صحیح جگہ جا بھی رہا ہے یا نہیں اور اس بے حساب چیریٹی کا کیا کچھ استعمال نظر آرہا ہے یا نہیں۔ موضوع یقینا وزن دار ہے اور اگر اس کا جائزہ بھی لیں تو ہم اس چیریٹی کی وجہ سے جوکہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی یا جا رہی ہے بہت نقصان بھی اٹھا رہے ہیں۔
عطیات 100 روپے ہوں یا 100 لاکھ ۔ صحیح حقدار تک پہنچنا ہی صحیح روح ہے، مگر اس چیریٹی کو حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے کھیل تماشے سجائے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ دینے والے لوگ درد دل رکھتے ہیں، ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو نمائش کی خاطر خیرات کرتے ہیں، دونوں ہی جب عطیات دیتے ہیں تو ضروری ہے لازم ہے کہ وہ اس کا فالواپ بھی کریں۔ یقین جانیے جتنی چیریٹی ہمارے یہاں آتی ہے خرچ ہوتی ہے اگر یہ صحیح جگہ خرچ ہوجائے تو لوگوں کو بہت سہارا ملے، مدرسوں اور اسکولوں کا ایک ہی سلیبس ہو، قرآن پاک مدرسوں میں بھی پڑھایا جائے اور اسکولوں میں بھی۔ یہ جو فضول سی تفریق ہم نے کرلی ہیں نا اس سے ہمیں بہت نقصان ہو رہا ہے۔
مساجد کو بے تحاشا عالیشان بنایا جاتا ہے اور اسی عالی شان مسجدوں کے باہر قطار لگا کر بھوکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نہ تن پر کپڑے نہ پاؤں میں جوتی، گندے میلے بدبو دار یہ لوگ مختلف شاندار مسجدوں کے باہر قطاریں لگاتے ہیں تاکہ ان کو کھانا مل جائے تاکہ ان کو راشن مل جائے۔ ذرا سوچیے تو یہی مساجد اگر سادہ ہوجائیں اور اپنے پاس آئے ہوئے عطیات سے ان بے سہارا لوگوں کے لیے شیلٹر بنائیں، ماہانہ راشن کی فراوانی ہو، علاج و معالجہ کا انتظام ہو، تو کیا اچھا ہو۔ یقینا بہت سے ادارے یہ سب کر بھی رہے ہیں مگر بہت ساروں کو اور کرنا چاہیے۔
سادہ لباس، سادہ رہائش، نبیوں کا، صحابہ کرام کا، خلفائے راشدین کا طریقہ ہے۔ پھر ہمارا کیوں نہیں؟ لاکھوں روپے سجاوٹوں پر خرچ کرکے کیا ہم دکھاوا نہیں کر رہے؟ جب کہان لاکھوں سے ہم انسانیت کی خدمت کرسکتے ہیں، مسجدوں میں ایئرکنڈیشنڈ کا انتظام، بہترین اعلیٰ ٹائلز، بہترین اعلیٰ سنگ مر مر، بہترین قالین، کیا ہماری عبادتوں میں اثر پیدا کرسکتے ہیں۔ کیا ہمارے اعمال کو وزن دار بناسکتے ہیں، جب کہحکم ربی تو سادہ اور آسان زندگی ہے، پھر الٹا راستہ کیوں؟
مدرسوں کو زکوٰۃ دی جاتی ہے تو اسکولوں کو کیوں نہیں، مدرسوں میں قرآن اور دینی تعلیم دی جاتی ہے تو اسکولوں اور کالجوں میں کیوں نہیں؟ کیا نماز مدرسوں کے بچوں پر فرض ہے باقی پر نہیں؟ کیا قرآن حافظ صرف مدرسے کا بچہ ہی بن سکتا ہے، اسکولوں میں اس کا انتظام کیوں نہیں؟ نظام تعلیم کو یکساں معیار پر لانا ہی ہم سب کی بہترین ذمے داری ہے۔ حکومت وقت تمام نمود و نمائش کو ختم کرنے کی ذمے دار ہے۔ خاص طور پر جہاں ہمارا دین اور اللہ پاک کے احکامات ہیں تو ان کو ان کی روح کے ساتھ نافذ کرنا ہی بہترین عمل ہے۔
چیریٹی کیجیے مگر دیکھئے کہ آپ کی حلال رقم اللہ کے بندوں کی بھلائی پر ہی خرچ ہو۔ یقین جانیے اگر ایک مرتبہ بھی سادگی اور انصاف کے ساتھ ایک نظام بن گیا تو اس ملک اور اس کی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ہر فرد خود سمجھے اور بحیثیت ایک انسان اپنے اعمال کا جائزہ لے۔ پھر ہم جب اس سمجھ بوجھ کے ساتھ اکٹھے ہوں گے تو خوابوں کی تعبیر روشن ہی ہوگی۔