پہلے حرف انکار اور اب اقتدار گرفتار
عوام اس قدر تنگ ہیں کہ لیڈروں کو دیکھ کربےقابو ہوجاتے ہیں۔ اللہ ہمیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائے۔
جب سے عدالت عظمیٰ کی سربراہی کے منصب پر مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری سریر آراء ہوئے ہیں تب سے میں یوں بہت مطمئن ہوں کہ عدل و انصاف کی اس اعلیٰ ترین مثال کے بعد اب بے انصافی نہیں ہوگی اور اس کے اثرات نیچے تک بھی پہنچیں گے۔ میں نے جسٹس چوہدری کو نہ پہلے کبھی دیکھا تھا نہ اب۔ ان کا اسم گرامی بھی اب سنا اور وہ بھی ایک عجیب و غریب ناقابل یقین واقعے کے بعد جو ان کے ساتھ فوجی جرنیلوں کے حضور میں پیش آیا۔ اب ذرا اس منظر کو ملاحظہ کیجیے جس کا نقشہ رفتہ رفتہ سامنے آتا رہا۔
یہ جمعہ کا دن تھا اور نام نہاد فوجی صدر پرویز مشرف کی کچہری تھی اس میں تین چار دوسرے حاضر نوکری جرنیل بھی موجود تھے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے اس گھر کے ڈرائنگ روم میں فوجی جرنیلوں کے سامنے ایک اکیلا سویلین بیٹھا تھا جس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ تن تنہا اور بے سہارا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جس گاڑی میں آیا تھا اس کا ڈرائیور بھی رخصت کر دیا گیا تھا۔ یہ اکیلا شخص ان جرنیلوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اس کا بس ایک ہی سہارا تھا اور وہ خدا کی ذات تھی جو ہر مسلمان کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس سے مطالبہ یہ تھا کہ وہ اپنے ججی کے منصب سے استعفی دے دے۔
اس آزمائش اور بے حد نازک وقت پر قدرت نے اس کا ساتھ دیا اللہ کی ذات اس کا سہارا بن گئی اور اس نے اس شاہی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اسے بے حد ڈرایا دھمکایا گیا، بے عزتی کی گئی اس دوران نماز جمعہ کے لیے جاتے ہوئے جنرل نے پیچھے رہ جانے والے ایک ساتھی سے کہا کہ اس (بڑی سی گالی دے کر) کو سمجھاؤ۔ مگر اس سویلین سرکاری ملازم نے سمجھنے سے انکار کر دیا۔ مجھ سے ایک صاحب دل نے ایک بار کہا کہ جب کبھی ملاقات ہو تو پوچھنا کہ تب ان کے دل کی کیفیت کیا تھی اور اس لمحے انھیں یہ طاقت کہاں سے ودیعت ہوئی۔ ممکن تو تھا لیکن ان کے بے پایاں احترام میں میری کبھی یہ ہمت نہ پڑی کہ ان سے ملاقات کر سکوں۔
میں جب ان کے جرنیلوں کے سامنے انکار کے اس لمحے کا تصور کرتا ہوں تو معلوم نہیں کہاں گم ہو جاتا ہوں اس کی سرشاری اتنا وقت گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوئی۔ جرنیلوں کے بعد سویلین حکمرانوں نے بھی اس ''گستاخ'' کو نشانہ بنا لیا لیکن جلسے ہوئے جلوس نکلے وکلاء نے جدوجہد کی تاریخ بنا ڈالی۔ بالآخر ملک کی بعض موثر قوتوں نے دخل دے کر یہ مسئلہ ایک حد تک حل کرایا لیکن اس شخص کے عدالت میں بیٹھ جانے کے باوجود دولت مندوں کے ذریعے اس کے خاندان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے لیکن عدل و انصاف اور جرات و جسارت پر مبنی عدالتی فیصلے بھی صادر ہو رہے ہیں۔
ان کے تازہ فیصلے نے تو حکمرانوں کی دنیا ہی بدل دی ہے۔ یہ محض اور یقیناً اتفاق ہے کہ قادری صاحب کی تقریر کے دوران یہ فیصلہ آیا اور قادری صاحب نے اسے اپنا کارنامہ قرار دے کر خوب شور مچایا انھیں خدا نے ایک موقع دیا تو اس سے خوب فائدہ بھی اٹھایا گیا وہ آپے سے باہر ہو گئے اور اپنی آدھی کامیابی کا اعلان کر دیا ۔ اب سنا ہے کہ باقی کے مطالبے پر حکومت اڑ گئی ہے بلکہ وہ تو تمام مطالبات پر اڑی ہوئی تھی آدھا مطالبہ تو عدلیہ کے فیصلے سے اتفاقاً منظور ہو گیا۔ اب باقی آدھے کا سوال ہے گویا شبنم شکیل کے بقول ع
آدھی مان گئی ہوں اس کی آدھی بات پہ اڑی ہوئی ہوں
اور یہ آدھی بات کے ماننے نہ ماننے سے بہت پہلے میں سطریں لکھ رہا ہوں لیکن اس وقت سیاسی دنیا میں قادری صاحب کے بارے میں جو فضا بن چکی ہے وہ حکومت کو حوصلہ دلا رہی ہے۔ الیکشن سر پر ہیں اور یہ الیکشن بدقسمتی سے ایک روٹین کے الیکشن نہیں پاکستان کی سلامتی اور ایک مطمئن زندگی کے لیے ہیں کیونکہ اگر موجودہ حکومت چلتی رہتی ہے تو پھر ملک نہیںچلتا جس کا ایک وزیر اعظم قوم کے سامنے کرپشن اور بدعنوانی کے ارتکاب میں برطرف ہو چکا ہے جب کہ دوسرے کی گرفتاری کا حکم دیا جا چکا ہے اس حکومت کو تو خود ہی رضا کارانہ طور پر برطرف ہو جانا چاہیے۔
لیکن حیرت ہے کہ حکمران اور ان کے ہمنوا ماہرین کہہ رہے ہیں کہ وہ تو اب تک وزیراعظم ہیں یعنی انھیں ہتھکڑی لگے گی حوالات جائیں گے مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ ہوں گے تو پھر پارٹی کو یقین آئے گا کہ ان کا لیڈر پکڑا گیا ہے مگر جو خود پکڑے جانے کے لائق ہیں وہ کیسے تسلیم کریں کہ ایک علی بابا پکڑا گیا ہے اور اس کے چالیس چور خطرے میں ہیں۔ بہر کیف یہ سب ہم پاکستانیوں کے لیے شرم کی بات ہے پہلے ہی دنیا بھر میں ہم بدنام ہو چکے ہیں اب وزیراعظم کی کرپشن کی خبر دنیا بھر میں نشر ہو کر ہماری بدنامی کو بین الاقوامی بنا چکی ہے چار چاند لگا چکی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ نوبت کہاں تک پہنچ گئی ہے عوام اس قدر تنگ ہیں کہ لیڈروں کو دیکھ کر وہ بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اللہ خیر کرے اور ہمیں اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچا لے۔