جمہوریت کے دعویداروں کی جمہوریت دشمنی

سندھ میں جان بوجھ کر متنازعہ بلدیاتی نظام منظور کرایا گیا اور الیکشن کرانے سے صاف انکار کر دیا گیا۔

جمہوریت کے دعویداروں کی جمہوری حکومتوں نے اپنے اقتدار کے 4 سال 10 ماہ مکمل کر لیے ہیں اور آیندہ دو ماہ بعد موجودہ اسمبلیاں ختم کر کے نگراں حکومتوں کے قیام کی تیاریاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ صوبہ بلوچستان کی نام نہاد حکومت دو ماہ قبل ہی اپنی نا اہلیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اور ملکی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے پہلی بار اپنے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو ان کی غیر موجودگی میں برطرف کر کے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کر دیا ہے۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے بھی سندھ میں اپنے مسلم لیگی وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کو برطرف کر کے سندھ میں گورنر راج نافذ کیا تھا۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی اداروں کو قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف جمہوریت کی نرسری سمجھے جاتے ہیں بلکہ یہ جمہوریت کا گراس روٹ لیول بھی کہلاتے ہیں۔ دنیا کے جمہوری ملکوں میں ہی نہیں بلکہ غیر جمہوری ملکوں میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کے بلدیاتی ادارے با اختیار ہوتے ہیں اور محکمہ پولیس بھی وہاں بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی سربراہی میں اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ ان با اختیار بلدیاتی اداروں اور ان کی حکومتوں میں اختیارات کی تقسیم اتنی واضح ہوتی ہے کہ کبھی ان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوتا، اختیارات کے باعث کبھی کوئی بلدیاتی ادارہ وہاں کی صوبائی حکومت کبھی برطرف نہیں کرتی اور ہر ادارہ اپنی حد میں رہ کر کام کرتا ہے ۔

موجودہ حکومتوں کے اقتدار میں آنے سے قبل چاروں صوبوں میں با اختیار ضلعی حکومتیں قائم تھیں اور چاروں صوبائی حکومتوں نے جیسے ہی اختیارات سنبھالے انھیں ضلعی حکومتیں اپنی دشمن لگنے لگیں اور صوبائی وزراء نے اپنی صوبائی حکومتوں کے ذریعے ضلعی حکومتیں ختم کرانے کی کوششیں شروع کر دیں اور روزانہ ضلعی حکومتوں کے ناظمین کے خلاف بیان بازی شروع کر دی اور ناظمین پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کر کے بعض ضلعی حکومتوں کے خلاف تحقیقات کرائی۔ کئی ناظمین مختلف الزامات میں معطل کر کے وہاں سرکاری افسر یا اپنے پسندیدہ افراد ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے مگر کسی ناظم پر کرپشن ثابت ہوئی نہ کسی کو سزا ہوئی۔

ضلعی حکومتیں جمہوریت کے دعویداروں کے عتاب کا پہلا نشانہ بنیں حالانکہ ضلعی حکومتوں کے ناظمین اور کونسلرز بھی جمہوری طور پر انتخابات میں منتخب ہوئے تھے اور ان میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ناظمین شامل تھے جو اپنے ارکان اسمبلی کی غیر قانونی مداخلت اپنے بلدیاتی اداروں میں برداشت نہیں کرتے تھے۔ ارکان اسمبلی ویسے بھی بلدیاتی اداروں کے کاموں میں مداخلت کے حق دار نہیں ہوتے۔ ان کا کام اپنی اسمبلیوں میں قانون سازی ہوتا ہے اور وہ عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے منتخب نہیں ہوتے مگر ہمارے ارکان اسمبلی شروع سے ہی بلدیاتی اداروں کو اپنا ماتحت سمجھتے آئے ہیں اور وہاں غیر قانونی مداخلت اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔


جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام کے پہلے چار سال میں تقریباً تین سال تک ضلعی حکومتوں نے کھل کر کام کیا مگر 2002ء کے عام انتخابات کے بعد ارکان اسمبلی نے انھیں پریشان کرنا شروع کر دیا مگر کامیاب نہیں ہوئے اور انھوں نے جنرل پرویز مشرف پر دباؤ ڈال کر ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرا دیے اور اپنے ختم کیے گئے سالانہ فنڈ بحال کرا لیے حالانکہ جنرل پرویز مشرف کا ارکان اسمبلی کے فنڈ ختم کرنے کا فیصلہ بہت اچھا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کو آئینی تحفظ بھی دے رکھا تھا، یہ آئینی تحفظ جیسے ہی ختم ہوا چاروں صوبوں نے ضلعی حکومتوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔

ان کے فنڈز میں کٹوتی شروع کر دی، وفاقی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو تنخواہوں کی مد میں ملنے فنڈ میں بھی کٹوتی کی جب کہ اس مد میں پہلے ہی فنڈ کم مل رہا تھا اور حکومت نے دو بار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا اور اضافی رقم بلدیاتی اداروں کو فراہم کرنے کے بجائے آکٹرائے ضلع ٹیکس میں کٹوتی بھی بند نہیں کی جس کے نتیجے میں یہ حالت ہو گئی ہے کہ دور آمریت میں تنخواہیں حاصل کرنے والے بلدیاتی ملازمین کو کئی کئی ماہ گزر جانے کے باوجود تنخواہ نہیں مل رہی اور وہ احتجاج کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مالی صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے جہاں کراچی سمیت صوبے بھر میں بلدیاتی ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور پنشنرز سات آٹھ ماہ سے اپنی پنشن سے محروم ہیں اور وہ بھی بھوک سے تنگ آ کر بڑھاپے میں سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ہر بلدیاتی ادارہ مالی بحران میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ لاکھوں روپے رشوت دے کر اہم عہدے لینے والے بلدیاتی افسروں نے اپنی رقم وصول کرنے کے لیے لوٹ مچا رکھی ہے۔ تعمیر و ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں، ترقیاتی کاموں کا بجٹ برائے نام تھا جہاں کمیشن زیادہ ملا وہاں من پسند ٹھیکیداروں کو ادائیگی کرا دی گئی۔

چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے دور میں آئین کی کھلی خلاف ورزی کی، چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس پر ملک میں بلدیاتی الیکشن کرائے گئے نہ صوبوں نے اپنے بلدیاتی نظام منظور کرائے۔ سندھ حکومت نے تو آئین شکنی اور عدالتی حکم نہ ماننے کی حد کر دی اور بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ سندھ میں جان بوجھ کر متنازعہ بلدیاتی نظام منظور کرایا گیا اور الیکشن کرانے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ فوجی جنرلوں کی آمریت میں اپنے عملے کو تنخواہیں اور ریکارڈ ترقیاتی کام کرانے والے نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں کی جمہوریت میں بلدیاتی ادارے شدید مالی بحران میں مبتلا ہیں جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اپنے دور میں عوام کو بلدیاتی انتخابات سے محروم رکھا اور ان اداروں کے فنڈز ضایع کرا دیے۔ عوام کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم کر رکھا ہے اور یہی کچھ جمہوریت پسندوں نے کیا اور اپنی جمہوریت دشمنی کا ثبوت دے دیا ہے۔
Load Next Story