جی ایم سید ‘ایک سچے سیاستدان

جی ایم سید مذہب، تاریخ ، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، تہذیب، فلسفہ، تمدن کے مضامین سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

آج 17 جنوری ہے جو سندھ سے سچی محبت کرنے والوں کے لیے یہ بہت بڑا دن ہے، آج سندھ کے قوم پرست رہنما ، نوجوان، ادیب، دانشور، شاعر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سندھو دریا کے کنارے پر واقع سن شہر میں اپنی آخری آرام گاہ میں سوئے ہوئے ایک تاریخ ساز شخصیت، سندھ کے رہبر سائیں جی ایم سید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جا رہے ہیں جس نے برصغیر میں سندھ کو ایک نئے باب سے روشناس کرایا۔

غلام مرتضی شاہ سید نے، جنھیں سیاسی حلقوں میں جی ایم سید کے نام سے جانا جاتا ہے17 جنوری1904 ء کو ضلع دادو کے شہر سن میں جنم لیا۔ 1915ء میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ انگریزی اور فارسی پڑھنے گئے تو سید نے دنیا کو ایک نئے روپ میں دیکھا۔

سلطنت عثمانیہ کے بعد جب خلافت تحریک زوروں پر تھی پیر تراب علی شاہ اور جان محمد جونیجو نے 7 فروری 1920ء میں لاڑکانہ میں خلافت کانفرنس کی بنیاد ڈالی اس میں جی ایم سید نے 14 سال کی عمر میں شرکت کی۔ 27 اپریل 1921ء میں انھوں نے گاندھی کا سن ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا، جی ایم سید کو گاندھی نے کھدر کا لباس پہنے کے لیے کہا جس پر انھوں نے کھدر کا لباس اپنا لیا۔ سید نے 1924ء تک خلافت تحریک میں حصہ لیا تاآنکہ ہندو مسلم اختلاف کے سبب تحریک کا جوش اور ولولہ ختم ہوگیا۔

1925ء میں جی ایم سید نے تحصیل بورڈ کوٹری کے صدر اور ضلع کونسل کراچی کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد سیاست کو سماجی تبدیلی کا ذریعہ سمجھ کر عوام کی فلاح و بہبود کی کوششیں شروع کیں۔1928ء میں وہ ضلع لوکل بورڈ کراچی کے صدر منتخب ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی جب انگریزوں نے سائمن کمیشن کا انعقاد کیا تو کانگریس اور مسلم لیگ نے اس میں من پسند افراد کے شامل ہونے پر اس کا بائیکاٹ کیا اور جی ایم سید نے کانفرنس بلا کر سندھ میں سیاہ جھنڈوں سے اس کا بائیکاٹ کیا۔

1928ء میں ممبئی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی تو اس میں جی ایم سید نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1935ء کے ایکٹ کے تحت جب سندھ کی خود مختاری زیربحث تھی تو سید کے ذہن میں نئے سندھ کا تصور ابھرا اور اس جدوجہد کو سید نے اپنی کتاب ''نئے سندھ کے لیے جدوجہد'' میں رقم کیا ہے۔

1930ء میں انھوں نے سندھ ہاری کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور اس کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔ 1936ء میں سندھ اسمبلی کے الیکشن میں سندھ اتحاد پارٹی نے بھرپور حصہ لیا اور 60 میں سے22 نشستیں حاصل کر کے سندھ اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت حاصل کی اور جی ایم سید اس طرح رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔

قائد اعظم نے جی ایم سید کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی تھی جو انھوں نے کراچی میں عبداللہ ہارون کے گھر پر قبول کی۔ سندھ میں جہاں مسلم لیگ نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے جی ایم سید کا سہارا لیا وہاں اس کو روشناس کرنے میں جی ایم سید نے جو کردار ادا کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

جی ایم سید کی مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد ایک خطرناک واقعے نے سندھ کو فرقہ پرستی کی آگ کی لپیٹ میں لے لیا اور اس سے سندھ دھرتی کے وارث ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے۔ ''منزل گاہ مسجد'' پر ہندوؤں نے سخت اعتراض کیا اور اس وقت کے وزیراعظم شہید اللہ بخش سومرو اس مسئلے کو سلجھا نہ سکے اور جی ایم سید کی سربراہی میں مسلمانوں نے مسجد پر قبضہ کر لیا اس طرح جی ایم سید19 نومبر 1939ء کو گرفتار کر لیے گئے۔


1941 ء کو جی ایم سید آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی کونسل کے ممبر بنے۔1943 ء میں ان کو مسلم لیگ سندھ کا صدر منتخب کیا گیا۔ سندھ کو یہ شرف حاصل ہے کہ سائیں جی ایم سید کی سربراہی میں3 مارچ1943ء کو 1940 ء کی لاہور قرارداد کی روشنی میں سندھ اسمبلی سے برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے طور پر قرارداد پاس کرائی گئی۔ یہ سید کا بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ پہلی اسمبلی تھی متحدہ ہندوستان میں جہاں قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے نتیجے میں صرف 4 سال کے مختصر عرصے میں مسلمان اپنی علیحدہ ریاست بنانے میں کامیاب ہوئے۔

1940ء میں لاہور میں قرارداد پاکستان کی بھی جی ایم سید نے بھرپور حمایت کی۔ اختلاف رائے کے لیے مشہور یہ لیڈر 1946ء میں مسلم لیگ سے کنارہ کش ہو گیا، اور ایک نئی پارٹی ''پروگریسیو مسلم لیگ'' کی بنیاد ڈالی۔ پھر ''سندھ عوامی محاذ'' کے نام سے ایک جماعت بھی بنائی۔ سندھ عوامی محاذ نے1953ء کے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا اور سندھ سے واضح نشستیں حاصل کیں اور سید سندھ اسمبلی کے اندر پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بن گئے۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت جب خون ریزی کے دریا بہنے لگے، لاکھوں لوگ جب ہجرت کر کے پاکستان خصوصاََ سندھ (کراچی) آئے جی ایم سید نے دل کھول کر ان کی مدد کی۔ جی ایم سید نے ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان کے انتخابات میں حصہ لیا اور رکن منتخب ہوئے۔ سید نے اس تحریک کو بہت دوام بخشا۔ آخر مغربی پاکستان سے ون یونٹ کے خلاف قرارداد پاس ہوئی۔ 1955ء میں نیشنل عوامی پارٹی کو متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جی ایم سید اکتوبر1958ء سے1966ء تک نظربند رہے۔ انھی دنوں میں انھوں نے اپنی کتاب جیئیں ڈٹھو آئے موں (جیسا میں نے دیکھا) لکھی۔

1964ء کو جب ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی مقابلہ ہوا تو غلام مصطفی خان بھرگڑی نے سید سے تبادلہ خیال کیا اور سید نے فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سید سے ملاقات میں کہا کہ فاطمہ جناح آپ کے مخالف کی بہن ہے تو سید کو یہ بات بہت ناگوار گزری وہ اصول پرست سیاست دان تھے انھوں نے بھٹو کو جواب دیا کہ اس ایوب کی حمایت کروں جس نے قوموں کی تاریخی حیثیت ختم کر کے ون یونٹ کا انعقاد کیا۔

1967ء میں جیل سے رہائی کے بعد سید نے ادب، کلچر اور زبان کی ترقی کے ذریعے عوام میں انقلاب کی روح پھونکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بزم صوفیاء سندھ کی بنیاد ڈالی۔ 4 مارچ1967ء کو طلبہ نے ون یونٹ کے خلاف عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ ان کی اس جدوجہد کو دیکھتے ہوئے سرکار گھبرا گئی اور 23 جون1967ء کو سید کو گرفتار کر لیا گیا اور بزم صوفیاء سندھ پر پابندی لگا دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ آمد کے وقت جی ایم سید اور دوسرے اہم سیاستدانوں سے ملاقات کر کے ون یونٹ فرنٹ میں شمولیت اختیار کی لیکن قدرتی وسائل کی وزارت ملنے پر اینٹی ون یونٹ کے مخالف ہو کر ایوب خان کے ساتھ مل کر قوم پرستوں اور جمہوریت پرستوں کو کچلنے کی مہم چلائی۔ بھٹو کی تحریک جب ایوب خان کے خلاف شروع ہوئی تب شیخ مجیب الرحمن کی گرفتاری کے خلاف تحریک پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے اس موقعے پر جی ایم سید کو رہا نہ کیا کیونکہ وہ ان کی ہمت اور ولولے سے پہلے ہی بوکھلا گئے تھے۔

جب گول میز کانفرنس منعقد کی گئی تو اس وقت سید رہا نہیں ہوئے تھے۔ شیخ ایاز نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ عوامی سمندر دیکھ کر 26 فروری1969ء کو سید کی رہائی کا حکم جاری ہوا اور سید یکم مارچ1969ء کو رہا ہوئے۔ رہا ہونے کے بعد سید نے ون یونٹ تحریک کے گروہوں کو منظم کرنے کے لیے9 مارچ1969ء کو حیدرآباد میں ''سندھ متحدہ محاذ'' کو دوبارہ زندہ کیا۔ یحییٰ خان نے جب ون یونٹ کو توڑا تو جی ایم سید نے انتخابات کے سلسلے میں پنجاب کے سیاستدان میاں ممتاز محمد خان دولتانہ سے بھی معاہدہ کر لیا۔

شیخ مجیب الرحمن سے آمریت کی زیادتی کے بعد 16 دسمبر 1971 ء کو جب پاکستان کا ایک بازو جدا ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا تو پاکستان کی نمائشی سیاست سے جی ایم سید دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔

International Ammensty نے جی ایم سید کو اصولوں کا قیدی Prisoner of Conscience قرار دیا ہے۔ جی ایم سید مذہب، تاریخ ، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، تہذیب، فلسفہ، تمدن کے مضامین سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے تقریباََ 60 کتابیں لکھیں ۔ سید سیاسی، ادبی اور فکری کتابوں کے مصنف ہیں۔ انگریز ی، سندھی، عربی، فارسی اور اردو پر ان کو عبور حاصل تھا۔ سائیں جی ایم سید نے ہمیشہ عدم تشدد کی بات کی ان کے اسی عدم تشدد کے فلسفے اور کردار نے سندھ کے لوگوں میں ایک نئی سوچ پیدا کی کہ اپنے حقوق عدم تشدد کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ سائیں جی ایم سید نے سب سے زیادہ قید و بند کی تکالیف برداشت کیں اور ان کا انتقال بھی ایام اسیری میں 25 اپریل 1995ء میں ہوا۔
Load Next Story