عمران کا انضمام

عمران چومکھی لڑائی کے فائنل میں پہنچ کر ٹرافی تھامنا چاہتے ہیں تو انھیں یہاں بھی ایک انضمام کی ضرورت ہو گی۔

03332257239@hotmail.com

عمران خان کے سونامی کو طاہر القادری کی آمد نے گہنا دیا ہے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے۔ تحریک انصاف پاکستانی سیاست کے اس بھونچال کی مخالفت نہیں کر رہی۔ وہ قادری صاحب کے مطالبات کو درست مان رہے ہیں لیکن اس کے طریقہ کار سے اختلاف کر رہے ہیں۔ دوسری پارٹیوں نے الگ الگ پوزیشن لی ہوئی ہے۔ قادری فیکٹر پر نواز شریف اور زرداری کی ایک سخت لائن ہے تو الطاف حسین اور چوہدری شجاعت کندھے سے کندھا ملائے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ یوں ہاں اور ناں کے درمیان عمران کا موقف دیکھ کر لگتا ہے کہ انھیں ''انضمام'' کی ضرورت ہے۔

نواز شریف اور ان کے ساتھی لاہور کو اپنا سمجھنے لگے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایم کیو ایم کراچی کو اپنا سمجھا کرتی تھی۔ جب کوئی لیڈر عوامی سطح پر لاہوریوں کو بھانے لگتا ہے تو ''تخت لاہور'' کا طعنہ سہنے والے سمجھتے ہیں کہ کوئی ان سے ان کا حق چھین رہا ہے۔ جب عمران نے اس صدی کے گیارہویں برس کے دسویں مہینے میں مینار پاکستان پر جم غفیر کو اکٹھا کیا تو شریف برادران کے حامی ان پر تنقید کرنے لگے۔ یہی صورت حال طاہر القادری والے مسئلے پر ہے۔ اپنی باری کا انتظار اور پیپلز پارٹی کو پوری باری دینے کے وعدے کی وفا۔

جب وہ دیکھتے ہیں کہ اقتدار سے محرومی کے چودہ برسوں بعد موقع ملا ہے تو کوئی چودہ جنوری کو رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کہہ رہا ہے۔ اس کیفیت نے جہاں نواز لیگ کو نقصان پہنچایا وہاں ایک فائدہ بھی پہنچایا ہے۔ اس مخالفت نے انھیں سیاسی طور پر زندہ رکھا ہے۔ جہاں ایک طرف پنجاب میں حکومت کو طاہر القادری سے انتظامی طور پر نمٹنا ہے جسے چھوٹے میاں صاحب دیکھ رہے ہیں تو پیر 14 جنوری کے حوالے سے اپنے سابق ''پیر'' سے نمٹنے کا بوجھ بڑے میاں صاحب پر آ گیا ہے۔ یہی بوجھ انھیں شگفتہ انداز میں کہنے پر مجبور کر رہا ہے ''پلے نئیں دھیلہ' کردی میلہ میلہ''۔ کپتان ایسی بات نہیں کر رہے کہ تنہائی کے اس دور میں انھیں اپنی دریافت انضمام الحق کی ضرورت ہے۔

آصف زرداری اور ان کے ساتھی قادری فیکٹر سے اتنے فکرمند نہیں جتنے نواز شریف کے حامی ہیں۔ وہ جیالوں کے ووٹ بینک کے استحکام پر مطمئن ہیں۔ انتظامی طور پر پیپلزپارٹی کی حکومت ڈاکٹر قادری سے نمٹ رہی ہے لیکن ان پر کسی قسم کی انتخابی گھبراہٹ نہیں۔ یہ ایسی ہی کیفیت ہے کہ جب عمران نے کراچی میں جلسہ کیا تو ایم کیو ایم نے اس پر کوئی تنقید نہ کی۔ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمٰن کے کامیاب جلسے پر بھی متحدہ نے اعتراض نہ کیا۔ یوں طاہر القادری پر تنقید کرنے والوں اور تائید کرنے والوں کے مختلف رویے سامنے آتے ہیں۔

نواز شریف کے ساتھیوں کو اپنی صفوں میں اطمینان کی کیفیت پیدا کرنی چاہیے۔ کارکردگی اور عوامی اعتماد ہو تو بے چینی اور گھبراہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کے سیاستدانوں کی توپوں کا رخ طاہر القادری کی جانب ہے یا وہ ان کی حمایت کر رہی ہیں۔ صرف عمران خان ہیں جو تحریک منہاج القرآن کے مطالبے کی تائید جب کہ انتخابات کے ملتوی ہونے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسے میں عمران کو ورلڈ کپ کے انضمام الحق کی ضرورت ہے۔


ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد نے ملکی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے۔ انتخابات میں جو ٹرائی اینگل فائٹ سمجھی جا رہی تھی وہ چومکھی لڑائی میں بدل چکی ہے۔ دو بڑی پارٹیوں کی قادری مخالفت نے انھیں میڈیا میں زندہ رکھا ہے۔ دوسرا سبب وفاق اور پنجاب میں ان کی حکومتیں ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں سیاسی و انتظامی طور پر چوتھی قوت سے نمٹنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ یوں عمران خان اور ان کی پارٹی پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس سے قبل ٹی وی مباحثوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابل تحریک انصاف کو پیش کیا جاتا اور کالم لکھے جاتے۔ اب وہ کردار TMQ کی نئی نویلی ٹیم کو دیا جا رہا ہے۔ طاہر القادری کے حامی بڑی پارٹیوں پر حملے بھی کر رہے ہیں اور ان کے جملے بھی سہہ رہے ہیں۔ یوں عمران اور ان کی پارٹی سے عوام کی دلچسپی کا کم ہونا ایک تقاضا کرتا ہے، تقاضا نئی کمک کا۔ ایسی کمک جو انھیں سیاسی ٹورنامنٹ میں واپس لے آئے۔ اسی لیے اب اس اہم موڑ پر عمران کو ایک ''سیاسی انضمام'' کی ضرورت ہے۔

عمران کا انضمام اب آگے کی کہانی سمجھنے اور کالم کو مکمل پڑھنے کے لیے قارئین کی 92ء کے ورلڈ کپ سے دلچسپی لازمی ہے۔ اگر آپ نے براہ راست یا ٹی وی پر اس ٹورنامنٹ کی جھلکیاں دیکھی ہیں تو آپ اس کالم کو آخر تک پڑھیں۔ اگر آپ نے اخبارات میں ان خوشگوار لمحوں کا مطالعہ کیا ہے تب بھی آپ اگلے دو تین منٹ اس کالم کو دے سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو بہتر ہے کہ آپ اپنا یہ قیمتی وقت میرے دوسرے ساتھی کالم نگاروں کو دیں۔ نو(9) ٹیمیں تھیں اور ہر ایک کو آٹھ(8) میچ کھیلنے تھے۔ پاکستان کو ویسٹ انڈیز، بھارت و افریقہ نے ہرادیا تھا۔

انگلینڈ کے خلاف 72 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد بارش کے سبب مفت کا ایک پوائنٹ ملا تھا۔ اس دور میں سری لنکا کی کمزور ٹیم کو ہرا کر صرف تین پوائنٹ تھے۔ کئی شکستوں کے بعد پاکستان کو آخر کے تینوں میچز جیتنے تھے یوں نو(9) پوائنٹس ہوں تو سیمی فائنل میں پہنچنے کی امید تھی۔ پانچ میں سے صرف ایک میچ جیتنے والی ٹیم سے آخر کے تین کے تین میچ جیتنے کی توقع کرنا ایک معجزہ تھا۔ عمران کی ٹیم نے ایک ایک کر کے تمام میچز جیت کر چار بہترین ٹیموں میں اپنے آپ کو قرار دلوایا۔ اب سیمی فائنل میں مقابلہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ پاکستان کے کئی کھلاڑی آؤٹ ہوکر پویلین میں جا چکے تھے۔ مطلوبہ رنز بہت زیادہ تھے۔ ایسے میں انضمام الحق میدان میں آئے، اس لمحے کو ہم نے عمران کا انضمام قرار دیا ہے۔

انضمام الحق نے بہت کم گیندوں پر نصف سنچری بنا کر پاکستان کو فائنل کے لیے کوالیفائی کروایا۔ پھر انگلینڈ کو شکست دے کر عمران الیون ورلڈ کپ کی حقدار قرار پائی۔ آج دو عشروں سے زیادہ وقت گزرنے پر عمران نامی سیاستدان کو ایک کھلاڑی کی ضرورت ہے۔ انضمام الحق جیسے کھلاڑی کے آخری تین میچ جیتنا لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے جلسے کی طرح ہے۔ یوں ان کامیاب اجتماعات نے عمران کو سیاست کے سیمی فائنل میں پہنچا دیا ہے۔ آج بھی ان کی تحریک انصاف ملک کی چار بڑی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہے۔ چائے کے پہلے گھونٹ کو لبوں تک آنے میں کئی مراحل پیش ہیں۔ طاہر القادری کی آمد نے عمران کی ٹیم کو میڈیا سے آؤٹ کر دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نیوزی لینڈ کے بولرز نے پاکستانی بلے بازوں کو آؤٹ کردیا تھا۔ لگتا تھا کہ پاکستان فائنل میں نہیں پہنچ سکے گا۔

ایسے میں انضمام جیسے نوجوان کھلاڑی کی شاندار بلے بازی نے مخالف بالروں کے چھکے چھڑا دیے۔ پھر فائنل میں کامیابی بھی ملی اور کپ بھی حاصل ہوا۔ عمران اگر اس چومکھی لڑائی کے فائنل میں پہنچ کر ٹرافی تھامنا چاہتے ہیں تو انھیں یہاں بھی ایک انضمام کی ضرورت ہو گی۔ سیمی فائنل میں مخالف بالروں سے نمٹنے کے لیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے بڑی ٹیموں کو شکست دیتے ہیں اور کون بنے گا عمران کا ''انضمام۔''
Load Next Story