جستِ جنوں
کوئی گناہ یا جرم ایسا نہیں جو اپنی سب سے گھناؤنی شکل میں ہماری اجتماعی نفسیات کا سیاسی عنصر نہ بن چکا ہو۔
حمید نسیم نے صیغہ واحد غائب میں اپنی سوانح ''ناممکن کی جستجو'' لکھی۔ جو کچھ بیتی وہ صاف صاف بیان کر دی۔ ایک وقت قیام فیض صاحب کے ہاں تھا۔ ایک دن باہر سے آئے تو دیکھا ایلس ان کے بکس میں کچھ تلاش کر رہی ہیں۔ پوچھا کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟ ایلس نے جواب دیا فیض کے نئے پاجامے نہیں مل رہے ہیں۔ حمید نسیم دھک سے رہ گئے۔ وہ اسی دن فیض صاحب کا گھر چھوڑ گئے۔
ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ ان پر چوری کا شک کیا جا سکتا ہے۔ ان کی دیانت کا تو یہ حال تھا کہ 1944ء میں جب وہ آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوئے تو انھوں نے ہیڈ کوارٹر کو لکھ کر بھیج دیا کہ ملازمت سے پہلے ریڈیو سے ان کی غزلوں کو نشر کرنے کا جو معاوضہ ان کو دیا جاتا تھا وہ اب وہ نہیں لیں گے اور ان کا کلام بھی اب نشر نہ کیا جائے، اس سلسلے میں ریڈیو سے جو معاہدہ ہوا وہ معطل رہے گا۔
حمید نسیم نے ریڈیو میں آ کر موسیقی کا علم اور ہنر حاصل کیا اور غزل اور گیت کی نواسازی میں مہارت حاصل کی۔ انھوں نے قدیم اور جدید بہت سے شعراء کے کلام کی دھنیں بنائیں اور انھیں اول درجہ کے فنکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کرایا لیکن اس طویل عرصے میں جو انھوں نے آل انڈیا ریڈیو اور پھر ریڈیو پاکستان میں گزارا، اپنی ایک بھی غزل نشر نہیں ہونے دی، نہ کسی غزل کی دھن بنا کر اپنی پسند کے کسی آرٹسٹ سے اپنے سننے کے لیے ریکارڈ کروائی۔ اس کو وہ اپنی پیشہ ورانہ دیانت کے خلاف سمجھتے تھے۔
''جست جنوں'' ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ''جب میں نے بچپن میں شعر کہنا شروع کیا تو ہمت بڑھانے اور شوق کی تہذیب کرنے والا میرا باپ تھا۔ عزیز بٹالوی (یہ خود) جو پیدائشی شاعر تھا اور پنجاب کے ٹھیٹھ ماحول میں جوان ہو کر اردو میں شعر کہتا تھا، کہاں تک جاتا۔ دو چار اچھے شعر ہو گئے جو اب سے اسّی برس پہلے کے مشرقی پنجاب کے ادبی اور فکری ماحول کو مدنظر رکھیں تو بہت اچھے تھے مگر زندہ رہنے والی شاعری کے لیے علم بھی ضروری ہوتا ہے۔
حضرت بلھے شاہ، وارث شاہ صاحب اور درویش صفت خدا مست سلطان باہو اور صاحب عظمت شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اپنے مشرقی دریائے علم و عرفان سے پوری طرح فیضیاب تھے۔ میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، مومن خاں مومن اور مرزا غالب فارغ التحصیل بزر گ تھے، اپنے علمی، تہذیبی اور روحانی سر چشموں سے سیراب۔ عزیز بٹالوی اگر فارسی اور اردو زبانوں کے سرمایہ علم و ادب پر پوری دسترس حاصل کر لیتا تو اعلیٰ سطح کی شاعری کرتا کہ جوہر اس کا کندن تھا۔''
پھر امرتسر میں حمید نسیم کو ڈاکٹر تاثیر کی باقاعدہ شاگردی نصیب ہو گئی۔ صاحبزادہ محمود الظفر اور بیگم رشید جہاں بھی ان کے ذوق شعر اور انسانی اخوت کے جذبے کی تربیت کے لیے میسر آ گئے۔ حمید نسیم نے زندگی میں صرف غزل کہی ہے اگرچہ ریڈیو کے لیے آزاد نظم میں طویل دورانیے کے پروگرام بھی لکھے جن کا موضوع قومی ترقی تھا۔ فرمائش پر چند قومی نغمے بھی لکھے لیکن وہ انھیں اپنے کلام کا حصہ نہیں سمجھتے تھے کیونکہ یہ ان کی شاعرانہ طبع اور مزاج کی نمایندگی نہیں کرتے۔
حمید نسیم لکھتے ہیں ''مجھے کلام موزوں کرنا آتا ہے، جتنی میری توفیق تھی، وہ کم تھی تو میرا قصور نہیں۔ میں نے اپنی سچی روایت، رومی، عطار، سنائی، حافظ، نظیری، میر، غالب، بلھے شاہ اور شاہ عبداللطیف کی روایت کے ساتھ وابستہ رہنے کی پوری کوشش کی ہے۔ روایت ان کی ہے سطح ایک بندہ عاجز کی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے اس کی تخلیق کی اصل قدر کیا ہے۔ اس امر کا فیصلہ تخلیق کار کی جنریشن کم ہی کیا کرتی ہے۔ شاید کر ہی نہیں سکتی۔ مطلوبہ مصروفیت ہم عصروں کو میسر نہیں آتی۔ اصلی اور حتمی فیصلہ وقت کرتا ہے جو بڑا کھرا اور بے لاگ منصف ہے۔''
حمید نسیم نے غزل کے پیرائے میں معاشرے پر غالب ظلم و استحصال کو رد کرنے اور بے ایمانی اور ناانصافیوں کے خلاف قومی ضمیر کو بیدار کرنے اور صرف حق کہنے کی کوشش کی ہے یوں کہ غزل غزل ہی رہے۔ البتہ دو ایک جگہ احتجاج اور استرداد صاف اور صریح ہے کیونکہ ہر شخص سے استعارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔ وہ لکھتے ہیں: ''پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بننا تھا، ایک مثالی، فلاحی معاشرہ قائم کر کے اجتماعی ہیئت کی احسن تشکیل کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا جو اس عصر زبوں حال کے لیے اعلیٰ معاشرتی اقدار کی مثال بنتا، لیکن حال کیا ہے۔
دنیا کا کوئی گناہ، کوئی جرم ایسا نہیں جو اپنی سب سے گھناؤنی شکل میں ہماری اجتماعی نفسیات، ہماری سائیکی کا سیاسی عنصر نہ بن چکا ہو۔ آمریت ہمارے ہاں سفاک اور عیار شکل میں آئی اور ہمیں وی سی آر کلچر، کلاشنکوف کلچر اور ذات برادری کا کلچر دے کر سنت الٰہی کے تحت اپنے مقرر شدہ انجام کو پہنچ گئی۔ ہمارا سارا معاشرہ حُب مال میں بری طرح مبتلا ہے۔ کئی بڑے کلیدی عہدوں پر فائز لوگوں کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ چوہوں کی دوڑ (Rat Race) میں شریک ہیں۔ وہ چیز ان کا وطیرہ ہے جسے بے ایمانی، رشوت، خیانت کہا جاتا ہے۔
دھاندلی کے قصے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اب تو چڑیاں کھیت چگ گئی ہیں، اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ جب کبھی حالات کے سدھرنے کی صورت پیدا ہوئی تو نئی ابتلا نے آ گھیرا۔ سو بدعنوانی ہماری اجتماعی عادت بنتی چلی گئی اور ہم اس حال تک آ پہنچے۔ بیوروکریسی ہو یا پیشہ ور دینی رہنما ہوں سب اس بھیڑ چال میں شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں بالخصوص دیہات میں ہماری معصوم بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں۔ جب قوم کی سائیکی میں یہ سب باتیں اس طرح شامل ہو جائیں کہ بے حسی عام ہو جائے تو صدیوں کی اجتماعی محنت اور تہذیب و ثقافت کی ترقی و تعمیر کے بعد جو قومی ورثہ ہمیں ملا ہوتا ہے وہ Ethos بھی فراموشی میں ڈوب جاتا ہے، حمیت غائب ہو جاتی ہے''۔
ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ ان پر چوری کا شک کیا جا سکتا ہے۔ ان کی دیانت کا تو یہ حال تھا کہ 1944ء میں جب وہ آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوئے تو انھوں نے ہیڈ کوارٹر کو لکھ کر بھیج دیا کہ ملازمت سے پہلے ریڈیو سے ان کی غزلوں کو نشر کرنے کا جو معاوضہ ان کو دیا جاتا تھا وہ اب وہ نہیں لیں گے اور ان کا کلام بھی اب نشر نہ کیا جائے، اس سلسلے میں ریڈیو سے جو معاہدہ ہوا وہ معطل رہے گا۔
حمید نسیم نے ریڈیو میں آ کر موسیقی کا علم اور ہنر حاصل کیا اور غزل اور گیت کی نواسازی میں مہارت حاصل کی۔ انھوں نے قدیم اور جدید بہت سے شعراء کے کلام کی دھنیں بنائیں اور انھیں اول درجہ کے فنکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کرایا لیکن اس طویل عرصے میں جو انھوں نے آل انڈیا ریڈیو اور پھر ریڈیو پاکستان میں گزارا، اپنی ایک بھی غزل نشر نہیں ہونے دی، نہ کسی غزل کی دھن بنا کر اپنی پسند کے کسی آرٹسٹ سے اپنے سننے کے لیے ریکارڈ کروائی۔ اس کو وہ اپنی پیشہ ورانہ دیانت کے خلاف سمجھتے تھے۔
''جست جنوں'' ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ''جب میں نے بچپن میں شعر کہنا شروع کیا تو ہمت بڑھانے اور شوق کی تہذیب کرنے والا میرا باپ تھا۔ عزیز بٹالوی (یہ خود) جو پیدائشی شاعر تھا اور پنجاب کے ٹھیٹھ ماحول میں جوان ہو کر اردو میں شعر کہتا تھا، کہاں تک جاتا۔ دو چار اچھے شعر ہو گئے جو اب سے اسّی برس پہلے کے مشرقی پنجاب کے ادبی اور فکری ماحول کو مدنظر رکھیں تو بہت اچھے تھے مگر زندہ رہنے والی شاعری کے لیے علم بھی ضروری ہوتا ہے۔
حضرت بلھے شاہ، وارث شاہ صاحب اور درویش صفت خدا مست سلطان باہو اور صاحب عظمت شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اپنے مشرقی دریائے علم و عرفان سے پوری طرح فیضیاب تھے۔ میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، مومن خاں مومن اور مرزا غالب فارغ التحصیل بزر گ تھے، اپنے علمی، تہذیبی اور روحانی سر چشموں سے سیراب۔ عزیز بٹالوی اگر فارسی اور اردو زبانوں کے سرمایہ علم و ادب پر پوری دسترس حاصل کر لیتا تو اعلیٰ سطح کی شاعری کرتا کہ جوہر اس کا کندن تھا۔''
پھر امرتسر میں حمید نسیم کو ڈاکٹر تاثیر کی باقاعدہ شاگردی نصیب ہو گئی۔ صاحبزادہ محمود الظفر اور بیگم رشید جہاں بھی ان کے ذوق شعر اور انسانی اخوت کے جذبے کی تربیت کے لیے میسر آ گئے۔ حمید نسیم نے زندگی میں صرف غزل کہی ہے اگرچہ ریڈیو کے لیے آزاد نظم میں طویل دورانیے کے پروگرام بھی لکھے جن کا موضوع قومی ترقی تھا۔ فرمائش پر چند قومی نغمے بھی لکھے لیکن وہ انھیں اپنے کلام کا حصہ نہیں سمجھتے تھے کیونکہ یہ ان کی شاعرانہ طبع اور مزاج کی نمایندگی نہیں کرتے۔
حمید نسیم لکھتے ہیں ''مجھے کلام موزوں کرنا آتا ہے، جتنی میری توفیق تھی، وہ کم تھی تو میرا قصور نہیں۔ میں نے اپنی سچی روایت، رومی، عطار، سنائی، حافظ، نظیری، میر، غالب، بلھے شاہ اور شاہ عبداللطیف کی روایت کے ساتھ وابستہ رہنے کی پوری کوشش کی ہے۔ روایت ان کی ہے سطح ایک بندہ عاجز کی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے اس کی تخلیق کی اصل قدر کیا ہے۔ اس امر کا فیصلہ تخلیق کار کی جنریشن کم ہی کیا کرتی ہے۔ شاید کر ہی نہیں سکتی۔ مطلوبہ مصروفیت ہم عصروں کو میسر نہیں آتی۔ اصلی اور حتمی فیصلہ وقت کرتا ہے جو بڑا کھرا اور بے لاگ منصف ہے۔''
حمید نسیم نے غزل کے پیرائے میں معاشرے پر غالب ظلم و استحصال کو رد کرنے اور بے ایمانی اور ناانصافیوں کے خلاف قومی ضمیر کو بیدار کرنے اور صرف حق کہنے کی کوشش کی ہے یوں کہ غزل غزل ہی رہے۔ البتہ دو ایک جگہ احتجاج اور استرداد صاف اور صریح ہے کیونکہ ہر شخص سے استعارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔ وہ لکھتے ہیں: ''پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست بننا تھا، ایک مثالی، فلاحی معاشرہ قائم کر کے اجتماعی ہیئت کی احسن تشکیل کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا جو اس عصر زبوں حال کے لیے اعلیٰ معاشرتی اقدار کی مثال بنتا، لیکن حال کیا ہے۔
دنیا کا کوئی گناہ، کوئی جرم ایسا نہیں جو اپنی سب سے گھناؤنی شکل میں ہماری اجتماعی نفسیات، ہماری سائیکی کا سیاسی عنصر نہ بن چکا ہو۔ آمریت ہمارے ہاں سفاک اور عیار شکل میں آئی اور ہمیں وی سی آر کلچر، کلاشنکوف کلچر اور ذات برادری کا کلچر دے کر سنت الٰہی کے تحت اپنے مقرر شدہ انجام کو پہنچ گئی۔ ہمارا سارا معاشرہ حُب مال میں بری طرح مبتلا ہے۔ کئی بڑے کلیدی عہدوں پر فائز لوگوں کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ چوہوں کی دوڑ (Rat Race) میں شریک ہیں۔ وہ چیز ان کا وطیرہ ہے جسے بے ایمانی، رشوت، خیانت کہا جاتا ہے۔
دھاندلی کے قصے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اب تو چڑیاں کھیت چگ گئی ہیں، اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ جب کبھی حالات کے سدھرنے کی صورت پیدا ہوئی تو نئی ابتلا نے آ گھیرا۔ سو بدعنوانی ہماری اجتماعی عادت بنتی چلی گئی اور ہم اس حال تک آ پہنچے۔ بیوروکریسی ہو یا پیشہ ور دینی رہنما ہوں سب اس بھیڑ چال میں شامل ہیں۔ ہمارے ملک میں بالخصوص دیہات میں ہماری معصوم بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں۔ جب قوم کی سائیکی میں یہ سب باتیں اس طرح شامل ہو جائیں کہ بے حسی عام ہو جائے تو صدیوں کی اجتماعی محنت اور تہذیب و ثقافت کی ترقی و تعمیر کے بعد جو قومی ورثہ ہمیں ملا ہوتا ہے وہ Ethos بھی فراموشی میں ڈوب جاتا ہے، حمیت غائب ہو جاتی ہے''۔