دنیا سارے لوگوں کی ہے

دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کے حوالے ہونے کی ضرورت ہے۔ پھر کوئی ذخیرہ کریگا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔


Zuber Rehman January 16, 2013
[email protected]

LOS ANGELES: آج کی سرمایہ داری ایک جانب عروج کی انتہا پر ہے تو دوسری جانب زوال کی انتہا پر، بھوک، قتل، بیماری اور حادثات کے باعث اس کرہ ارض میں ہر روز تقریباً ایک لاکھ انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ داری کی لوٹ مار ہے۔ دنیا کے تین امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ سرمایہ داری میں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اپنے منافعے میں مسلسل اضافے کی خاطر ہوتی ہے۔ سرمایہ داری خود ایک کرپشن ہے۔ مگر آئین اور قانون اس کرپشن کو کرپشن نہیں کہتا۔

سرمایہ داروں کی نظر میں کرپشن وہی ہے جس کا حساب کتاب کھاتے میں موجود نہ ہو۔ اس لحاظ سے نیب کے چیئرمین بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ 15 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اگر اس کرپشن کو روک لیا جائے (جو ممکن نہیں) تو ہر روز 15 یونیورسٹیاں، 15 اسپتال اور 15 کارخانے لگا کر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو جہالت، بیماری اور بے روزگاری سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ مگر ایسا ہوتا تو پھر سرمایہ داری کیوں کہلاتی؟ قومی ریاستوں کی تشکیل ہی اس لیے ہوئی کہ محنت کش اپنی قوت محنت کو اپنی مرضی سے فروخت نہ کر سکیں اور نہ کہیں جا سکیں جب کہ سرمایہ دار کہیں بھی جا کر سرمایہ لگا کر محنت کا استحصال کر سکتا ہے اور یہ استحصال سرمایہ دار قوم، مذہب، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر کرتا ہے۔ اس لیے کہ سرمایہ اپنے استحصال کے دوران ان تفریقات کو مدنظر نہیں رکھتا ہے۔

آج دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب انتہائی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ میرے پاس کچھ قارئین کی طرف سے کبھی کبھی فون آتے ہیں کہ اسلامی نظام نافذ کر کے یہ تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہم انھیں یہ بتانا چاہیں گے کہ مذہب عقیدہ ہوتا ہے اور نظریہ سائنس۔ سائنس میں رد و بدل ہوتا ہے لیکن عقیدے میں نہیں۔ کل ارسطو نے کہا تھا کہ دنیا چپٹی ہے، مگر بعد میں گلیلیو نے گول کہا۔ عقیدہ اپنے ہر عمل کو ابدی سچائی مانتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اگر چھڑی پھینکتے تھے تو سانپ بن جاتا تھا اور حضرت عیسیٰؑ پتیلی رکھ دیتے تو کھانا پک جاتا تھا۔

اس میں سوال کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے کہ یہ معجزہ ہے اور یہی عقیدہ ہے۔ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے عالم عرب کی آبادی ایک لاکھ 25 ہزار کی تھی جن میں 85 ہزار غلام اور کنیزیں تھیں، صرف 40 ہزار آزاد انسان تھے۔ معیشت کھجور، اونٹ اور خچر پر استوار تھی۔ اب عالم عرب کی آبادی 15 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس وقت دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں 2 ارب 10 کروڑ عیسائی، 1 ارب 40 کروڑ مسلمان، ایک ارب دہریے (کافر)، ایک ارب ہندو، 50 کروڑ بدھ، 60 کروڑ کنفیوشس کے پیروکار پھر آتش پرست اور مظاہر پرست وغیرہ وغیرہ۔

فوربس کی فہرست کے مطابق دنیا کے 1011 ارب پتیوں میں ہر مذہب، رنگ و نسل، زبان اور فرقے کے لوگ ہیں۔ روزانہ صرف بھوک سے مرنے والے 50 ہزار انسانوں میں ہر مذہب کے اور مذہب نہ ماننے والے سب شامل ہیں اور سرمایہ داروں میں بھی مذہب کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں شامل ہیں۔ انقلاب روس میں 8 ہزار افراد مارے گئے تھے جب کہ فتح مکہ میں حضرت محمدؐ نے ایک کافر کو بھی (جنہوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے) قتل نہیں کیا بلکہ سب کو معاف کر دیا تھا۔ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے ہم ہر شے، جنس اور آلہ استعمال کرتے ہیں۔

جارج اسٹیفن سن کافر تھا لیکن اس کی ایجاد کی جانے والی ریل گاڑی میں ہم سفر کرتے ہیں۔ تھامس ایڈیسن کا کسی مذہب سے تعلق نہیں تھا لیکن ہم اس کی ایجاد کردہ بجلی استعمال کرتے ہیں، اس لیے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا مذہب یا رنگ و نسل کیا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی دریافتیں اگر بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے ہیں تو ان سب چیزوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ابوبکر الراضی نے چیچک کی دوائی ایجاد کی تو اسے عیسائی، یہودی، کافر یعنی ہر ایک استعمال کرتے ہیں جب کہ صدیوں کی جہالت یہ تھی کہ چیچک کی بڑھیا ہوتی ہے۔

اور جب ابوبکر الراضی نے چیچک کی دوا دریافت کی تو عرب کے مسلم حکمرانوں نے اسے جیل میں مقید کر دیا۔ صرف پاکستان میں 2012ء میں 6000 لوگوں نے خودکشیاں کیں جن میں ڈھائی ہزار نے بیروزگاری کی وجہ سے خودکشی کی اور 5000 خواتین کا قتل ہوا۔ صرف کراچی میں 3000 لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔ مارنے اور مرنے والے سب مسلمان تھے۔ ابھی چند روز قبل کوئٹہ میں تقریباً 100 افراد کا دھماکے میں قتل ہوا۔ یہ سب مسلمان تھے اور مارنے والے بھی مسلمان ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی لوٹ مار کا تعلق نہ کسی مخصوص مذہب سے ہے نا رنگ و نسل سے ہے۔ دراصل تمام برائیوں کی جڑ یہ ظالم سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس کی بہتر مثال غزہ میں 150 فلسطینیوں کے قتل کے خلاف اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب میں لاکھوں اسرائیلی (یہودیوں) کا مظاہرہ تھا جس میں وہ یہ نعرے بلند کر رہے تھے کہ ''فلسطینیوں کا قتل بند کرو''۔ آج ہم جو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں یہ تحریک شکاگو میں 1886ء میں چلی تھی۔ جس میں بے شمار مزدور شہید ہوئے اور 6 مزدور رہنماؤں کو 7 ماہ بعد پھانسی (عدالتی قتل) دے دی گئی۔ ان چھ میں سے دو جرمنی کے، دو برطانیہ کے اور 2 امریکا کے تھے۔

ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ اور آج ان کی قربانیوں کے برکات سے دنیا بھر کے ہر مذہب، رنگ و نسل کے لوگ 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کا مذہب کیا تھا۔ اس لیے رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر اس طبقاتی نظام کو ختم کر کے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہو گا جس میں ہر شخص کو جینے، کھانے، رہنے، پڑھنے اور علاج کروانے کی سہولیات دستیاب ہو۔ آیندہ ایسا معاشرہ ہو جہاں بلدیہ کراچی کی طرح بیک وقت 300 مزدور جل کر نہ مریں۔ کبھی کسی نے سنا ہے کہ 300 سرمایہ دار بھی جل کے مرے، بھوکے مرے یا لاعلاج ہو کر مرے؟ صرف پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ 4000 خواتین غذائیت کی کمی کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔ مگر کوئی سرمایہ دار کے خاندان کی خواتین نہیں مرتیں۔

اس لیے دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کے حوالے ہونے کی ضرورت ہے۔ پھر کوئی ذخیرہ کریگا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔ ملکوں کی سرحدیں ختم کرنی ہوں گی، دنیا کی افواج اور اسلحے کی پیداوار کو ختم کرنا ہو گا، کوئی بھی شخص بے گھر یا بے روزگار نہیں ہو گا، ہر لکھا پڑھا آدمی ان پڑھ کو پڑھائے گا، معالج کے گزارے کے لیے عوام خود انتظام کریں گے، کارخانے، تجارت، دفاع اور زراعت کے لیے کوئی وزیر صنعت، وزیر تجارت، وزیر دفاع اور وزیر زراعت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ عوام اپنی خودکار کمیٹیاں بنا کر اپنا کام خود ہی انجام دیں گے۔ یہ ایک ایسا نظام ہو گا جہاں ساری دنیا بنی نوع انسان کی ملکیت ہو گی۔ سرمایہ دار ہو گا اور نہ مزدور، ہر شخص اپنے اپنے حصے کا کام کرے گا، جبری غلامی کا نکاح، ونی، کاروکاری، نجی یا سرکاری جیل، کرنسی نوٹ، وکیل اور فوج کا خاتمہ ہو جائے گا، اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ایسے خطے موجود ہیں جہاں کم لوگ بستے ہیں اور رقبہ بڑا ہے۔ جب سرحدیں نہیں ہوں گی تو گھنی آبادی بڑے رقبوں والے علاقوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر کینیڈا اور آسٹریلیا کا رقبہ بہت بڑا ہے جب کہ کینیڈا کی 2 کروڑ اور آسٹریلیا کی 90 لاکھ کی آبادی ہے۔ دوسری جانب ہندوستان اور چین کی آبادی بہت گھنی ہے، یہ لوگ وہاں منتقل ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی بہت گھنی اور رقبہ چھوٹا ہے جب کہ سعودی عرب اور سوڈان کا رقبہ بڑا ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش اور نائیجیریا کی آبادی سعودی عرب اور سوڈان میں منتقل ہو سکتی ہے۔ جب اسلحے کی پیداوار ختم ہو جائے گی تو ان کھربوں ڈالروں کو صحت پر خرچ کیا جا سکتا ہے، بے گھروں کو گھر بنا کر دیا جا سکتا ہے، پھر ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا، نہ کوئی طبقہ اور نہ کوئی ریاست۔ ہر طرف خوشحالی اور محبت کے پھول کھلیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں