مقاصد واضح نہیں

ئین میں فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ کا دائرہ کار متعین کر دیا گیا ہے ۔


MJ Gohar January 16, 2013
[email protected]

CHAMAN: بالآخر علامہ طاہر القادری نتائج کی پرواہ کیے بغیر تمام تر خطرات، اندیشوں، وسوسوں اور حکومتی وارننگ کو بالائے طاق رکھتے اور اپنی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے لانگ مارچ کا قافلہ لے کر سخت سردی کے موسم میں اسلام آباد پہنچ گئے لیکن اپنے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود علامہ صاحب چار ملین (40لاکھ) افراد اکٹھا کرنے میں ناکام رہے۔ لانگ مارچ کے آغاز سے قبل نائب وزیر اعظم چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین نے طاہر القادری سے کئی ملاقاتیں کیں ان کے مطالبات پر اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر غور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی، دہشت گردی کے امکانی خطرات سے علامہ کو آگاہ کیا اور ان سے مارچ ملتوی کرنے کی اپیلیں بھی کیں لیکن چوہدری برادران کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں، علامہ طاہر القادری نے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے اور لانگ مارچ سے دستبردار ہونے سے صاف انکار کر دیا۔

آپ علامہ طاہر القادری کی پاکستان آمد سے آج تک کے حالات کا جائزہ لیں، تبصرے اور تجزیے پڑھیں، ٹی وی ٹاک شوز میں شرکاء اور اینکرز کی باتیں سنیں تو معلوم ہو گا کہ ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتیں، تنظیمیں، سول سوسائٹی، وکلاء کی بار کونسلیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے نناوے فیصد لوگ اور ملک کے صائب الرائے، محب وطن اور دانشور حلقے سب کے سب علامہ طاہر القادری کی سخت گیری، غیر لچکدار رویے، بے موقع احتجاج اور عین انتخابات کے قریب غیر ضروری لانگ مارچ کی سنوائی سے گریزاں نظر آتے ہیں اور ان کی اچانک پاکستان آمد اور اسلام آباد کو فتح کرنے کی مہم جوئی کو جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

ملک میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر ایم کیو ایم نے علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں عملی طور پر شرکت نہ کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا جسے تمام مکاتب فکر کی جانب سے سراہا اور ملکی مفاد کے لیے خوش آیند اقدام قرار دیا جا رہا ہے تاہم علامہ طاہر القادری اپنی دھن کے پکے نکلے اور دہشت گردی کے امکانی خطرات کے باوجود اپنے مریدوں، پیروکاروں، معتقدین اور اپنے ہمدردوں کے ہمراہ لانگ مارچ کے لیے نکل کھڑے ہوئے، روانگی سے قبل علامہ صاحب نے پنجاب حکومت پر الزامات کی بارش کر دی اور کہا کہ ان کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے تخت لاہور نے تمام حدود کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن مارچ ہر صورت ہو گا، ہو گا اور ہو گا۔

نہ جانے علامہ طاہر القادری کو کس نے یہ بتا دیا کہ ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے انھوں نے کوئی انوکھی اور نئی بات یا مطالبہ کیا ہے جو اس سے قبل ملک کے کسی اور حلقے یا طبقے کی جانب سے نہیں کیا گیا اور عام لوگ بھی علامہ کے مریدوں و معتقدین کی طرح ان کے ''سنہری مطالبات'' کی کشش میں ان کی جانب کھچے چلے آئیں گے اور جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کر کے علامہ صاحب کو اقتدار کے ایوانوں میں بٹھا دیں گے، شاید علامہ طاہر القادری کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے چونکہ وہ کافی طویل عرصے سے کینیڈا میں سکونت پذیر رہے اسی لیے وہ پاکستانی عوام کے مسائل اور صائب الرائے حلقوں کی آرا و تجاویز سے آگاہ نہیں ہیں۔

کیونکہ ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ملک کے محب وطن سنجیدہ صحافتی و دانشور حلقے طویل عرصے سے تحریر و تقریر کے ذریعے اظہار خیال کرتے چلے آ رہے ہیں، خود راقم الحروف نے علامہ کی پاکستان آمد سے ایک ہفتہ قبل یعنی 18 دسمبر 2012ء کو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ''عام انتخابات میں شفافیت کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے اس حوالے سے جہاں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہوتا ہے وہیں امیدواروں کے اثر و رسوخ کے عمل دخل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، پاکستان کی 65 فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں اور قصبوں میں آباد ہے اور خواندگی کی شرح بھی 50 فیصد سے کم ہے جس کے باعث لوگوں کے سیاسی شعور و آگہی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا، دیہی آبادیوں کی اکثریت آج بھی زمین داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر ہے، برادریاں اور گروپ بندیاں بھی انتخابی عمل میں اثر انداز ہوتی ہیں با اثر لوگ ووٹروں کو ان کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر ڈرا دھمکا کے مجبور کرتے ہیں''۔

آگے چل کر راقم نے مزید لکھا کہ ''گویا ہمیں ایک ایسے شفاف نظام انتخاب کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی دھاندلی کے امکانات سے پاک صاف ہو اس کے لیے ضروری ہے ووٹر لسٹوں سے لے کر بیلٹ پیپرز کی ووٹروں تک فراہمی اور انتخابی عملے سے لے کر ووٹوں کی گنتی تک کے جملہ انتخابی مراحل میں اصلاحات کی جائیں اور انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے تا کہ پٹواریوں، تحصیل داروں، امیدواروں اور بااثر افراد کی انتخابی عمل میں مداخلت کو روکا جا سکے۔''

اس پس منظر میں دیکھیں تو علامہ طاہر القادری کوئی نئی بات یا کوئی ایسا پرکشش مطالبہ نہیں کر رہے ہیں کہ لوگ ان کی آواز پر لبیک کہتے ان کے پیچھے چل پڑیں، ملک کے سنجیدہ اور دانشور حلقے استحصالی نظام کے خاتمے، آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کو ان کے بنیادی آئینی حقوق کی فراہمی اور ان کے مسائل کے حل کے حوالے سے آواز بلند کرتے چلے آ رہے ہیں اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری نظام کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت، مشاورت، مفاہمت اور مشترکہ جدوجہد کے ذریعے افہام و تفہیم سے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے علامہ طاہر القادری صاحب کا عدلیہ اور فوج کو بھی اسٹیک ہولڈرز قرار دینا غیر جمہوری و غیر آئینی مطالبہ ہے جس کی کوئی بھی حلقہ حمایت نہیں کر سکتا۔

ایک طرف تو وہ مینار پاکستان پر آئینی دفعات کی کاپیاں لہرا لہرا کر کہتے ہیں میں سو فیصد آئین پر عمل درآمد چاہتا ہوں، آئین سے ہٹ کر کوئی مطالبہ نہیں کرتا اور دوسری جانب وہ عدلیہ اور فوج کو سیاسی معاملات میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ان کی ناپختگی اور دہرے معیار کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ کارگل جنگ کے حوالے سے میاں نواز شریف پر ملک دشمنی کا الزام دھرتے ہوئے علامہ طاہر القادری نے فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر دے، آج ایک مرتبہ پھر علامہ صاحب اپنی غلطی دہرا رہے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ جمہوریت، جمہوری اداروں اور مذاکرات سے مسائل کے حل پر یقین نہیں رکھتے۔ آئین میں نگراں حکومت کے قیام کا ایک واضح طریقہ کار موجود ہے۔

جسے علامہ نہیں مانتے تو پھر وہ کس طرح سو فیصد آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آئین میں فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ کا دائرہ کار متعین کر دیا گیا ہے کوئی بھی ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرے گا تو وہ غیر جمہوری و غیر آئینی اقدام ہو گا۔ آج ملک میں عدلیہ آزاد ہے جنرل کیانی نے فوج کو سیاسی آلودگیوں سے پاک کر دیا ہے، علامہ طاہر القادری اسلام آباد پر چڑھائی کر کے فوج و عدلیہ کے شفاف کردار کو متنازعہ بنانے کے خواہاں ہیں؟ افسوس کہ ان کے مقاصد واضح نہیں ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں