بھارت کا جنگی جنون
کبھی محبت کی پینگیں اور امن کی آشا کے گیت تو کچھ ہی دنوں میں الزامات اور دھمکیوں کا سلسلہ اور پھرعسکری حملے
کہا جاتا ہے کہ منافق کی دوستی اچھی ہوتی ہے نہ دشمنی۔ چونکہ منافق کی زبان پر رام رام ہوتا ہے اور بغل میں چھری، اس لیے جب گاڑھی چھننے لگے تو منافق آپ کے کندھوں پر سواری گانٹھ لیتا ہے اور ہر طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے مگر جیسے ہی موقع ملے تو ایسے ایسے کچوکے لگاتا ہے کہ چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتا ہے۔ وہ مارتا ہے تو نہ رونے دیتا ہے نہ فریاد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا بھی یہی حال ہے۔ اس کی ہمارے ساتھ تعلقات کی نوعیت عجیب ہے، پل پل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہوئی۔
کبھی محبت کی پینگیں اور امن کی آشا کے گیت تو کچھ ہی دنوں میں الزامات اور دھمکیوں کا سلسلہ اور پھر اس سے آگے بڑھ کر عسکری حملے... دراصل یہ دو رخی پالیسی بھارت کی منافقت کو واضح کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے ہمیشہ خلوص کے ساتھ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی اور اس کے لیے اکثر اپنے حقوق کو چھوڑنا بھی گوارا کیا، لیکن اس یک طرفہ عشق کے مظاہرے کا صلہ کیا ملتا ہے؟ بلا اشتعال فائرنگ، ہمارے فوجیوں کے سینوں پر سوراخ اور بدترین انجام کی دھمکیاں... ابھی پچھلے مہینے کی ہی بات ہے کہ بھارت کو 'موسٹ فیورٹ نیشن' کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
ان کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لانے اور درآمدات پر پابندی ختم کرنے کے لیے معاہدے کیے جا رہے تھے۔ اور دو ہفتے پہلے ہی تو ان کی مصنوعات کی نمائش کراچی میں ہوئی تھی۔ لیکن ہمارے یہ سب اقدامات بے کار ثابت ہو ئے اور بھارتی فوج اور میڈیا کے دلوں میں چھپی نفرت بہت جلد سامنے آ گئی۔ لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کا آغاز چھ جنوری کو ہوا تھا جب پاکستانی فوج کے مطابق بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باغ کے قریب حاجی پیر سیکٹر کے علاقے میں سواں پترا چوکی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں لانس نائیک اسلم شہید جب کہ متعدد اہلکار زخمی ہو گئے۔
پاک فوج کی جوابی کارروائی پر بھارتی فوجی اسلحہ پھینک کر فرار ہو گئے جسے قبضے میں لے لیا گیا، پاکستان نے دراندازی کے اس سنگین واقعے پر شدید احتجاج کیا۔ بھارت نے اس پر کسی قسم کی معذرت اور تحقیقات کا وعدہ کرنے کی بجائے اگلے روز یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پاکستان کے فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو کر اس کے ایک فوجی کا سر قلم اور دوسرے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ بات صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہی بلکہ بھارتی قیادت حسب معمول دھمکیوں پر اتر آئی۔ لیکن عجیب ترین بات یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے اس واقعے کے حوالے سے انتہائی متضاد بیانات آ ئے۔ پہلے یہ پروپیگنڈا کہ پہل پاکستان نے کی اور ان کے فوجیوں کو مار کر لاشوں کی بے حرمتی کی، پھر دوسرے ہی دن بھارتی وزارت داخلہ نے کنٹرول لائن پر کشیدگی کا ذمے دار بھارتی فوج کو قرار دیا۔
نادرن کمانڈر کے ترجمان راجیش کالیا کیمطابق چرچنڈا سب سیکٹر کے بریگیڈئیر گلاب سنگھ راوت کی جارحیت کی وجہ سے کنٹرول لائن پر تناؤ کی صورتحال پیدا ہوئی اور انھوں نے بھارتی میڈیا کی رپورٹس کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اتنے اہم اعتراف کے باوجود کچھ بھارتی حکمران کانگریس کی گیدڑ بھبھکیاں بند نہ ہوئیں۔ ہمیں 1971ء کی جنگ یاد دلائی گئی اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔ بھارت کی طرف سے جارحانہ بیانات کے تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں پاکستانی حکومت اور فوج نے نہ صرف دوٹوک الفاظ میں بھارتی الزامات کو مسترد کیا، بلکہ حسبِ روایت اس واقعے کی تفتیش اقوام متحدہ کے آبزرور مشن سے کرانے کی پیشکش بھی کی، لیکن بھارتی سورماؤں نے اس پیش کش کو بالکل مسترد کر دیا۔
اور پھر اگلے روز ہفتے کو کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب بھارتی ائر چیف انیل کمار نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو دوسرے آپشن پر بھی غور کرنا پڑے گا! یہ دوسرا آپشن کیا ہے؟ یہ کھلی جنگ کی دھمکی ہے اور یہ ہمارے لیے کچھ غیر متوقع بھی نہیں۔ جو لوگ بھارتی ذہنیت سے واقف ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک بھارت نے سترہ کروڑ افراد کی اس عظیم مملکت کو ہنوز تسلیم نہیں کیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کا داغ ابھی تک اس کے سینے سے دھواں دیتا ہے، حالانکہ برصغیر کی تقسیم بھارت اور پاکستان کے مفادات کے عین مطابق تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اکثریتیں اپنے اپنے علاقوں میں، اپنے اپنے نظریے کے مطابق کسی فساد اور عناد کے اندیشوں سے بالاتر ہو کر اطمینان کی زندگی گزاریں مگر بھارت نے سکون کا کوئی لمحہ ہمیں گزارنے نہیں دیا، اس نے ہم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا، اس نے کبھی ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارے سبزہ زاروں کو ریگزار بنانا چاہا تو کبھی ہمارے لوگوں میں تعصب کا بیج بو کر فسادات کی آگ بھڑکائی۔
اس نے ہمارے ملک کے حصے بخرے کرنے کی مسلسل سازشیں کیں اور پھر بالآخر ایک دل فگار دسمبر کی سرد رات کو اپنے مکروہ عزائم میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا اور ہمارا ملک دو لخت ہو گیا۔ہمیں یقین ہے کہ تحقیقات کے بعد دنیا کا کوئی دیانت دار مبصر اس وقت جاری کشیدگی کا ذمے دار پاکستان کو نہیں ٹھہرائے گا۔ حیرت اس اَمر پر ہے کہ پینسٹھ سال کی اس کشمکش کے بعد بھی بھارت نے یہ سبق حاصل نہیں کیا کہ پاکستان کو زیر کرنا اور دوبارہ ایک بھارت وَرش تشکیل دینا اب ناممکن ہے۔ اس نزاع کے سبب نہ تو بھارت اپنے پسماندہ علاقوں اور لوگوں کے لیے کچھ کر سکا اور نہ پاکستان کو کچھ کرنے کا موقع دیا۔ دونوں ملکوں کے کثیر عوام ننگے بھوکے رہے اور دونوں ملکوں کا کھربوں روپیہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اسلحے کی خریداری پر جھونکا جاتا رہا۔
اس پیسے کی بدولت یورپ اور امریکا کچھ اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھ گئے اور ہم کچھ اور پستی میں چلے گئے۔پاکستان اور بھارت کے بھی کچھ سنجیدہ حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ امن دونوں ملکوں کی ضرورت ہے، لیکن کچھ بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعتیں اور وہ ممالک ایسا ہرگز نہیں چاہتے جن کے مقاصد پاک بھارت کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال اگر اس بار یہ کشیدگی بنا کسی سنجیدہ حل کے ٹل گئی تو آیندہ چند مہینوں یا سالوں بعد پھر اسی قسم کی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی فیصلہ کن نتیجہ برآمد نہ ہو۔ اس خطے کے لوگ اب اس صورتحال سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ کسی فیصلے کے خواہاں ہیں۔ اب تو کچھ مایوس لوگ یہ تک کہنے لگے ہیں کہ ایک خونیں معرکہ ان دونوں ملکوں پر قرض ہے، اسے چکا دینا چاہیے۔
اس لیے بھارت کے طالع آزماؤں کو دھمکیاں دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ انھوں نے آبِ حیات تو پی نہیں رکھا جو جنگ کی آگ ان کے بدن کو نہ چھوئے گی۔ جنگ چھڑی تو تباہی سب جگہ ہو گی۔ ہاں ہمیں یہ طمانیت تو حاصل ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارے ارادے بدنیتی سے آلودہ نہیں، لیکن بھارت کے پاس تو اس جنونیت کا کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں۔ہمیں چاہیے کہ ایک خود دار قوم کی طرح حالیہ مسئلے کو فیس کریں۔ حق پر ہونے کے باوجود معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا حریف پر اپنی کمزوری ثابت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں چاہیے کہ اپنے ملک میں نا آسودگیوں کے جہنم کو دور کرنے کے لیے بھی کوئی ہنگامی اقدام کریں، خود سے جنگ کریں اور خود کو اس قدر فعال اور محفوظ بنا لیں کہ کوئی حریص نظر آپ کی سمت اٹھنے کی جرأت نہ کر سکے۔
کبھی محبت کی پینگیں اور امن کی آشا کے گیت تو کچھ ہی دنوں میں الزامات اور دھمکیوں کا سلسلہ اور پھر اس سے آگے بڑھ کر عسکری حملے... دراصل یہ دو رخی پالیسی بھارت کی منافقت کو واضح کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے ہمیشہ خلوص کے ساتھ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی اور اس کے لیے اکثر اپنے حقوق کو چھوڑنا بھی گوارا کیا، لیکن اس یک طرفہ عشق کے مظاہرے کا صلہ کیا ملتا ہے؟ بلا اشتعال فائرنگ، ہمارے فوجیوں کے سینوں پر سوراخ اور بدترین انجام کی دھمکیاں... ابھی پچھلے مہینے کی ہی بات ہے کہ بھارت کو 'موسٹ فیورٹ نیشن' کا درجہ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
ان کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لانے اور درآمدات پر پابندی ختم کرنے کے لیے معاہدے کیے جا رہے تھے۔ اور دو ہفتے پہلے ہی تو ان کی مصنوعات کی نمائش کراچی میں ہوئی تھی۔ لیکن ہمارے یہ سب اقدامات بے کار ثابت ہو ئے اور بھارتی فوج اور میڈیا کے دلوں میں چھپی نفرت بہت جلد سامنے آ گئی۔ لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کا آغاز چھ جنوری کو ہوا تھا جب پاکستانی فوج کے مطابق بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باغ کے قریب حاجی پیر سیکٹر کے علاقے میں سواں پترا چوکی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں لانس نائیک اسلم شہید جب کہ متعدد اہلکار زخمی ہو گئے۔
پاک فوج کی جوابی کارروائی پر بھارتی فوجی اسلحہ پھینک کر فرار ہو گئے جسے قبضے میں لے لیا گیا، پاکستان نے دراندازی کے اس سنگین واقعے پر شدید احتجاج کیا۔ بھارت نے اس پر کسی قسم کی معذرت اور تحقیقات کا وعدہ کرنے کی بجائے اگلے روز یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پاکستان کے فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو کر اس کے ایک فوجی کا سر قلم اور دوسرے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ بات صرف الزام تراشی تک محدود نہیں رہی بلکہ بھارتی قیادت حسب معمول دھمکیوں پر اتر آئی۔ لیکن عجیب ترین بات یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے اس واقعے کے حوالے سے انتہائی متضاد بیانات آ ئے۔ پہلے یہ پروپیگنڈا کہ پہل پاکستان نے کی اور ان کے فوجیوں کو مار کر لاشوں کی بے حرمتی کی، پھر دوسرے ہی دن بھارتی وزارت داخلہ نے کنٹرول لائن پر کشیدگی کا ذمے دار بھارتی فوج کو قرار دیا۔
نادرن کمانڈر کے ترجمان راجیش کالیا کیمطابق چرچنڈا سب سیکٹر کے بریگیڈئیر گلاب سنگھ راوت کی جارحیت کی وجہ سے کنٹرول لائن پر تناؤ کی صورتحال پیدا ہوئی اور انھوں نے بھارتی میڈیا کی رپورٹس کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اتنے اہم اعتراف کے باوجود کچھ بھارتی حکمران کانگریس کی گیدڑ بھبھکیاں بند نہ ہوئیں۔ ہمیں 1971ء کی جنگ یاد دلائی گئی اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔ بھارت کی طرف سے جارحانہ بیانات کے تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں پاکستانی حکومت اور فوج نے نہ صرف دوٹوک الفاظ میں بھارتی الزامات کو مسترد کیا، بلکہ حسبِ روایت اس واقعے کی تفتیش اقوام متحدہ کے آبزرور مشن سے کرانے کی پیشکش بھی کی، لیکن بھارتی سورماؤں نے اس پیش کش کو بالکل مسترد کر دیا۔
اور پھر اگلے روز ہفتے کو کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب بھارتی ائر چیف انیل کمار نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو دوسرے آپشن پر بھی غور کرنا پڑے گا! یہ دوسرا آپشن کیا ہے؟ یہ کھلی جنگ کی دھمکی ہے اور یہ ہمارے لیے کچھ غیر متوقع بھی نہیں۔ جو لوگ بھارتی ذہنیت سے واقف ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک بھارت نے سترہ کروڑ افراد کی اس عظیم مملکت کو ہنوز تسلیم نہیں کیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کا داغ ابھی تک اس کے سینے سے دھواں دیتا ہے، حالانکہ برصغیر کی تقسیم بھارت اور پاکستان کے مفادات کے عین مطابق تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اکثریتیں اپنے اپنے علاقوں میں، اپنے اپنے نظریے کے مطابق کسی فساد اور عناد کے اندیشوں سے بالاتر ہو کر اطمینان کی زندگی گزاریں مگر بھارت نے سکون کا کوئی لمحہ ہمیں گزارنے نہیں دیا، اس نے ہم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا، اس نے کبھی ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارے سبزہ زاروں کو ریگزار بنانا چاہا تو کبھی ہمارے لوگوں میں تعصب کا بیج بو کر فسادات کی آگ بھڑکائی۔
اس نے ہمارے ملک کے حصے بخرے کرنے کی مسلسل سازشیں کیں اور پھر بالآخر ایک دل فگار دسمبر کی سرد رات کو اپنے مکروہ عزائم میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا اور ہمارا ملک دو لخت ہو گیا۔ہمیں یقین ہے کہ تحقیقات کے بعد دنیا کا کوئی دیانت دار مبصر اس وقت جاری کشیدگی کا ذمے دار پاکستان کو نہیں ٹھہرائے گا۔ حیرت اس اَمر پر ہے کہ پینسٹھ سال کی اس کشمکش کے بعد بھی بھارت نے یہ سبق حاصل نہیں کیا کہ پاکستان کو زیر کرنا اور دوبارہ ایک بھارت وَرش تشکیل دینا اب ناممکن ہے۔ اس نزاع کے سبب نہ تو بھارت اپنے پسماندہ علاقوں اور لوگوں کے لیے کچھ کر سکا اور نہ پاکستان کو کچھ کرنے کا موقع دیا۔ دونوں ملکوں کے کثیر عوام ننگے بھوکے رہے اور دونوں ملکوں کا کھربوں روپیہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اسلحے کی خریداری پر جھونکا جاتا رہا۔
اس پیسے کی بدولت یورپ اور امریکا کچھ اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھ گئے اور ہم کچھ اور پستی میں چلے گئے۔پاکستان اور بھارت کے بھی کچھ سنجیدہ حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ امن دونوں ملکوں کی ضرورت ہے، لیکن کچھ بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعتیں اور وہ ممالک ایسا ہرگز نہیں چاہتے جن کے مقاصد پاک بھارت کشیدگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ بہرحال اگر اس بار یہ کشیدگی بنا کسی سنجیدہ حل کے ٹل گئی تو آیندہ چند مہینوں یا سالوں بعد پھر اسی قسم کی صورتحال پیدا ہو جائے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی فیصلہ کن نتیجہ برآمد نہ ہو۔ اس خطے کے لوگ اب اس صورتحال سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ کسی فیصلے کے خواہاں ہیں۔ اب تو کچھ مایوس لوگ یہ تک کہنے لگے ہیں کہ ایک خونیں معرکہ ان دونوں ملکوں پر قرض ہے، اسے چکا دینا چاہیے۔
اس لیے بھارت کے طالع آزماؤں کو دھمکیاں دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ انھوں نے آبِ حیات تو پی نہیں رکھا جو جنگ کی آگ ان کے بدن کو نہ چھوئے گی۔ جنگ چھڑی تو تباہی سب جگہ ہو گی۔ ہاں ہمیں یہ طمانیت تو حاصل ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارے ارادے بدنیتی سے آلودہ نہیں، لیکن بھارت کے پاس تو اس جنونیت کا کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں۔ہمیں چاہیے کہ ایک خود دار قوم کی طرح حالیہ مسئلے کو فیس کریں۔ حق پر ہونے کے باوجود معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا حریف پر اپنی کمزوری ثابت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں چاہیے کہ اپنے ملک میں نا آسودگیوں کے جہنم کو دور کرنے کے لیے بھی کوئی ہنگامی اقدام کریں، خود سے جنگ کریں اور خود کو اس قدر فعال اور محفوظ بنا لیں کہ کوئی حریص نظر آپ کی سمت اٹھنے کی جرأت نہ کر سکے۔