یونس خان ’’لوپروفائل‘‘ سپراسٹار

یونس ایسے کھلاڑی ہیں جو کپتانی کے پیچھے نہیں بھاگے مگر وہ ان کے پیچھے بھاگتی رہی


Saleem Khaliq April 08, 2017
یونس ایسے کھلاڑی ہیں جو کپتانی کے پیچھے نہیں بھاگے مگر وہ ان کے پیچھے بھاگتی رہی . فوٹو: فائل

GENEVA: یونس خان کا کیریئرکسی بالی ووڈ فلم سے کم نہیں،اس میں ایکشن، خوشی، غم، مزاح سب کچھ ہے، سب سے بڑھ کر ہمیشہ ایک سسپنس رہا کہ وہ آگے کیا کریں گے، جیسے ریٹائرمنٹ کی ہی بات ہے، چند ماہ قبل ہی انھوں نے کہا تھا کہ وہ مزید 2 برس کھیلنا چاہتے ہیں ساتھ ہی ایک بار پھر کپتانی سنبھالنے میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا تھا مگر اب ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، بیٹنگ میں انتہائی احتیاط سے کھیلنے والے یونس حقیقی زندگی میں کب کیا کر جائیں کوئی نہیں بتا سکتا، عظیم بیٹسمین کا کیریئر تنازعات سے بھرپور رہا لیکن اگر ان کی کامیابیوں پر نظر ڈالیں تو سب کچھ معاف ہے، پاکستان نے ایک بار ورلڈ ٹوئنٹی 20 جیتا اور اس ٹیم کے کپتان یونس خان ہی تھے، ٹیسٹ کرکٹ میں اب وہ 10 ہزار رنز سے محض 23 رنز کی دوری پر ہیں، ویسٹ انڈیز سے3 میچز کی سیریز میں وہ یہ اعزاز حاصل کر کے کھیل کو شاندار انداز میں الوداع کہیں گے۔

یونس کے کیریئر پر راشد لطیف کا خاصا عمل دخل رہا، دونوں کے مزاج بھی ایک جیسے ہیں، غلط بات کرنے والا چاہے کتنا ہی بڑا انسان ہو اس کیلیے معافی نہیں ہے، راشد سے یونس نے کچھ اور سیکھا یا نہیں مگر ایمانداری ضرور سیکھی، اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا وہ کون سا ایسا کھلاڑی ہے جس نے کبھی اپنے ملک سے غداری نہیں کی اور فکسنگ وغیرہ سے دور رہا تو میں ایک لمحے بھی سوچے بغیر یونس خان کا نام لوں گا، صاف گوئی نے انھیں کیریئر میں ہمیشہ نقصان پہنچایا، بورڈ حکام سے ان کی بالکل نہیں بنی، چھوٹی باتوں پر روٹھ جانا یونس کی خامی تھی، شہریارخان نے ملاقات کیلیے انتظار کرایا تو کپتانی چھوڑ دی جس کی وجہ سے اپنے پہلے دور میں وہ چیئرمین پی سی بی کے عہدہ سے بھی محروم ہو گئے تھے، اعجاز بٹ سے بھی تعلقات کشیدہ رہے، غیرمعینہ مدت کیلیے پابندی لگی تو بیٹ چھوڑ کر فائلز ہاتھوں میں تھامے سماعت بھگتتے رہے، پھر بطور چیئرمین نجم سیٹھی کے دور میں جب سینٹرل کنٹریکٹ کی اے کیٹیگری سے باہر ہوئے تو بھی ناراض نظر آئے۔

مجھے خوشی ہے کہ اس وقت سیٹھی صاحب میری تجویز پر کنٹریکٹ کے طریقہ کار میں معمولی تبدیلی کرتے ہوئے یونس کو اے کیٹیگری میں لے آئے تھے جس سے تنازع ختم ہوا، یونس نے پیسوں کو کبھی اہمیت نہیں دی، وہ بہت سادہ سے انسان ہیں، ہاں اپنے وقار پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا، وقار سے یاد آیا وقار یونس سے ان کی کبھی نہیں بنی، ان کے دور کوچنگ میں وہ ٹیم میں اپنی جگہ خطرے میں محسوس کر رہے تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اختتامی دور میں فارم بھی ان کی طرح ہو گئی تھی کبھی روٹھ جاتی تو کبھی مان جاتی، جیسے گزشتہ برس انگلینڈ کا پورا دورہ ناکام رہا مگر آخری ٹیسٹ میں ڈبل سنچری کر کے ٹیم میں جگہ بچالی، پھر آسٹریلیا میں متواتر ناکامیوں کے بعد آخری ٹیسٹ میں 175رنز کر دیے، ابھی وہ 39 برس کے ہیں، اگر مصباح الحق کو سامنے رکھیں تو مزید 4سال اور کھیل سکتے تھے مگر یونس نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ، وہ جانتے تھے کہ یہاں سب چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، ابھی چند میچز میں ناکام رہے تو ٹیم سے نکالنے کی باتیں شروع ہو جائیں گی،شاید اس لیے اپنے شرائط پر عزت سے ریٹائر ہونے کو ترجیح دی۔

2009 میں وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے بعد مختصر طرزکے کھیل سے علیحدہ ہو گئے تھے، مگر عمران خان بننے کی وہ کوشش ان کے زیادہ کام نہیں آسکی تھی، ویسے تو یونس خان ہمیشہ ملک کیلیے کھیلے لیکن گزشتہ1،2برس کے دوران انفرادی چیزوں کو بھی فوقیت دینے لگے تھے، جیسے ورلڈکپ کے بعد جب وہ ون ڈے ٹیم سے ڈراپ ہوئے تو واپسی کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا پھر جب کم بیک کیا تو ایک میچ کھیل کر ریٹائر ہو گئے، اناپرستی کی اس سے بڑی مثال کوئی اور کیا ہو سکتی ہے، درمیان میں سیریز چھوڑنے سے ان کے کیریئر پر ایک منفی داغ لگا، غصے نے بھی انھیں نقصان پہنچایا، گزشتہ برس پاکستان کپ میں امپائر سے الجھ بیٹھے، ابھی حال ہی میں کیمپ کے دوران بھی میچ میں ایسا ہی ہوا، ماضی میں کپتان انضمام الحق سے فٹبال کھیلتے ہوئے الجھ پڑے تھے، شاید یہی وجوہات ہیں کہ جتنے ان کے کارنامے ہیں اتنی پذیرائی نہیں ملی،انھیں ایک ''لوپروفائل'' سپراسٹار ہی کہا جا سکتا ہے۔

موجودہ چیف سلیکٹر انضمام الحق سینئرز کو زیادہ پسند نہیں کرتے، جیسے سلیکشن کمیٹی میں انھوں نے ہاں میں ہاں ملانے والے لوگ رکھے ہوئے ہیں اسی طرح ٹیم میں بھی چاہتے ہیں، مصباح کے ساتھ انھوں نے یونس کو بھی پیغام پہنچا دیا تھا کہ ہمیں نئی ٹیم بنانی ہے اپنا سامان پیک کرلو، شاید یونس نے اسے محسوس کر لیا اسی لیے یہ فیصلہ کیا، پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کو مصباح اور یونس نے طویل عرصے سنبھالے رکھا اب دونوں کے ایک ساتھ جانے سے یقیناً مسائل تو ہوں گے، بیٹنگ ویسے ہی نازک مزاج ہے، اسے سنبھالنے کی ذمہ داری اظہر علی اور اسد شفیق کو نبھانی پڑے گی۔ یونس کوچنگ میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں، وہ نوجوان پلیئرز کیلیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں، اسد شفیق، اظہرعلی اور شان مسعود سمیت قومی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں پر ان کا گہرا اثر ہے، سب یونس کی کمی محسوس کریں گے، یونس نے رنز تو بہت بنائے مگر دوست کم بنائے، ماضی میں شاہد آفریدی سے ان کی بہت دوستی تھی مگر پھر تعلقات میں دراڑ آ گئی، جب وہ کپتان تھے تو ساتھیوں نے ان کیخلاف علم بغاوت بھی بلند کیا جس کا انھیں بہت رنج تھا۔

یونس ایسے کھلاڑی ہیں جو کپتانی کے پیچھے نہیں بھاگے مگر وہ ان کے پیچھے بھاگتی رہی، کئی بار انھوں نے ازخود عہدہ چھوڑا،بعد میں بورڈ حکام ڈرنے لگے کہ اسے قیادت سونپی تو پھر چھوڑ دے گا اس لیے پھر موقع نہ ملا، البتہ بطور کھلاڑی وہ ریکارڈز پر ریکارڈز بناتے رہے، پاکستانی بیٹنگ کے بیشتر اعزاز انہی کے پاس ہیں، دنیا ہمیشہ انھیں ایک عظیم بیٹسمین کے طور پر یاد رکھے گی، بورڈ نے ماضی میں انھیں بیشتر وقت نظر انداز کیا اب جاتے ہوئے بہترین انداز میں رخصت کرنا چاہیے تاکہ کچھ تو ازالہ ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔