جعلی ڈگری اسکینڈل ایگزیکٹ کے اہم افسر کا امریکی عدالت میں اعتراف جرم

ملزم عمیر حامد ایگزیکٹ کا اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ انٹرنیشنل ریلیشنزتھا جس پر جعلی ڈگریوں اور 14 ارب روپے فراڈ کاالزام ہے۔


ویب ڈیسک April 08, 2017
ملزم عمیر حامد ایگزیکٹ کا اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ انٹرنیشنل ریلیشنزتھا جس پر جعلی ڈگریوں اور 14 ارب روپے فراڈ کاالزام ہے۔ فوٹو؛ فائل

دو سال قبل نیویارک ٹائمز میں منظر عام پر آنے والے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل پر امریکا میں بڑی پیشرفت سامنے آ گئی اور ملزم عمیر حامد نے عدالت میں اعتراف جرم کرلیا۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایگزیکٹ اسکینڈل میں گرفتار اہم ملزم عمیر حامد نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے جب کہ ملزم عمیر حامد ایگزیکٹ کا اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ انٹرنیشنل ریلیشنز تھا جس پر جعلی ڈگریوں اور 14 ارب روپے فراڈ کاالزام ہے، امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ملزم کو 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے تاہم سزا کا فیصلہ متعلقہ جج ہی سنائیں گے۔

دوسری جانب ایگزیکٹ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں کام شروع کردیا لیکن ایف آئی اے خاموش تماشائی بن کر رہ گیا، دو سال پہلے جعلی ڈگریوں کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا جس نے ایگزیکٹ کے دفاتر سے جعلی ڈگریاں برآمد کیں لیکن 6 ماہ بعد پراسرار طور پر اچانک ایف آئی اے کی تحقیقات میں پیشرفت رکنا شروع ہو گئی۔ مقدمے کے چار پراسیکیوٹرز نے پراسرار طور پر استعفیٰ دے دیا۔ان میں سے ایک کے گھر پر بم دھماکا بھی ہوا جب کہ ایک نے جج کو اپنے استعفے میں لکھا کہ اس پر بہت دباؤ ہے اور وہ اپنے ضمیر کی آواز پر یہ مقدمہ مزید نہیں لڑ سکتا۔

ایگزیکٹ اسکینڈل کی تحقیقات میں عالمی سطح پر گواہوں کے رابطے اور تعاون سمیت تمام تر تحقیقات روک دی گئیں، امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی اور امریکی وزارت خزانہ نے ایگزیکٹ کو فراڈ قرار دیا اور پاکستانی عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے شواہد بھی ایف آئی اے کے حوالے کئے۔ بعض وجوہات کی بنا پر یہ شواہد پاکستانی عدالتوں میں پیش نہیں کئے گئے، مقدمے کے دوران اکثر اوقات ایف آئی اے کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا، ڈیڑھ سال بعد بھی مقدمے پراصل کارروائی شروع نہیں ہو سکی،عدالت کی جانب سے ایگزیکٹ کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرنے کے حکم کے باوجود صرف آدھے اکاؤنٹس منجمد کئے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔