سیاست اور فوج
ہماری افواج روز اول سے ہی مملکت پاکستان کی نگہبانی کر رہی ہیں
صحافت کے ابتدائی دنوں میں اس وقت کے جید صحافی استادوں نے ایک نصیحت کی تھی کہ دو اداروں کے بارے میں خبر دینے سے پہلے اس کی ہر ممکن تصدیق کر لینا، ان میں سے ایک ہماری فوج اور دوسری عدلیہ، ان کی اس نصیحت کو میں نے آج تک پلے باندھ رکھا ہے کیونکہ شاید وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ گاؤں کا کھلنڈرا نوجوان اپنی جوانی کی مستی میں اپنے صحافت کے ابتدائی دور میں ہی کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھے جس سے اس کا کیریئر ہی خراب ہو جائے یا وہ ان دیکھی مشکلات کا شکار ہو جائے۔
انھی استادوں کی بدولت ہم پرانے صحافیوں نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا اور کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے دی جو کہ خود ہمارے لیے یا ہمارے ادارے کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔ اسی احتیاط کی بدولت اخبار نویسی کے دور میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا سوائے ایک دفعہ کے جب میں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جنرل نیازی کے بارے ایک کالم لکھا جس میں اس ریوالور کی واپسی کا ذکر تھا جو انھوں نے بھارتی جنرل کے حوالے کیا تھا۔ اس پر جنرل نیازی نے میرے خلاف عدالت میں ہتک عزت اور ہرجانے کا کیس کر دیا۔ اس پر میں نے ایک اور جذباتی کالم لکھا کہ میں مال روڈ پر ریگل چوک میں جھولی پھیلا کر کھڑا ہو جاؤں گا اور قوم سے چندہ اکٹھا کر کے یہ ہرجانہ ادا کروں گا۔ وہ وقت اخباری صحافت کے عروج کا تھا، جس پر مجھے عوام کی جانب سے بھر پور تعاون بھی ملا، یہ ایک لمبی داستان ہے پھر سہی۔
ہماری افواج روز اول سے ہی مملکت پاکستان کی نگہبانی کر رہی ہیں۔ سرحدی محاذ ہوں یا مسلم امہ کی ترجمانی کا کوئی موقعہ ہو انھوں نے اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کیا ہے۔ ہم تو ایک طرف اپنے دشمن ہمسایہ کے ساتھ مسلسل نبردآزما رہے ہیں اور دوسری طرف برادر اسلامی ملک افغانستان کی سرحدوں کی حفاظت بھی ہم نے کی ہے، تو یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ہماری افواج نے پاکستان کے خلاف ہر محاذ پر دفاع کیا اور اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے قربانیاں دی ہیں لیکن برا ہو ہمارے ان اتحادی دوستوں کا جنہوں نے ہمیں ہر مشکل وقت میں اکیلا چھوڑ دیا۔
اسی بات کی ترجمانی کرتے ہوئے افواج پاکستان کے ترجمان نے لندن میں کہا ہے کہ ہمارے اہم اتحادی امریکا نے ایک دفعہ پھر ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ ابتدا میں ہماری نہیں تھی امریکا نے اس کی ابتدا روس کے خلاف ہمیں استعمال کر کے کی، طالبان بنائے گئے اور جب ان کے اپنے اہداف حاصل ہو گئے تو وہ حالات ٹھیک کیے بغیر واپس چلے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس نے دہشتگردی کو شکست دی ہے۔ ان کا امریکا سے یہ گلہ بجا ہے کیونکہ ہم نے امریکا کا ساتھ برادر اسلامی ملک افغانستان کی سلامتی کے لیے دیا اور روس جو کہ پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا اس کو دریائے آمو کے پار واپس دھکیل دیا۔ یہی طالبان ایک بار پھر متحرک ہوئے تو امریکا جو کہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے اس نے ایک بار پھر پاکستان کی مدد چاہی اور انکار کی صورت میں پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی بھی دی گئی۔
اس وقت کے ہمارے فوجی حکمرانوں نے ایک بار پھر پاکستان کی سلامتی کے لیے ان کا ساتھ دیا لیکن پھر امریکا نے غیر ذمے دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جو کہ کسی بھی صورت میں ہماری نہیں تھی لیکن اس کی وجہ سے ہم نے بے پناہ نقصانات اٹھائے، ہم ایک ہی سوراخ سے دوسری بار ڈسے گئے۔
افواج پاکستان نے سیاسی مشاورت سے ملک کو ان شر پسند عناصر سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور ضرب عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا گیا جس میں ہمارے بہادر جوانوں اور افسران نے جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرپسندوں کی کمر توڑ دی اور ان کا خاتمہ ممکن بنایا بلکہ ہمارے شمالی علاقہ جات کو وہاں کے رہنے والوں کے لیے پُرامن بھی بنا دیا۔ اسی جذبے کے تحت دوسرے مرحلے میں آپریشن رد الفساد جاری ہے اور اب ان شر پسندوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ اس آپریشن کے دوران ہمارے فوجی جوان اور افسران ہی ہیں جنہوں نے ملک میں امن اور استحکام کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے اور امر ہو گئے۔ انھوں نے اپنا آج ہمارے سامنے ہمارے کل پر قربان کر دیا۔
امت مسلمہ نے بھی اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ پاکستان کی جانب ہی دیکھا ہے اور ہم نے بھی کبھی ان کو مایوس نہیں کیا۔ اب اسلامی فوجی اتحاد جو کہ استعماری قوتوں کو کھٹک رہا ہے اس کی سربراہی کے لیے بھی ہمارے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو چنا گیا ہے اور حکومت کی منظوری سے ان کی تقرری بھی کر دی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف اسلامی ممالک کو قریب لانے میں معاونت ملے گی بلکہ اسلامی بلاک بنانے کی جانب بھی پیشرفت ہو گی اور جو جارحیت امریکا کی جانب سے مختلف اسلامی ممالک میں کی جا رہی ہے اس کا سد باب بھی ممکن ہو سکے گا، مختلف حلقوں کی جانب سے اس اتحاد پر رائے زنی جاری ہے جو کہ قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی تو یہ اتحاد نوزائیدگی کے مراحل میں ہے۔ ہمیں اس کی نگہبانی انتہائی توجہ سے کرنی ہو گی اور شروع میں ہی اس کو متنارع کر دینے سے اس کے اصل مقاصد کو ٹھیس پہنچے گی۔
اندرونی خلفشار ہو یا بیرونی جارحیت یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری فوج ہر محاذ پر ہمیشہ کامیابی سے ڈٹی رہی ہے، ملک میں کئی سالوں کے بعد ہونے والی مردم شماری کے لیے بھی ہمارے جوانوں نے ہی اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور لاہور میں ہونے والے افسوناک واقعہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔
مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ ہمارے گورنر سندھ جو کہ ایک سابق فوجی جنرل کے فرزند ہیں جن کے بارے میں بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے کہ ان کا سقوط ڈھاکا میں کیا کردار تھا گورنر موصوف فرماتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی میں آپریشن کا تمام تر کریڈٹ ہمارے وزیر اعظم کو جاتا ہے اور جنرل راحیل شریف تو ایک عام انسان اور ایک عام سے جنرل تھے۔ وہ شاید یہ بات بھول گئے کہ کراچی میں امن و امان کا مسئلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور ہمارا دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتا۔
یہ افواج پاکستان ہی ہیں جنہوں نے اس پرانے مرض کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اب کراچی کے شہری سکون کا سانس لے رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہر تہوار پر چاہے وہ عید کا ہو یا خوشی کا کوئی بھی موقع میں نے اپنے سابق سپہ سالار کو جوانوں کے درمیان سرحدوں پر ہی پایا۔ مجھے حیرانگی ہے کہ انھوں نے کس ترنگ میں آ کر یہ بیان داغا ہے کیونکہ اس دوران کئی سیاسی حکومتیں آئیں لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔ حکومتی وزیر اس کو ان کی ذاتی رائے کہہ رہے ہیں لیکن یہ خطرناک رائے ہم ہضم نہیں کر پا رہے اور لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔
میرے قارئین نے یہ گلہ کیا ہے کہ میں نے مشہور و معروف پانامہ کیس پر ابھی تک کچھ نہیں لکھا ان سے عرض ہے کہ وہ جمع خاطر رکھیں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔