پیپلزپارٹی کا دوسرا وزیراعظم بھی مشکلات میں
آئینی و قانونی طور پر وزیر اعظم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے انھیں استثنٰی حاصل نہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے کرائے کے بجلی گھروں کے قیام میں بدعنوانی اور کرپشن کے دو مقدمات کے ملزمان کی گرفتاری کے احکامات نے ایک مرتبہ پھر ملک کے طول و عرض میں غیریقینی صورتحال پیدا کردی، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان مقدمات کے ملزمان کی فہرست میں وزیراعظم پاکستان اور سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویزاشرف بھی شامل ہیں۔
جیساکہ ہمارے میڈیا کا عمومی رویہ بن چکا ہے کہ کسی خبر کے ممکنہ اثرات سے صرف نظر کرتے ہوئے سنسنی خیزی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، لہٰذا اس خبر کو اس طرح سے پیش کیا گیا جیسے وزیراعظم کی گرفتاری کیلئے پولیس روانہ ہوچکی ہو۔ اس خبر کے پھیلتے ہی کراچی کی سٹاک مارکیٹ 525 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ کریش ہوگئی۔ اس بارے میں اہم بات یہ ہے کہ 15جنوری کو کچھ ایسا مواد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جو قبل ازیں عدالت کی دسترس میں نہیں تھا۔ اس روز نیب کی جانب سے پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ بعض قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ جس روز یہ احکامات دیئے گئے ۔
اس روز حکومت اور نیب کے وکلاء عدالت میں موجود نہیں تھے اور انہوں نے ان احکامات سے پہلے اپنا موقف عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے آرڈرز کے مطابق نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 17جنوری (آج) تک ملزمان کو گرفتار کرکے رپورٹ پیش کرے۔ دوسری طرف گرفتاری کیلئے نیب کو جس طریقہ کار پر عمل کرنا ہے اس کو مکمل کرنے کے لئے 24گھنٹے کا وقت بالکل ناکافی ہے۔ مزید یہ کہ چیئرمین نیب کے پاس ایسے بہت سے طریقے ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ مزید تاخیر کرسکتے ہیں۔ وزیرقانون فاروق نائیک کا بھی یہی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے گرفتاری کا حکم نہیں دیا کیونکہ گرفتاری صرف چیئرمین نیب کی منظوری سے ممکن ہے اور تاحال انہوں نے ایسی کوئی منظوری نہیں دی۔
سپریم کورٹ کے اس حکم کے اثرات اس لئے بھی بہت شدید تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔ انہوں نے اس عدالتی حکم کو اپنی پیش گوئیوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ عوامی حلقوں میں فیصلے کے وقت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا اور بعض تجزیہ نگاروں نے ان دو واقعات کو باہم منسلک کرنے کی کوشش کی جو عدالت عالیہ کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش تھی لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ تاثر زائل ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ روز سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات اور میڈیا کے عمومی رویئے سے اس بات کی ضرورت کا احساس ایک مرتبہ پھر پیدا ہوا ہے کہ اہم واقعات کے حوالے سے عُجلت میں حتمی نتیجہ اخذ کرلینا درست بات نہیں۔
گو کہ عدالت عالیہ نے وزیراعظم سمیت کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے میں شامل تمام ملزمان کی گرفتاری کے احکامات صادر کردیئے ہیں لیکن عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کے لئے قانون کے تمام تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ ان تقاضوں میں ایک اہم اور لازمی تقاضا چیئرمین نیب سے ان گرفتاریوں کی اجازت حاصل کرنا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق چیئرمین نیب اگر چاہیں تو وزیراعظم کے خلاف چالان کی کارروائی کو مختلف حیلوں بہانوں سے کئی ہفتے تک ٹال سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر چیئرمین نیب استعفیٰ دے دیں تو تمام کارروائی رک جائے گی کیونکہ چیئرمین کی منظوری کے بغیر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا۔ قانون کے مطابق چیئرمین نیب پیش کئے جانے والے کسی ریفرنس کو منظور کرنے یا رد کرنے کے حتمی اختیارات رکھتے ہیں۔
دوسری جانب نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رانا عامر عباس کا موقف ہے' جو کرائے کے بجلی گھروں کے معاملات میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات پر مامور تھے اور انہیں معطل کردیا گیا تھا۔ عام تاثر یہ ہے کہ رانا عامر عباس کو دیانتداری کے ساتھ تحقیقات کرنے کی پاداش میں فارغ کیا گیا۔ عامر عباس کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم سے مراد یہ ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ متعلقہ حکام کو پیش کرکے ریفرنس دائر کرنے کی منظوری حاصل کی جائے اور تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے جن میں وزیراعظم بھی شامل ہیں جبکہ اس بات کو عامر عباس بھی درست قرار دیتے ہیں کہ چیئرمین نیب ملزمان کے خلاف کارروائی میں تاخیر کرسکتے ہیں۔
عدالت کے اس حکم کے ردعمل میں پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر قانون کے احترام کے برعکس رویہ اختیار کیا اور مختلف شہروں میں اِس کے خلاف مظاہرے کیے گئے حالانکہ قانونی معاملات سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ قانونی راستے موجود ہوتے ہیں۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ان احکامات پر فوری عملدرآمد کا امکان نہیں ہے کیونکہ قانونی طور پر ایسے راستے موجود ہیں جن پر عمل کرکے گرفتاری کے فوری خطرے کو بآسانی ٹالا جا سکتا ہے۔
دسمبر 2009ء کو سید فیصل صالح حیات بھی مقدمے میں مدعی بن گئے تھے جبکہ ایک درخواست ن لیگ کے خواجہ آصف نے بھی دائر کی تھی ۔ فیصل صالح حیات نے اپنے اس مقدمے کی پیروی بھی خود کی۔ مقدمے میں الزام ہے کہ اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک مافیا کی ملی بھگت سے پاکستان میں 19رینٹل پاور پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا جس کے باعث جو بجلی 80پیسے فی یونٹ کے حساب سے مل سکتی تھی'10روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔ فیصل صالح حیات کا دعویٰ ہے کہ 8پاور پلانٹ لگانے کے مراحل میں 30ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔
اس معاملے کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات تو اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ عوام کو بجلی کے معاملے میں شدید ترین عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اب اس بات کو اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ پیپلزپارٹی کے اس دور میں جن دو شخصیات کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا اور ایک شخصیت جسے وزیراعظم کے عہدے کے لیے چنا گیا تینوں شخصیات پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ مخدوم شہاب الدین جنہیں یوسف رضا گیلانی کے بعد وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا وہ بھی ایفی ڈرین مقدمے میں ملزم تھے جبکہ اب راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کے خطرے کا سامنا ہے۔
موجودہ صورتحال میں جو بات پیش نظر رکھنا سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام اہم اداروں اور سیاسی قوتوں کو اس بات کا احساس ہے کہ انتخابات اب محض چند مہینوں کی بات ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعت بھی وقت پر الیکشن کرانے پر آمادہ ہے۔ حزب اختلاف کی تمام اہم جماعتیں بھی اس بات پر یکسو ہیں کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ایسی صورتحال میں موجودہ حکومت کو قبل از وقت رخصت کرنے کی کسی کوشش کو درکار حمایت میسر نہیں آئے گی۔
رینٹل پاور عمل درآمد کیس کیا ہے؟
مئی 2008 میں جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اُس وقت کے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائی تو راجہ پرویز اشرف کے حصے میں جو قلم دان آیا وہ وزارت پانی و بجلی کا تھا، وفاقی وزیر بنتے ہی راجہ پرویز اشرف نے ایک پالیسی بیان کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ حکومت 2200 میگاواٹ پیداوار دینے والے 19 بجلی گھر کرایے پر حاصل کر رہی ہے جو اسی سال (2008) کے آخر میں پیداوار دینا شروع کر دیں گے۔ اُس وقت ملک کو 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی کے اِس اعلان کو عوامی حلقوں میں بہت زیادہ قبولیت ملی لیکن دوسری جانب اِن رینٹل پاورز پلانٹس سے متعلق تکنیکی پہلوئوں سے واقف ماہرین نے جب شکوک و شبہات کا اظہار کیا تو فضا بگڑنے لگی۔ ماہرین نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں مگر دوسری جانب راجہ پرویز اشرف کی وزارت نے اخبارات اور عوامی مباحثوں کے ذریعے اٹھنے والے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے 19 بجلی گھروں کے حصول کے معاہدے کر لیے۔
جب وزارت پانی و بجلی کی جانب سے اعلان کردہ یہ منصوبے اور اُن کی تفصیلات فیصلہ سازی کے قانونی طریقہ کار کے تحت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئیں تو یہ معاملہ اُس وقت کھٹائی میں پڑتا نظر آیا، کیوں کہ اُس وقت کے وزیر خزانہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ شوکت ترین نے اِن معاہدوں پر بعض اعتراضات کیے تھے اور اُن کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں وزارتِ پانی و بجلی سے وضاحت طلب کر لی تھی۔ اِس جوابی طلبی پر راجہ پرویز اشرف کی وزارت نے جو دستاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی تھیں، شوکت ترین کے مطابق اُن میں بہت سنگین غلطیاں موجود تھیں، شوکت ترین کی کمیٹی نے اِن معاہدوں پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد جو اعتراضات اٹھائے تھے اُن کے مطابق یہ بجلی گھر اُتنی بجلی پیدا نہیں کر پائیں گے جتنی وزارت پانی و بجلی کو توقع تھی، کیوں کہ ان میں سے بعض بجلی گھر 25 سال تک پرانے تھے جو اپنی کل صلاحیت کا صرف 35 فی صد تک ہی پیداوار دے سکتے تھے۔
اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ بھی کہا تھا کہ اِن معاہدوں میں بجلی کے جو نرخ طے کیے گئے ہیں وہ مارکیٹ کے نرخ سے بہت زیادہ ہیں اگر ان نرخوں پر یہ 22 سو میگاواٹ بجلی نظام میں شامل کی گئی تو بجلی کے نرخوں میں براہ راست 30 فی صد تک اضافہ ہو جائے گا۔ شوکت ترین نے تیسرا اعتراض یہ بھی اُٹھایا تھا کہ یہ معاہدہ کرتے وقت وزارت پانی وبجلی نے اس بارے میں سرے سے غور و خوض ہی نہیں کیا کہ اِن بجلی گھروں کو گیس اور تیل کہاں سے فراہم کیا جائے گا، اِن میں سے بعض بجلی گھر ایسی جگہوں پر نصب ہو رہے تھے جہاں نہ گیس پائپ لائن تھی اور نہ ہی اتنی بڑی سڑک تھی جس کے ذریعے تیل کی بلا روک ٹوک فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔
اُس وقت کے وزیر خزانہ نے یہ اعتراضات 2009 میں کابینہ کے سامنے رکھے تھے جہاں اِن منصوبوں کے خالق راجہ پرویز اشرف نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔ اِس پر دونوں جانب سے گرما گرم بحث کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تھیں لیکن طے یہ پایا تھا کہ نجی بجلی گھروں کے حصول کے لیے غیر ملکی کمپنیوں اور وزارت پانی و بجلی کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا تکنیکی جائزہ ماہرین کے ذریعے لیا جائے گا۔ اِس مقصد کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جنہوں نے چند ماہ بعد اپنی رپورٹ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حوالے کر دی تھیں مگر اِس دوران رینٹل پاور منصوبوں کے نام سے یہ موضوع میڈیا میں زیرِ بحث رہا۔ اور بعض سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی جانب سے ان منصوبوں میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات بھی سامنے آتے رہے۔ یہ معاملہ میڈیا میں اُچھالنے والوں میں اُس وقت کی حزب اختلاف اور آج کی حزب اقتدار میں شامل فیصل صالح حیات اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف پیش پیش تھے۔
ایشیائی ترقیاتی بنک کے ماہرین نے ان منصوبوں میں بدعنوانی کے بارے میں لب کشائی نہیں کی تھی لیکن سرکاری ذرائع نے اِس رپورٹ کے جن مندرجات سے متعلق صحافیوں کو آگاہ کیا تھا ان کے مطابق شوکت ترین کی جانب سے اٹھائے گئے تقریباً تمام نکات درست ثابت ہوئے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کی روشنی میں شوکت ترین کی کمیٹی نے 19 میں سے 5 منصوبوں کومنسوخ کرنے اور 6 پر نظرثانی کی سفارش کی تھی۔
جن دنوں یہ صورت حال عروج پر تھی، انہی دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی کے بحران اور کرایے کے بجلی گھروں میں بے ضابطگیوں کے معاملے پر از خود نوٹس لے لیا تھا اور یوں یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے چلا گیا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان میں 90 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں نے پیداوار دینی شروع کر دی تھی اور حکومت کرایے کی بجلی حاصل کرنے پر 90 ارب روپے خرچ بھی کر چکی تھی، یاد رہے کرایے کے بجلی گھروں کا تصور راجہ پرویز اشرف سے پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی پیش کر چکے تھے اور ان کے دور میں بھی کرایے کے دو بجلی گھر لگائے گئے تھے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں کرایے کے بجلی گھروں کی تنصیب کے معاہدوں پر ماہرین کی آراء کو جواز فراہم کر دیا تھا، ماہرین نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ یہ معاہدے ناقابل عمل ہیں اور اس سے ملک کو فائدے کی بجائے نقصان ہو گا اور دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کرایے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی اور ملک میں بجلی کے بحران کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کرایے کے بجلی گھروں کے حصول کے لیے بہت جلد بازی سے کام لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سال 2008 سے حکومت اور کرایے کے بجلی گھروں سے متعلق تمام معاہدے منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا اور نیب سے کہا تھا کہ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ 15 جنوری کو رینٹل پاور عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب آج 16 جنوری کو عدالت میں پیش کرے اور اگر اِس دوران وزیراعظم سمیت کوئی بھی ملزم بیرون ملک فرار ہوا تو اِس کا ذمہ دار چیئرمین نیب ہو گا۔
از خود سماعت سے متعلق یہ کیس قریباً ساڑھے چار سال کے بعد ملک کے وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم پر اختتام پذیر ہوتا نظر آ رہا ہے، آگے کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں بہتر آراء کوئی قانونی ماہر ہی دے سکتا ہے۔
کرائے کے بجلی گھروں میں کرپشن کے الزامات پر ہونے والی تحقیقات مکمل ہوچکی ہے۔تفتیشی افسر نے تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق اور شواہد ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی کو پیش کردیے ، جنھوں نے ان حقائق وشواہد کو ملزمان کے خلاف ریفرنس دائرکرنے کی غرض سے آگے نیب ہیڈ کوارٹرزاسلام بھیج دیاہے۔نیب کے ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس میں چیرمین نیب اس ریفرنس کی منظوری دیں گے۔اس کے بعد یہ یہ ریفرنس کسی احتساب عدالت میں دائر کیا جائے گا، جو ابتدائی سماعت کے بعد ملزمان پر کرپشن کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کرسکے گی۔اس کے بعد نیب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے یابعد میں ریفرنس میںنامزد ملزمان کو گرفتار کرلے۔ملزمان کو کسی فاضل عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کا حق حاصل ہے۔
کچھ تذکرہ نیب کا
جنرل پرویزمشرف نے12اکتوبر1999ء کو جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو انھوں نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے بڑے بلند وبانگ دعوے کئے۔16نومبر1999ء کوقومی احتساب بیورو(National Accountability Bureau) کے نام سے وہ ایک ادارے کا قیام عمل میں لائے۔ لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجدحسین نیب کے پہلے چیئرمین بنے، ان کی سربراہی میں ادارے نے درست سمت میں سفر کا آغازکیا، جس سے امید بندھی کہ شاید ملک میں پہلی بار غیر جانبدار انہ احتساب کی بنیاد پڑ جائے۔
لیکن احتساب کی زد میں جب طاقتورافراد آئے تو انھوںنے مقتدر حلقوں سے اپنے روابط کو بروے کار لاتے ہوئے، نیب کی تحقیقات پراثرانداز ہونے کی کوشش کی، اور جب نیب کو ان عناصر کے خلاف ''ہتھ ہولا ''رکھنے کوکہا گیا تو نیب کے دیانت دار چیئرمین جنرل سید امجد کو یہ گوارا نہ ہوا اور انھوں نے عہدہ ہی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جو چیئرمین آئے، ان کے دور میں نیب سیاسی اثرسے پاک نہیں رہ سکا اور اس ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی گئی۔ نیب اب فوجی حکمران کے مقاصدکے تابع ہوگئی، جو سیاست دان حکومتی پارٹی میں شامل ہوگیا، اسے کرپشن کے باوجودمعافی مل گئی۔
اور وہ جو آمرکی مخالفت کررہے تھے، ان میں سے کئی ایک پر بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے۔ سب کمزوریوں کے باوجود نیب بہت سے کرپٹ سیاست دانوں، بڑے سرکاری افسروں اور بزنس مینوں سے پیسے نکلوانے میں کامیاب رہا لیکن شفاف اور غیر جانبدارانہ احتساب کی مستحکم روایت قائم کرنے میں ناکام رہا۔ صدر مشرف کادور ختم ہوا اور پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت آئی۔ اس سے قبل چارٹر آف ڈیمو کریسی میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس نکتے پر اتفاق کیا تھا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ماضی کی روایات کے برعکس آئندہ سے نیب کے ادارے کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور حکومتی اثر و رسوخ سے پاک غیر جانبدار ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ لیکن موجودہ دور میں بھی نیب حکومتی اثر کے تحت کام کرنے کی اپنی پرانی روش پر چلتا رہا ۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کی وجہ سے اس حکومت کے دور میں بھی نیب سے کچھ اچھے کام ہوگئے ۔موجودہ حکومت نے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے دیدار حسین شاہ کو نیب کا چیئرمین بنادیا، جن کو سپریم کورٹ کے حکم پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جس پر پیپلز پارٹی نے سندھ بھر میں احتجاج کیا۔ ان سے پہلے شوکت عزیز کے دور میں نیب کے چیئرمین بننے والے نوید احسن نے اپنے عہدے سے استعفا دیا تھا۔ وہ حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کا کہتے رہے لیکن حکومت نے کان نہ دھرے، جس پر وہ مایوس ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے کئی بارحکومت پر زور دیا کہ وہ کسی غیرجانبدار شخص کو نیب کا چیئرمین بنائے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کو تسلیم کرنے میں نیب لیت ولعل سے کام لیتا رہا ، تاخیری حربے آزمانے پرنیب کے افسروں کو کئی بار سپریم کورٹ کی سرزنش کا سامنا بھی رہا۔ جس کی تازہ ترین مثال رینٹل پاور کیس میں دیکھنے کو ملی، جب چیف جسٹس نے کہا کہ 'تعجب ہے ملزموں کی وکالت نیب کررہا ہے۔' 10اکتوبر2011ء کو صدر آصف علی زرداری نے پاک بحریہ کے سابق سربراہ فصیح بخاری کو نیب کا چیئرمین بنایا ، جو اچھی شہرت کے مالک ہیں۔
اس لیے ان کی تقرری پرکم ہی اعتراض کیا گیا۔ وہ کبھی کبھار ایسا موقف بھی اختیار کرلیتے ہیں، جو حکومت کو ناگوار گزرتا ہے، جیسے کچھ عرصہ جب انھوں نے کہا کہ پاکستان میں یومیہ چھ سے سات ارب کی کرپشن ہو رہی ہے تو حکومت اس سے برافروختہ ہوئی،اور وفاقی کابینہ کے بعض ارکان نے تو چیئرمین نیب سے جواب طلبی کا مطالبہ کردیا۔فصیح بخاری کرپشن کے خاتمے کے لیے سرگرم تو ہیں لیکن وہ اب تک کچھ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے کرپشن روکنے کے سلسلے میں جوہری تبدیلی کا امکان پیدا ہو۔ سپریم کورٹ کی طرف رینٹل پاور کیس میں ملزمان کی گرفتاری کے حکم نے فصیح بخاری کو خاصا مشکل میں ڈال دیا ہے، جس کے بعدان کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی گردش میں رہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟
آئینی و قانونی ماہر ہمایوں احسان نے سپریم کورٹ کے رینٹل پاور کیس کے فیصلے حوالے سے کہا ''سپریم کورٹ آئین و قانون کی تشریح کرتی ہے اوروہاں جو فیصلے کئے جاتے ہیں وہ قانون بن جاتے ہیں اور پھر یہی فیصلے لاء کی کتابوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اگر میں بطور پروفیسر بات کروں تو یہ کہوں گا کہ میرا فرض ہے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلے کرے تو اسے عین ویسے ہی طالبعلموں کو پڑھائوں، دوسری بات یہ کہ عدالت جو بھی فیصلے کرتی ہے وہی ٹھیک ہوتے ہیں اور ان پر عمل کیا جانا چاہئے،جب ایک مرتبہ فیصلہ آجاتا ہے تو اس کے بعد انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ اسے نافذ کرے۔
اگر عدالت جوفیصلہ کرے اس پر عملدرآمد نہ ہو تو ایسی صورت میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے جس سے معاملات درست نہیں رہتے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے اس کے مطابق قانونی طور پر وہ ابھی بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ۔ جہاں تک اخلاقی جواز کا تعلق ہے تو انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہئے کیونکہ دنیابھر کے مہذب معاشروں کی یہی روایت ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے، کیونکہ ایک دفعہ الزام لگنے کے بعد ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے اور انسان اپنے فرائض صحیح طریقے سے سرانجام دے پاتا''۔
ایڈووکیٹ فیاض احمد مہر صدر پنجاب لائرز ونگ تحریک انصاف نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا'' سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق بالکل درست فیصلہ دیا ہے اس کو علامہ طاہر القادری صاحب کے موجودہ لانگ مارچ سے ملانا درست نہیں ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب کو جب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا تو تب بھی ان پر رینٹل پاور کیس چل رہا تھا اس لئے چاہئے تھا کہ انھیں اس عہدے پر فائز نہ کیا جاتا۔ نیب نے جو رپورٹ پیش کی عدالت نے اس کے مطابق فیصلہ دے دیا ہے ۔ اگر آئینی و قانونی طور پر دیکھا جائے تو وہ اب بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ، چاہے انھیں گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا جائے تو تب بھی وزیر اعظم ہی رہیں گے جب تک انھیں مجرم قرار دے کر سزا نہیں سنا دی جاتی وہ وزیر اعظم ہی ہیں ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ آئینی و قانونی طور پر انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے انھیں استثنٰی حاصل نہیں ہے، تاہم ان کی گرفتاری سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے تو اس بارے میں انھیں وزیر اعظم بنائے جانے سے قبل غور کیا جانا چاہئے تھا کہ اگر وہ گرفتار کئے جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مختلف سیاستدانوں پر مقدمات چلتے رہے ہیںمگر وہ اس کے با وجود ممبر پارلیمنٹ بھی رہے کیونکہ ان کو سزا نہ ہوئی یعنی وہ مجرم قرار نہ پائے۔ موجودہ عدالتی فیصلہ آئینی و قانونی طور پر بالکل درست ہے۔ اگر وزیر اعظم کی گرفتاری سے انتظامی سے مسائل پیدا ہوئے ہیں تو حکومت ان سے استعفیٰ لے نیا وزیر اعظم بنا دیں۔
جیساکہ ہمارے میڈیا کا عمومی رویہ بن چکا ہے کہ کسی خبر کے ممکنہ اثرات سے صرف نظر کرتے ہوئے سنسنی خیزی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، لہٰذا اس خبر کو اس طرح سے پیش کیا گیا جیسے وزیراعظم کی گرفتاری کیلئے پولیس روانہ ہوچکی ہو۔ اس خبر کے پھیلتے ہی کراچی کی سٹاک مارکیٹ 525 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ کریش ہوگئی۔ اس بارے میں اہم بات یہ ہے کہ 15جنوری کو کچھ ایسا مواد عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جو قبل ازیں عدالت کی دسترس میں نہیں تھا۔ اس روز نیب کی جانب سے پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی۔ بعض قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ جس روز یہ احکامات دیئے گئے ۔
اس روز حکومت اور نیب کے وکلاء عدالت میں موجود نہیں تھے اور انہوں نے ان احکامات سے پہلے اپنا موقف عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے آرڈرز کے مطابق نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 17جنوری (آج) تک ملزمان کو گرفتار کرکے رپورٹ پیش کرے۔ دوسری طرف گرفتاری کیلئے نیب کو جس طریقہ کار پر عمل کرنا ہے اس کو مکمل کرنے کے لئے 24گھنٹے کا وقت بالکل ناکافی ہے۔ مزید یہ کہ چیئرمین نیب کے پاس ایسے بہت سے طریقے ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ مزید تاخیر کرسکتے ہیں۔ وزیرقانون فاروق نائیک کا بھی یہی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے گرفتاری کا حکم نہیں دیا کیونکہ گرفتاری صرف چیئرمین نیب کی منظوری سے ممکن ہے اور تاحال انہوں نے ایسی کوئی منظوری نہیں دی۔
سپریم کورٹ کے اس حکم کے اثرات اس لئے بھی بہت شدید تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے۔ انہوں نے اس عدالتی حکم کو اپنی پیش گوئیوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ عوامی حلقوں میں فیصلے کے وقت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا اور بعض تجزیہ نگاروں نے ان دو واقعات کو باہم منسلک کرنے کی کوشش کی جو عدالت عالیہ کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش تھی لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ تاثر زائل ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ روز سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات اور میڈیا کے عمومی رویئے سے اس بات کی ضرورت کا احساس ایک مرتبہ پھر پیدا ہوا ہے کہ اہم واقعات کے حوالے سے عُجلت میں حتمی نتیجہ اخذ کرلینا درست بات نہیں۔
گو کہ عدالت عالیہ نے وزیراعظم سمیت کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے میں شامل تمام ملزمان کی گرفتاری کے احکامات صادر کردیئے ہیں لیکن عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کے لئے قانون کے تمام تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ ان تقاضوں میں ایک اہم اور لازمی تقاضا چیئرمین نیب سے ان گرفتاریوں کی اجازت حاصل کرنا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق چیئرمین نیب اگر چاہیں تو وزیراعظم کے خلاف چالان کی کارروائی کو مختلف حیلوں بہانوں سے کئی ہفتے تک ٹال سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر چیئرمین نیب استعفیٰ دے دیں تو تمام کارروائی رک جائے گی کیونکہ چیئرمین کی منظوری کے بغیر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جاسکتا۔ قانون کے مطابق چیئرمین نیب پیش کئے جانے والے کسی ریفرنس کو منظور کرنے یا رد کرنے کے حتمی اختیارات رکھتے ہیں۔
دوسری جانب نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رانا عامر عباس کا موقف ہے' جو کرائے کے بجلی گھروں کے معاملات میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات پر مامور تھے اور انہیں معطل کردیا گیا تھا۔ عام تاثر یہ ہے کہ رانا عامر عباس کو دیانتداری کے ساتھ تحقیقات کرنے کی پاداش میں فارغ کیا گیا۔ عامر عباس کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم سے مراد یہ ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ متعلقہ حکام کو پیش کرکے ریفرنس دائر کرنے کی منظوری حاصل کی جائے اور تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے جن میں وزیراعظم بھی شامل ہیں جبکہ اس بات کو عامر عباس بھی درست قرار دیتے ہیں کہ چیئرمین نیب ملزمان کے خلاف کارروائی میں تاخیر کرسکتے ہیں۔
عدالت کے اس حکم کے ردعمل میں پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھر قانون کے احترام کے برعکس رویہ اختیار کیا اور مختلف شہروں میں اِس کے خلاف مظاہرے کیے گئے حالانکہ قانونی معاملات سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ قانونی راستے موجود ہوتے ہیں۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ان احکامات پر فوری عملدرآمد کا امکان نہیں ہے کیونکہ قانونی طور پر ایسے راستے موجود ہیں جن پر عمل کرکے گرفتاری کے فوری خطرے کو بآسانی ٹالا جا سکتا ہے۔
دسمبر 2009ء کو سید فیصل صالح حیات بھی مقدمے میں مدعی بن گئے تھے جبکہ ایک درخواست ن لیگ کے خواجہ آصف نے بھی دائر کی تھی ۔ فیصل صالح حیات نے اپنے اس مقدمے کی پیروی بھی خود کی۔ مقدمے میں الزام ہے کہ اس وقت کے وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک مافیا کی ملی بھگت سے پاکستان میں 19رینٹل پاور پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا جس کے باعث جو بجلی 80پیسے فی یونٹ کے حساب سے مل سکتی تھی'10روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی۔ فیصل صالح حیات کا دعویٰ ہے کہ 8پاور پلانٹ لگانے کے مراحل میں 30ارب روپے کی کرپشن کی گئی۔
اس معاملے کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات تو اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ عوام کو بجلی کے معاملے میں شدید ترین عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اب اس بات کو اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ پیپلزپارٹی کے اس دور میں جن دو شخصیات کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا اور ایک شخصیت جسے وزیراعظم کے عہدے کے لیے چنا گیا تینوں شخصیات پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ مخدوم شہاب الدین جنہیں یوسف رضا گیلانی کے بعد وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا وہ بھی ایفی ڈرین مقدمے میں ملزم تھے جبکہ اب راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کے خطرے کا سامنا ہے۔
موجودہ صورتحال میں جو بات پیش نظر رکھنا سب سے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام اہم اداروں اور سیاسی قوتوں کو اس بات کا احساس ہے کہ انتخابات اب محض چند مہینوں کی بات ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعت بھی وقت پر الیکشن کرانے پر آمادہ ہے۔ حزب اختلاف کی تمام اہم جماعتیں بھی اس بات پر یکسو ہیں کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ایسی صورتحال میں موجودہ حکومت کو قبل از وقت رخصت کرنے کی کسی کوشش کو درکار حمایت میسر نہیں آئے گی۔
رینٹل پاور عمل درآمد کیس کیا ہے؟
مئی 2008 میں جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اُس وقت کے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنائی تو راجہ پرویز اشرف کے حصے میں جو قلم دان آیا وہ وزارت پانی و بجلی کا تھا، وفاقی وزیر بنتے ہی راجہ پرویز اشرف نے ایک پالیسی بیان کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ حکومت 2200 میگاواٹ پیداوار دینے والے 19 بجلی گھر کرایے پر حاصل کر رہی ہے جو اسی سال (2008) کے آخر میں پیداوار دینا شروع کر دیں گے۔ اُس وقت ملک کو 4 ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی کے اِس اعلان کو عوامی حلقوں میں بہت زیادہ قبولیت ملی لیکن دوسری جانب اِن رینٹل پاورز پلانٹس سے متعلق تکنیکی پہلوئوں سے واقف ماہرین نے جب شکوک و شبہات کا اظہار کیا تو فضا بگڑنے لگی۔ ماہرین نے کہا تھا کہ یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں مگر دوسری جانب راجہ پرویز اشرف کی وزارت نے اخبارات اور عوامی مباحثوں کے ذریعے اٹھنے والے اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے 19 بجلی گھروں کے حصول کے معاہدے کر لیے۔
جب وزارت پانی و بجلی کی جانب سے اعلان کردہ یہ منصوبے اور اُن کی تفصیلات فیصلہ سازی کے قانونی طریقہ کار کے تحت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئیں تو یہ معاملہ اُس وقت کھٹائی میں پڑتا نظر آیا، کیوں کہ اُس وقت کے وزیر خزانہ اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ شوکت ترین نے اِن معاہدوں پر بعض اعتراضات کیے تھے اور اُن کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں وزارتِ پانی و بجلی سے وضاحت طلب کر لی تھی۔ اِس جوابی طلبی پر راجہ پرویز اشرف کی وزارت نے جو دستاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی تھیں، شوکت ترین کے مطابق اُن میں بہت سنگین غلطیاں موجود تھیں، شوکت ترین کی کمیٹی نے اِن معاہدوں پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد جو اعتراضات اٹھائے تھے اُن کے مطابق یہ بجلی گھر اُتنی بجلی پیدا نہیں کر پائیں گے جتنی وزارت پانی و بجلی کو توقع تھی، کیوں کہ ان میں سے بعض بجلی گھر 25 سال تک پرانے تھے جو اپنی کل صلاحیت کا صرف 35 فی صد تک ہی پیداوار دے سکتے تھے۔
اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے یہ بھی کہا تھا کہ اِن معاہدوں میں بجلی کے جو نرخ طے کیے گئے ہیں وہ مارکیٹ کے نرخ سے بہت زیادہ ہیں اگر ان نرخوں پر یہ 22 سو میگاواٹ بجلی نظام میں شامل کی گئی تو بجلی کے نرخوں میں براہ راست 30 فی صد تک اضافہ ہو جائے گا۔ شوکت ترین نے تیسرا اعتراض یہ بھی اُٹھایا تھا کہ یہ معاہدہ کرتے وقت وزارت پانی وبجلی نے اس بارے میں سرے سے غور و خوض ہی نہیں کیا کہ اِن بجلی گھروں کو گیس اور تیل کہاں سے فراہم کیا جائے گا، اِن میں سے بعض بجلی گھر ایسی جگہوں پر نصب ہو رہے تھے جہاں نہ گیس پائپ لائن تھی اور نہ ہی اتنی بڑی سڑک تھی جس کے ذریعے تیل کی بلا روک ٹوک فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔
اُس وقت کے وزیر خزانہ نے یہ اعتراضات 2009 میں کابینہ کے سامنے رکھے تھے جہاں اِن منصوبوں کے خالق راجہ پرویز اشرف نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔ اِس پر دونوں جانب سے گرما گرم بحث کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تھیں لیکن طے یہ پایا تھا کہ نجی بجلی گھروں کے حصول کے لیے غیر ملکی کمپنیوں اور وزارت پانی و بجلی کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا تکنیکی جائزہ ماہرین کے ذریعے لیا جائے گا۔ اِس مقصد کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، جنہوں نے چند ماہ بعد اپنی رپورٹ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حوالے کر دی تھیں مگر اِس دوران رینٹل پاور منصوبوں کے نام سے یہ موضوع میڈیا میں زیرِ بحث رہا۔ اور بعض سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی جانب سے ان منصوبوں میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کے الزامات بھی سامنے آتے رہے۔ یہ معاملہ میڈیا میں اُچھالنے والوں میں اُس وقت کی حزب اختلاف اور آج کی حزب اقتدار میں شامل فیصل صالح حیات اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف پیش پیش تھے۔
ایشیائی ترقیاتی بنک کے ماہرین نے ان منصوبوں میں بدعنوانی کے بارے میں لب کشائی نہیں کی تھی لیکن سرکاری ذرائع نے اِس رپورٹ کے جن مندرجات سے متعلق صحافیوں کو آگاہ کیا تھا ان کے مطابق شوکت ترین کی جانب سے اٹھائے گئے تقریباً تمام نکات درست ثابت ہوئے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کی روشنی میں شوکت ترین کی کمیٹی نے 19 میں سے 5 منصوبوں کومنسوخ کرنے اور 6 پر نظرثانی کی سفارش کی تھی۔
جن دنوں یہ صورت حال عروج پر تھی، انہی دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بجلی کے بحران اور کرایے کے بجلی گھروں میں بے ضابطگیوں کے معاملے پر از خود نوٹس لے لیا تھا اور یوں یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے چلا گیا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان میں 90 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں نے پیداوار دینی شروع کر دی تھی اور حکومت کرایے کی بجلی حاصل کرنے پر 90 ارب روپے خرچ بھی کر چکی تھی، یاد رہے کرایے کے بجلی گھروں کا تصور راجہ پرویز اشرف سے پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی پیش کر چکے تھے اور ان کے دور میں بھی کرایے کے دو بجلی گھر لگائے گئے تھے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں کرایے کے بجلی گھروں کی تنصیب کے معاہدوں پر ماہرین کی آراء کو جواز فراہم کر دیا تھا، ماہرین نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ یہ معاہدے ناقابل عمل ہیں اور اس سے ملک کو فائدے کی بجائے نقصان ہو گا اور دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کرایے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی اور ملک میں بجلی کے بحران کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کرایے کے بجلی گھروں کے حصول کے لیے بہت جلد بازی سے کام لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سال 2008 سے حکومت اور کرایے کے بجلی گھروں سے متعلق تمام معاہدے منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا اور نیب سے کہا تھا کہ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ 15 جنوری کو رینٹل پاور عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب آج 16 جنوری کو عدالت میں پیش کرے اور اگر اِس دوران وزیراعظم سمیت کوئی بھی ملزم بیرون ملک فرار ہوا تو اِس کا ذمہ دار چیئرمین نیب ہو گا۔
از خود سماعت سے متعلق یہ کیس قریباً ساڑھے چار سال کے بعد ملک کے وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم پر اختتام پذیر ہوتا نظر آ رہا ہے، آگے کیا ہو گا؟ اس کے بارے میں بہتر آراء کوئی قانونی ماہر ہی دے سکتا ہے۔
کرائے کے بجلی گھروں میں کرپشن کے الزامات پر ہونے والی تحقیقات مکمل ہوچکی ہے۔تفتیشی افسر نے تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق اور شواہد ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی کو پیش کردیے ، جنھوں نے ان حقائق وشواہد کو ملزمان کے خلاف ریفرنس دائرکرنے کی غرض سے آگے نیب ہیڈ کوارٹرزاسلام بھیج دیاہے۔نیب کے ایگزیکٹوبورڈ کے اجلاس میں چیرمین نیب اس ریفرنس کی منظوری دیں گے۔اس کے بعد یہ یہ ریفرنس کسی احتساب عدالت میں دائر کیا جائے گا، جو ابتدائی سماعت کے بعد ملزمان پر کرپشن کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کرسکے گی۔اس کے بعد نیب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے یابعد میں ریفرنس میںنامزد ملزمان کو گرفتار کرلے۔ملزمان کو کسی فاضل عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کا حق حاصل ہے۔
کچھ تذکرہ نیب کا
جنرل پرویزمشرف نے12اکتوبر1999ء کو جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو انھوں نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے بڑے بلند وبانگ دعوے کئے۔16نومبر1999ء کوقومی احتساب بیورو(National Accountability Bureau) کے نام سے وہ ایک ادارے کا قیام عمل میں لائے۔ لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجدحسین نیب کے پہلے چیئرمین بنے، ان کی سربراہی میں ادارے نے درست سمت میں سفر کا آغازکیا، جس سے امید بندھی کہ شاید ملک میں پہلی بار غیر جانبدار انہ احتساب کی بنیاد پڑ جائے۔
لیکن احتساب کی زد میں جب طاقتورافراد آئے تو انھوںنے مقتدر حلقوں سے اپنے روابط کو بروے کار لاتے ہوئے، نیب کی تحقیقات پراثرانداز ہونے کی کوشش کی، اور جب نیب کو ان عناصر کے خلاف ''ہتھ ہولا ''رکھنے کوکہا گیا تو نیب کے دیانت دار چیئرمین جنرل سید امجد کو یہ گوارا نہ ہوا اور انھوں نے عہدہ ہی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جو چیئرمین آئے، ان کے دور میں نیب سیاسی اثرسے پاک نہیں رہ سکا اور اس ادارے کی ساکھ متاثر ہوتی گئی۔ نیب اب فوجی حکمران کے مقاصدکے تابع ہوگئی، جو سیاست دان حکومتی پارٹی میں شامل ہوگیا، اسے کرپشن کے باوجودمعافی مل گئی۔
اور وہ جو آمرکی مخالفت کررہے تھے، ان میں سے کئی ایک پر بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے۔ سب کمزوریوں کے باوجود نیب بہت سے کرپٹ سیاست دانوں، بڑے سرکاری افسروں اور بزنس مینوں سے پیسے نکلوانے میں کامیاب رہا لیکن شفاف اور غیر جانبدارانہ احتساب کی مستحکم روایت قائم کرنے میں ناکام رہا۔ صدر مشرف کادور ختم ہوا اور پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت آئی۔ اس سے قبل چارٹر آف ڈیمو کریسی میں دونوں بڑی جماعتوں نے اس نکتے پر اتفاق کیا تھا کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ماضی کی روایات کے برعکس آئندہ سے نیب کے ادارے کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور حکومتی اثر و رسوخ سے پاک غیر جانبدار ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ لیکن موجودہ دور میں بھی نیب حکومتی اثر کے تحت کام کرنے کی اپنی پرانی روش پر چلتا رہا ۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کی وجہ سے اس حکومت کے دور میں بھی نیب سے کچھ اچھے کام ہوگئے ۔موجودہ حکومت نے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے دیدار حسین شاہ کو نیب کا چیئرمین بنادیا، جن کو سپریم کورٹ کے حکم پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جس پر پیپلز پارٹی نے سندھ بھر میں احتجاج کیا۔ ان سے پہلے شوکت عزیز کے دور میں نیب کے چیئرمین بننے والے نوید احسن نے اپنے عہدے سے استعفا دیا تھا۔ وہ حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کا کہتے رہے لیکن حکومت نے کان نہ دھرے، جس پر وہ مایوس ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے کئی بارحکومت پر زور دیا کہ وہ کسی غیرجانبدار شخص کو نیب کا چیئرمین بنائے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کو تسلیم کرنے میں نیب لیت ولعل سے کام لیتا رہا ، تاخیری حربے آزمانے پرنیب کے افسروں کو کئی بار سپریم کورٹ کی سرزنش کا سامنا بھی رہا۔ جس کی تازہ ترین مثال رینٹل پاور کیس میں دیکھنے کو ملی، جب چیف جسٹس نے کہا کہ 'تعجب ہے ملزموں کی وکالت نیب کررہا ہے۔' 10اکتوبر2011ء کو صدر آصف علی زرداری نے پاک بحریہ کے سابق سربراہ فصیح بخاری کو نیب کا چیئرمین بنایا ، جو اچھی شہرت کے مالک ہیں۔
اس لیے ان کی تقرری پرکم ہی اعتراض کیا گیا۔ وہ کبھی کبھار ایسا موقف بھی اختیار کرلیتے ہیں، جو حکومت کو ناگوار گزرتا ہے، جیسے کچھ عرصہ جب انھوں نے کہا کہ پاکستان میں یومیہ چھ سے سات ارب کی کرپشن ہو رہی ہے تو حکومت اس سے برافروختہ ہوئی،اور وفاقی کابینہ کے بعض ارکان نے تو چیئرمین نیب سے جواب طلبی کا مطالبہ کردیا۔فصیح بخاری کرپشن کے خاتمے کے لیے سرگرم تو ہیں لیکن وہ اب تک کچھ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس سے کرپشن روکنے کے سلسلے میں جوہری تبدیلی کا امکان پیدا ہو۔ سپریم کورٹ کی طرف رینٹل پاور کیس میں ملزمان کی گرفتاری کے حکم نے فصیح بخاری کو خاصا مشکل میں ڈال دیا ہے، جس کے بعدان کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی گردش میں رہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟
آئینی و قانونی ماہر ہمایوں احسان نے سپریم کورٹ کے رینٹل پاور کیس کے فیصلے حوالے سے کہا ''سپریم کورٹ آئین و قانون کی تشریح کرتی ہے اوروہاں جو فیصلے کئے جاتے ہیں وہ قانون بن جاتے ہیں اور پھر یہی فیصلے لاء کی کتابوں کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اگر میں بطور پروفیسر بات کروں تو یہ کہوں گا کہ میرا فرض ہے کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلے کرے تو اسے عین ویسے ہی طالبعلموں کو پڑھائوں، دوسری بات یہ کہ عدالت جو بھی فیصلے کرتی ہے وہی ٹھیک ہوتے ہیں اور ان پر عمل کیا جانا چاہئے،جب ایک مرتبہ فیصلہ آجاتا ہے تو اس کے بعد انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ اسے نافذ کرے۔
اگر عدالت جوفیصلہ کرے اس پر عملدرآمد نہ ہو تو ایسی صورت میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے جس سے معاملات درست نہیں رہتے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے اس کے مطابق قانونی طور پر وہ ابھی بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ۔ جہاں تک اخلاقی جواز کا تعلق ہے تو انھیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہئے کیونکہ دنیابھر کے مہذب معاشروں کی یہی روایت ہے اور اسی پر عمل کیا جاتا ہے، کیونکہ ایک دفعہ الزام لگنے کے بعد ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے اور انسان اپنے فرائض صحیح طریقے سے سرانجام دے پاتا''۔
ایڈووکیٹ فیاض احمد مہر صدر پنجاب لائرز ونگ تحریک انصاف نے اپنے خیا لات کا اظہار کرتے ہوئے کہا'' سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق بالکل درست فیصلہ دیا ہے اس کو علامہ طاہر القادری صاحب کے موجودہ لانگ مارچ سے ملانا درست نہیں ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب کو جب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا تو تب بھی ان پر رینٹل پاور کیس چل رہا تھا اس لئے چاہئے تھا کہ انھیں اس عہدے پر فائز نہ کیا جاتا۔ نیب نے جو رپورٹ پیش کی عدالت نے اس کے مطابق فیصلہ دے دیا ہے ۔ اگر آئینی و قانونی طور پر دیکھا جائے تو وہ اب بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ، چاہے انھیں گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا جائے تو تب بھی وزیر اعظم ہی رہیں گے جب تک انھیں مجرم قرار دے کر سزا نہیں سنا دی جاتی وہ وزیر اعظم ہی ہیں ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ آئینی و قانونی طور پر انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے انھیں استثنٰی حاصل نہیں ہے، تاہم ان کی گرفتاری سے انتظامی مسائل پیدا ہوں گے تو اس بارے میں انھیں وزیر اعظم بنائے جانے سے قبل غور کیا جانا چاہئے تھا کہ اگر وہ گرفتار کئے جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مختلف سیاستدانوں پر مقدمات چلتے رہے ہیںمگر وہ اس کے با وجود ممبر پارلیمنٹ بھی رہے کیونکہ ان کو سزا نہ ہوئی یعنی وہ مجرم قرار نہ پائے۔ موجودہ عدالتی فیصلہ آئینی و قانونی طور پر بالکل درست ہے۔ اگر وزیر اعظم کی گرفتاری سے انتظامی سے مسائل پیدا ہوئے ہیں تو حکومت ان سے استعفیٰ لے نیا وزیر اعظم بنا دیں۔