حکومتی رویوں میں تبدیلی پہلا حصہ
پوری دنیا اور خصوصاً ہمارے ملک میں آئے دن نئے نئے واقعات اور حیرت انگیز کہانیاں جنم لیتی ہیں
پوری دنیا اور خصوصاً ہمارے ملک میں آئے دن نئے نئے واقعات اور حیرت انگیز کہانیاں جنم لیتی ہیں، جنھیں سن کر اور پڑھ کر بڑی شرم آتی ہے، دکھوں سے کلیجہ چھلنی ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ناانصافی کی بیلیں خوب پروان چڑھتی ہیں، عوام سوچتے کیا ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے، حالات خلاف توقع تبدیل ہوجاتے ہیں، جو لوگ سچ کی روشنی سے جھوٹ کے خلاف جہاد کرنا چاہتے ہیں، ان کا بوریا بستر ہی گول کردیا جاتا ہے، صاحب اقتدار اپنا من پسند فیصلہ عدالتوں سے چاہتے ہیں، اپنی مرضی اور پسند کی حکومت اور اس کے ارکان کی تقرری کے خواہش مند ہوتے ہیں اور وہ اپنی خواہشات کی تکمیل بڑی آسانی سے کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں اہل ثروت کے لیے ہر کام کرنا آسان۔ اذیت اور تکلیف کے سہنے کے لیے تو بے چارہ غریب اور بے سہارا شخص ہے، جسے بڑی آسانی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ لواحقین کو انصاف کے بدلے جواں سالہ بیٹے کی لاش دے دی جاتی ہے، اس کا کیا قصور تھا، اتنا کہ اس نے پولیس کے اشارے پر گاڑی نہیں روکی، یا جیل میں رہتے ہوئے محض اپنے والدین سے ملنے کے لیے رشوت کا انتظام نہیں کیا۔
ایسے واقعات تقریباً ہر روز اخبارات کی زینت بنتے ہیں لیکن مجال ہے کسی نے نوٹس لیا ہو، کوئی وکیل آگے آیا ہو۔ اور تحقیقات کے بعد واقعے کے ملزمان کو سزا دینے اور لواحقین کو انصاف دلانے کی کوشش کی گئی ہو۔ لیکن اس کے برعکس حکمران طبقہ بڑے سے بڑا جرم کرلے، ملک کی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں جاکر محل تعمیر کرلے، اربوں روپوں کے غبن کیس میں ملوث ہو اور ثبوت بھی مل چکے ہوں، تمام شواہد بھی مل جائیں لیکن انھیں ہر طرح سے معافی ہے اور وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔
ایان علی کا معاملہ سب کے سامنے ہے، کس قدر شان و تمکنت سے مسلح گارڈوں کی سنگت میں تشریف لاتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے بلکہ کسی ملک کی شہزادی کی طرح پاکستانی عدالتوں کے دورے پر نکلی ہوں۔ ان محترمہ کی جگہ کوئی اور ملزمہ عدالت آتی تو سزا کا مطالبہ کرنیوالے پیش پیش ہوتے اور اسے اس کے جرم کی سزا ملے ہوئے بھی عرصہ بیت چکا ہوتا، لیکن یہاں معاملہ برعکس تھا۔
یوں لگتا تھا کہ جیسے شوٹنگ ہو رہی ہو، ماڈل ایان علی کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر نہیں آتے تھے، چونکہ ان کے سر پر ان کے بڑوں اور پرستاروں کا ہاتھ تھا۔ اسی وجہ سے وہ اربوں روپے اپنے ساتھ باآسانی لے جاتی تھیں۔دراصل سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، خیالات و افکار کے اعتبار سے ہم نوا ہیں۔ اسی لیے مل بانٹ کر کھاتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے۔ اگر ایک بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لے تو بھانڈا پھوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے، لہٰذا خطرہ کوئی مول لینے کو تیار نہیں۔ جو پولیس کا حال ہے وہی نیب کا ہے اور جو اعمال نیب کے ہیں، ایسے ہی اعمال حکومت کے ہیں۔
بددیانتی، لاقانونیت اور بے انصافی کے تحت جو عمارت تعمیر ہوئی ہے، وہ بہت مضبوط ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی نکال دی جائے تو پوری ہی عمارت گرنے کا خطرہ لاحق ہے، لہٰذا جیسا بھی ہے، اسے چلنے دیے جانے کے مواقع وہ ادارے بھی دے رہے ہیں کہ جو سب سے بالاتر ہیں۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو کذب کی چمکیلی اور مضبوط چادر تار تار ہوسکتی ہے اور افسران بالا خوف خدا کے تحت وہ کچھ کرسکتے ہیں، جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسے بھی چارہ گر ہیں جو منصفی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور اور ہوس زر کے تحت بے بس پاتے ہیں۔
حج کرپشن میں سزا پانے والے بھی رہا ہوگئے، شرجیل میمن دبئی سے ایسے تشریف لے آئے جیسے حکومت کی طرف سے کسی خاص میٹنگ یا اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے، جہاں سے سرخرو ہوکر لوٹے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کو بھی رہا کردیا گیا، عمران خان نے کیا غلط کہا کہ ''یہ نورا کشتی ڈبلیو ڈبلیو ایف سے زیادہ کمال کی ہے۔''
ہمارے سیاستدان خصوصاً (ن) لیگ کے، عمران خان کے لیے ببانگ دہل کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی ہے، ابھی طفل مکتب ہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ جھوٹ نہیں بولتے، منافقت، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں کرتے، لوگوں پر تشدد نہیں کرتے، انصاف کی بات کرتے ہیں، حقائق کو بے نقاب کرنے میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں، دروغ گوئی برداشت نہیں کرتے، لہٰذا فوری طور پر سچ اگلنے کے لیے دوسرے روز ہی بلکہ کوئی بھی ایسا واقعہ رونما ہونے کے بعد جس کا تعلق ملکی سالمیت کے نقصان سے ہو، وہ کانفرنس کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ کرکے دکھا دیتے ہیں۔
ان کا یہ ہنر، یا عیب، ہمارے نام نہاد حکومتی کارندوں، سیاسی رہنماؤں کو پسند نہیں آتا ہے۔ اگر ایسے ہی حالات چلتے رہے، ایک دوسرے سے ڈیل کے نتیجے میں حکومتیں بدلتی رہیں، وہی لوگ آتے رہیں جنھوں نے ملک کو بار بار اور قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جہالت کی ردا روشنی کے میناروں کو اپنے اندر چھپاتی چلی جا رہی ہے۔ اسی لیے ظالم لوگ دیدہ دلیری کے ساتھ انسانیت کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں اور معصوم لوگوں کی جانیں اس طرح لیتے ہیں جیسے مرغیاں ذبح کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کا بال بیکا نہیں ہوگا۔ وہ کچھ بھی کرلیں۔ حکومت ان کی ہے۔
بے انصافی اور منافقانہ عدالتی فیصلوں نے ایسے لوگوں کو شے دے دی ہے جو اپنی انا کی خاطر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بالکل نہیں جھجکتے ۔اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں موجود ہیں، آئے دن پسند کی شادی کرنیوالے نوبیاہتا جوڑوں کو ان کے لواحقین پولیس کو پیسہ کھلا کر سر راہ قتل کر دیتے ہیں۔ چند روز قبل سرگودھا کے مزار پر سابق ڈپٹی الیکشن کمشنر عبدالوحید نے محض گدی نشینی کی خاطر 20 لوگوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔
کہتے ہیں وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا، بے شک ہوگا آخر الیکشن کمشنر تھا، اور دولت کا حریص، ہمارے ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا تھا مزارات اور گدیاں خرید و فروخت کی جاتی ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں قانون کے رکھوالے بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، اپنی جان کی حفاظت کے لیے کتنی ہی معصوم جانوں کا خون اس وحشی شخص نے کیا اور متواتر دو دن تک خون کی ہولی کھیلتا رہا۔
اگر وہ اس بات پر یقین رکھتا کہ جان تو ایک دن جانی ہی ہے اور وقت بھی مقرر ہے، پھر ڈر کیسا؟ اور اس بات کی بھی آگاہی ہوتی کہ اس کا انجام بھی ہیبت ناک ہو سکتا ہے لیکن وہ اس بات سے واقف تھا کہ یہاں تو دولت پیسہ دے کر بچ جائے گا مگر دوسرے جہاں میں ممکن نہیں ہے موت اور قبر کی پہلی رات کو فراموش کرنیوالے ایسے ہی پتھر دل ہوجاتے ہیں۔ کیا ایسے طمع پرست لوگ مزاروں کے متولی ہوسکتے ہیں؟
ایسے خونی واقعات مزارات کے اطراف یا احاطے میں پیش آتے ہی رہتے ہیں، کبھی بم اور خودکش دھماکا ہوجاتا ہے، ہزاروں زائرین بے موت مر جاتے ہیں۔ لیکن بے شمار گھرانے اجڑنے کے بعد بھی حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی کہ ان کا سدباب ہونا چاہیے۔ لیکن کس طرح کیا جائے اس کا ایک ہی حل ہے دانشوروں، علما، مفتیان دین اور مختلف مکتب فکر کے اعلیٰ حضرات کی ایک کمیٹی بنا کر فیصلہ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
(جاری ہے)