پاکستان پہلے
ہماری بعض سیاسی پارٹیاں قومی مفاد کو ہی نہیں سمجھیں
جنرل راحیل شریف کو اکتالیس اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کے سربراہ کا عہدہ پیش کیے جانے پر ہمارے حزب اختلاف کی کچھ پارٹیوں کی جانب سے سخت ناراضگی ظاہرکی جا رہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے مفاد میں سعودی حکومت سے یہ خفیہ ڈیل کی ہے، اس اہم معاملے کو اسمبلی میں لانا چاہیے تھا تاکہ اس پر کھل کر بحث ہوسکتی۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بعض سیاسی پارٹیاں قومی مفاد کو ہی نہیں سمجھیں۔کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر حکومت کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ کیا پاکستان کے دشمن کم ہیں؟ جنرل راحیل شریف کا اسلامی فوج کا سربراہ بننا کیا ہمارے دشمنوں کو اچھے لگے گا؟ انھیں یہ بات کیسے ہضم ہوسکے گی کہ تمام اسلامی ممالک میں صرف پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا سابق فوجی سربراہ اس اہم منصب کے لیے اہل قرار پایا ہے۔ یعنی کہ پاکستانی فوج کو جو تجربہ اور مہارت حاصل ہے وہ کسی اور فوج کو حاصل نہیں ہے یہ تو پاکستان کے لیے ایک انمول اعزاز ہے جو پاکستانی فوج کو حاصل ہو رہا ہے۔ تو کیا جنرل راحیل شریف کے نئے عہدے سے اختلافات کرنیوالی سیاسی پارٹیوں کی رائے ہمارے دشمنوں سے ملتی جلتی ہے نہیں ایسا نہیں ہے مگر یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے بعض سیاستداں ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر صرف ذاتی انا اور حسد کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف پاک فوج کا وہ مایہ ناز جنرل ہیں جنھوں نے ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ملک میں دندناتے ہوئے دہشت گردوں کی کمر توڑکر رکھ دی تھی۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی سے جنرل راحیل شریف کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی تھی۔ مسلم دشمن یہودی اخبار نیویارک ٹائمز تک نے اعتراف کیا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کو دہشتگردی کی دلدل سے نکال لیا ہے ورنہ اس دلدل سے نکلنا محال تھا۔ سعودی حکومت نے بھی ان کا انتخاب ان کے دہشتگردی سے نمٹنے کے تجربے کی بنیاد پر ہی کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا میاں نواز شریف کی سفارش پر انھیں اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ مقررکیا جاسکتا تھا؟
خدا کا شکر ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ پاکستان کو تنہائی کا طعنہ دیا جا رہا تھا ساتھ ہی پاکستان کو دہشتگردی کا گڑھ قرار دیا جا رہا تھا پاک فوج کے ایک سابق سربراہ کا اکتالیس ممالک کی فوج کا سربراہ مقرر کیا جانا ہمارے دشمنوں کے لیے ماتم کا مقام ہے جب کہ پاکستانیوں کے لیے قابل فخر بات ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے کو متنازعہ بنانے میں بعض سیاسی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ ایک طرف وہ فوج کی تعریف کرتے نہیں تھکتیں تو دوسری جانب تحفظات بھی رکھتی ہیں۔ کبھی انگلی کھڑی کرکے تھرڈ امپائر سے مدد کی اپیل کرتے ہیں تو کبھی سابق جنرل پرویز مشرف کو جمہوریت کا دشمن قرار دیتے ہیں جب کہ کپتان ایک وقت میں جنرل پرویز مشرف کے خیر خواہوں میں سے تھے۔ اس طرح مسلسل الزام تراشی کرکے ملکی سیاست کو ایک نیا رخ دیا جا رہا ہے۔
بقول طلال چوہدری ان کا یہ رویہ سراسر سیاست میں ان کی ناپختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر تحریک انصاف جنرل راحیل کے معاملے کو اتنا نہ اچھالتی تو پاکستان سے باہر والوں کو اس مسئلے پر اپنے تحفظات ظاہر کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ اب جہاں تک ایران کا معاملہ ہے تو ایران جیسے بردبار حکمراں کم ہی ہیں۔ ان کے لیے نہ اسلامی اتحادی فوج کوئی مسئلہ ہے اور نہ جنرل راحیل شریف کا اس کا سربراہ بننا کوئی ایشو ہے اس لیے کہ انھیں بھی معلوم ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ اس کے کسی اسلامی ملک کے خلاف عزائم نہیں ہیں مگر ہمارے ہاں تو ایران کو خاص مسئلہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی مشترکہ فوج کی جانب سے ایران پر حملے کا کوئی امکان یا جواز ہے؟ پاکستان ہی کیا کوئی بھی اسلامی ملک ایران کیا کسی بھی اسلامی ملک پر حملے کے لیے تیار نہیں ہوگا، اگر سعودی حکومت نے کسی بھی موقعے پر یہ عندیہ بھی دیا توکیا یہ فوج ایسا کر گزرے گی؟ اس فوج کی کمانڈ صرف سعودی حکومت کے پاس نہیں ہوگی اہم فیصلے سب کی مشاورت سے ہی ہوں گے۔ چنانچہ یہ فوج جو بھی کارروائی کرے گی اس پر سب کا متفق ہونا ضروری ہوگا۔
جہاں تک یمن کا تعلق ہے اس پر ضرورکئی اسلامی ممالک نے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر حملہ کیا ہے مگر وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ امریکی ایما پر القاعدہ کے خلاف ہو رہا ہے مگر اسے ایران اور سعودی عرب کی محاذ آرائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اگر اسلامی اتحادی فوج کو بھی امریکا کے حکم پر چلنا پڑا تو مجھے یقین ہے کہ یہ اتحاد چند ہی ماہ میں بکھر جائے گا پھر اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اسلامی کانفرنس جس طرح ایک بے مقصد تنظیم بن کر رہ گئی ہے اسی طرح اسے بھی مغربی ممالک مفلوج نہ بنادیں۔
مغربی ممالک ہر معاملے میں اسرائیل کی بقا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ اپنوں نے محض اسرائیل کے تحفظ کی خاطر عراق، لیبیا اور شام کو تباہ کردیا ہے۔ اب ان کی نظر میں اسرائیل کا دشمن صرف ایران ہے مگر ایران کو جھکانا ان کے بس میں نہیں ہے۔ ایران ایک طاقتور ملک ہے وہ فوجی اور معاشی لحاظ سے خودکفیل ہے۔ مبصرین کیمطابق ایران کی جانب سے اسرائیل کو دھمکیاں ضرور دی جاتی ہیں مگر اس کا اسرائیل کو تباہ کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مغربی ممالک ایران کو بھی تباہ کرنا نہیں چاہتے۔
امریکا کی سابق حکومت کا ایران سے سمجھوتہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا ایران کو عراق، شام اور لیبیا جیسا نہیں سمجھتا۔ بعض مبصرین کیمطابق اگر ایوان کے امریکا سے تعلقات سدھر جائیں تو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے اس کے تعلقات خودبخود بہتر ہوسکتے ہیں۔ تاہم بعض مبصرین کیمطابق ایرانی حکومت خود کو امریکا سے اس لیے دور رکھنا چاہتی ہے کہ اسے خدشے ہے کہ امریکا کی دوستی ایران میں جمہوری ماحول کو ابھار سکتی ہے۔ ایرانی حکومت نے بھارت سے ہمیشہ دوستانہ تعلقات قائم رکھے ہیں۔
چاہ بہار بندرگاہ کو بھارت گوادر بندرگاہ کی دشمنی میں ترقی دے رہا ہے۔ وہ اس پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے کیونکہ وہ اس بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان گوکہ اس منصوبے کو گوادر کی اہمیت کم کرنے کی بھارتی سازش خیال کرسکتا ہے مگر پاکستان نے کبھی اس منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ایران نے پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں ہمیشہ بھارتی مصنوعات کو ترجیح دی ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستانی مصنوعات پر درآمدی محصولیات کئی گنا زیادہ رکھے گئے ہیں۔
بھارتی ''را'' کا ایجنٹ کلبھوشن ایران سے ہی پاکستان کے خلاف اپنا سازشی نیٹ ورک چلاتا رہا ہے۔ ایران بلاشبہ مسلم امہ کا ہمیشہ خیر خواہ رہا ہے وہ فلسطینیوں کی آزادی کا سب سے بڑا علم بردار ہے مگر بھارت فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ترجیح دے رہا ہے۔ مودی حکومت مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام ہوچکا ہے اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کشمیریوں پر ہونیوالے بھارتی مظالم سے ایران اچھی طرح واقف ہے۔
اب جہاں تک ایران اور اسلامی اتحادی فوج کا تعلق ہے ایران کو اس اتحادی فوج سے کوئی خدشہ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ پاکستان اس فوج کا رکن ہوتے ہوئے اسے کوئی گزند نہیں پہنچنے دے گا۔ البتہ اس اتحاد میں ایران کو شمولیت کی دعوت نہ دینا مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ سعودی حکومت کو راضی کرکے ایران کو بھی اس فوجی اتحاد میں شامل کرائے تاکہ مسلم امہ ہمیشہ ایک چھتری تلے متحد اور مضبوط رہے۔ بہرحال ہم پاکستانیوں کے لیے بہر صورت پاکستان کا مفاد پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔