آئین کی خلاف ورزی

اسرائیلی حکام نے غیر آئینی طور پر مقبوضہ علا قوں میں یہودی بستیاں تعمیرکی ہیں


Zuber Rehman April 09, 2017
[email protected]

لاہور: ہرچندکہ بورژوا(سرمایہ دارانہ) آئین بورژوازی کے مفادات یعنی صاحب جائیداد طبقات کا محافظ ہوتا ہے۔ پھربھی چلیے ایک لمحے کے لیے اس کو مان کر اس کی اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں ۔ جنوبی امریکی ملک پیرا گو ئے کے آ ئین میں درج ہے کہ صدارت کے لیے کوئی بھی ایک بار یعنی پانچ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے، لیکن اس کے خلاف ورزی کرنے کی غیر آئینی کوشش کی گئی۔

پیرا گوئے میں صدرکو دوبار صدارتی انتخات لڑنے کی اجازت دینے سے متعلق بل کے خلاف احتجاج کر نیوا لے مظاہرین نے ملک کی کانگریس کو ہی نذرآتش کردیا۔ مظاہرین نے دارالحکو مت آسنون سیون میں چاردیواری اور کھڑکیوں کو توڑ تے ہو ئے عمارت پر دھاوابول دیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات لڑنے کی اجازت دینے سے متعلق بل کے خلاف احتجاج کرنیوالے مظاہرین بل کے حامیوں کے دفترمیں توڑ پھوڑکی اور پھرآگ لگا دی ۔ پولیس نے عوام پر ربڑکی گو لیوں اور واٹرکینن کا استعمال کیا ۔اس سے قبل جب سینیٹ نے آئین میں ترمیم کے لیے اس بل کی منظوری دی تو اس کے خلاف لو گوں نے سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔

صدرکی مدت اقتدار 2018 تک کی ہے ۔واضح رہے کہ پیرا گو ئے میں 1945 تا1989ء تک فوجی آمرجنر ل الفریڈ واسٹروز زنیر بغاوت کرکے اقتدار پر قابض رہے۔ پہلی بار 1992میں نیا آئین مرتب کیا گیا جس میں مدت صدارت کو پانچ سال مقررکیا گیا تھا، عوام میں کمیونسٹ رجحانات غالب ہیں ۔

کچھ ایسی ہی صورتحال اسرائیل کی بھی ہے۔ حالیہ اسرائیلی حکام نے غیر آئینی طور پر مقبوضہ علا قوں میں یہودی بستیاں تعمیرکی ہیں ۔ ہم تو ساری دنیا کو سارے لو گوں کی ملکیت سمجھتے ہیں، جوجہاں رہے یا بستی قائم کرے ،اسے آزادی ہونی چاہیے ، مگر میں بات منافقت کی کرنا چا ہتا ہوں۔

عراق نے جب کویت کو تیل کی چوری کے الزام کے موضوع پر ریاض، سعودی عرب میں عراق اورکویت کے دوبار مذاکرات ہو ئے اورکویت تلافی دینے پرآ مادہ بھی تھا مگر عراق زیادہ کا مطا لبہ کررہا تھا اور جب کویت نے نہیں مانا تو عراق نے کویت کو یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ یہ علاقہ کسی وقت ہمارا ہی صو بہ تھا۔ جس پر امریکا اورعالمی برادری (عالمی سامراج) نے عراق پر چڑھائی کر دی اورجب آج اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیرکررہا ہے تو وہی امریکا اورعالمی برادری صرف افسوس اور تشویش کا اظہارکررہے ہیں۔انھوں نے عراق کی طرح اس پر حملہ کرکے کیوں ایسا کر نے سے نہیں روکا؟ اس لیے کہ یہی عالمی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار کا طریقہ کار ہے۔

آئینی طور پر حق ہڑتال کو استعمال کرتے ہوئے سندھ اورپنجاب میں سولہ فیصد سیلزٹیکس عائدکیے جانے کے خلاف آل پاکستان آئل ٹینکرزایسو سی ایشن نے ہڑتال کرکے ملک بھر میں تیل کی سپلا ئی روک دی ۔ اس طرح کی ہڑتال ان کا آ ئینی اور قا نونی حق ہے جب کہ اسی آ ئین ا ور قانون کے تحت کرا چی یو نیور سٹی شعبہ فلسفہ کے سابق ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ، بیس کتابوں کے ترجمہ نگار اور مصنف ، پا کستان میں یونانی فلسفے کے مستند ڈاکٹر ظفرعارف جن کا دو بار بائی پاس ہوچکا ہے اور ان کی عمر 80 برس ہے ، ان کے معقول ، بروقت اور بہتر علاج کی سہولت کے لیے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ پریس کلب میں پریس کانفر نس کرنے جا رہے تھے۔

کراچی یونیورسٹی سے روانگی کے دوران قانون نافذ کر نیوالے ادارے نے یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹرمہر افروز مراد اور لیکچرر نغمانہ شیخ کو حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ بعد ازاں جامعہ کراچی کے اساتذہ کی تنظیم کے عہدیداروں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کر تے ہو ئے کہا کہ مذکورہ لوگ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پریس کا نفر نس کرنے آئے تھے۔

ڈاکٹر نوین حیدر نے کہا کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ، ہم ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو علاج کی سہولتوں کی فرا ہمی کے لیے پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ جہاں کے حکمراں طبقات چاہے حزب اقتدارکے ہوں یا حزب اختلاف کے ، نوکر شاہی ہو سب اربوں روپے کی لوٹ مار میں لگے ہو ئے ہیں جب کہ ایک بیمار پروفیسرکو علاج کی سہو لت میسر نہیں ۔

ہر چند کہ ہندوستان کی مو دی سر کارانتہا ئی رجعتی ، سامراج نواز اور سرمایہ داروں کی حکو مت ہے۔اس کے باوجودگزشتہ برس ستمبر میں کمیونسٹ پارٹی آ نڈیا کے کال پر 18کروڑ لوگوں کی ہڑتال اور عوامی مطا لبات پر مجبور ہوکر قومی اسمبلی میں ایک بل منظور ہوگیا جو قابل رشک ہے اور قابل تقلید بھی ۔ وہ یہ ہے کہ خواتین کو زچگی پر 26 ہفتے بشمول تنخواہوں کے چھٹی اوردو بچوں سے زیادہ پیدا ہو نے پر بارہ ہفتے کی چھٹی بشمول تنخواہوں کے ہوگی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو کہ بہت سے یورپی اورایشیائی ملکوں میں بھی نہیں ہوا ہے۔

زچگی کے دوران سب سے زیادہ سہولت کیوبا، کینیڈا اور ناروے کے بعد ہندوستان ہے۔ آئین اور قانون کی ایک اورزبردست خلاف ورزی ہے، میرے خیال میں خصوصا پاکستان اورعموما پسماندہ ملکوں میں ہے اور وہ ہے کہ تھانوں میں ایف آئی آر درج کروانا ۔ ایف آئی آر تین صورتوں میں درج کی جاتی ہیں، صاحب جائیداد طبقے کے لوگ ہوں، نامور شخصیات یا پھر جو ننانوے فیصد لوگوں کی رشوت کے ذریعے۔ جب کہ ایف آئی آرہر شخص کا درج کروانا قانونی اورآئینی حق ہے۔

پولیس کا پہلا حرف ''پی'' ہے جس کا مطلب پولائٹ یعنی نرمی۔کیاکوئی پو لیس والا عوام سے نرمی سے بات کرتا ہے ؟ جواب نفی میں ملے گا۔ اسی لیے عوام بھی برہمی کا اظہار کرتے ہیں ، تھانہ کلچر خوف میں مبتلا کرتا ہے اس لے وہاں جانے سے گھبراتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کا درد مند با رحم دل کوئی نہیں ، ایس ایچ او (پولیس افسر) تھانے میں بیٹھنے کے بجائے کو ئی بھیڑیا عوام کو کاٹ کھانے کے لیے بیٹھا ہے۔ اگرکوئی کہیں غیرقانونی عمل یا حر کت دیکھ لے اور تھانے میں جائے تو الٹا اسے ہی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور سوال کیا جا تا ہے کہ ''تمھیں کیسے معلوم ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تم خوداس میں ملوث ہو۔''

اس خوف سے لوگ تھانے جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ میں (راقم) چشم دید گواہ ہوں ، میری گلی میں سا ئیکل سوار ایک دھو بی پر ویز لو گوں کے میلے کپڑے لینے آ تا ہے اور دھوکر واپس کردیتا ہے۔ ایک روز گلی کے کو نے پہ اپنی سائیکل کھڑی کر کے کسی کو دھلے ہوئے کپڑے پہنچانے گیا ، اسی دوران جب واپس آیا تو اس کے با قی کپڑے غائب تھے ۔ تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گیا تو ایس ایچ او نے پندرہ سو رو پے لے لیے اور ایف آئی آر بھی نہیں کاٹی۔ ٹھیکیداری نظام میں بھی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ وفا قی اردو یو نیورسٹی عبدالحق کیمپس کرا چی کے پچاس اساتذہ کوگزشتہ تین ماہ سے نہ کوئی لیٹر ملا اور نا ہی تنخواہیں ۔ اس کیمپس میں تین ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اورکچھ اساتذہ کوگزشتہ برس سے تنخواہوں کی ادا ئیگی ہوئی اور نہ انھیں مستقل کیا گیا ۔ انجمن اساتذہ وفاقی اردو یو نیورسٹی عبد الحق کیمپس کے جنر ل سیکریٹری عرفان عزیز نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایک ہفتے میں ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو پھر وہ ہڑتال پہ چلے جائیں گے ۔اس لیے مسا ئل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی نظام میں مضمر ہے جہاں سب مل کرکام کریں اور مل کرکھائیں ۔ وہ دن جلد آ نیوا لا ہے جب کوئی ارب پتی ہوگا اورنہ کوئی گدا گر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔