روا ہوں مکالمے کچھ اس طرح۔۔۔
سماجی ذرائع اِبلاغ کے حوالے سے منعقدہ ’سیک‘ سیمینار کا احوال
KARACHI:
اظہار کے ذرائع وسیع ہوئے، 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (Social Media) سامنے آئے، کہ لوگ دور بھی ہیں، مگر پاس ہیں، باسہولت تبادلۂ خیال کو راہ ملی، ملے جلے خیالات کے حامل لوگوں کا تعارف ہوا۔
ہزاروں میل دور زندگی کرنے والوں کی گفت وشنید سے ایک دوجے کو قائل کرنے کی کوشش ہوئی، لکھنے والے کافی تھے تو پڑھنے والے بھی بہت۔۔۔ تحریر کو سراہا گیا، قارئین کی رائے تبدیل بھی ہوئی اور کچھ اختلافات کی جہتیں بھی نئی روشنیوں سے روشناس ہوئیں۔ ایسے میں کمپیوٹر کے روشن پردے پر ہونے والی اس میل ملاقات کو عملی شکل دینے کا خیال کوندا اور اسے عملی شکل دی گئی۔
اسی سلسلے میں 4 مارچ 2017ء کی شام کراچی کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں محفل سجی۔ یہ اہتمام 'سیک' نامی تنظیم کی جانب سے کیا گیا، جس کے روح رواں ثاقب ملک ہیں۔ سیک (SEEK) مخفف ہے Synergy, Enlightenment, Education, knowledge کا، جو اس سے قبل ایسی ہی ایک بیٹھک اسلام آباد اور لاہور بھی منعقد کرا چکے ہیں۔
کراچی کی اس محفل میں دولہائے محفل اردو میں سو لفظوں کی کہانیوں کو متعارف کرانے والے مبشر علی زیدی تھے، بقول شخصے نہیں معلوم، وہ بولتے زیادہ اچھا ہیں، یا لکھتے زیادہ اچھا ہیں۔ 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے روح رواں شکیل عادل زادہ اور دانش وَر اعجاز منگی بھی رونق افروز رہے۔
محمد عامر خاکوانی، عاطف حسین، حافظ صفوان اور دیگر مہمان بطور خاص سیمنار میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ جمیل خان، رانا محمد آصف، اقبال خورشید، عمار یاسر زیدی، فیض اللہ، محمد طاہر، اعظم معراج اور دیگر نے بھی محفل کو چار چاند لگائے۔ ہر نشست میں باقاعدہ سوال وجواب کا سلسلہ تھا، اور کیوں نہ ہوتا آخر سب لوگ سماجی ذرایع اِبلاغ کے جو تھے، یک طرفہ اِبلاغ کیوں کر ہوتا۔۔۔
ڈاکٹر اسحق عالم نے آئمہ مساجد کے کردار پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ریاستوں میں وسعت کی بنا پر ابتداً کچھ ریاستی امور مسجد سے منتقل ہوئے، تاہم عباسی دور تک حاکم منبر سے جڑے رہے، آج کے حاکموں کو بھی منبر کی ذمہ سنبھالنا چاہیے، تاکہ وہ عوام کی دستِ رس میں رہیں اور جواب دہ ہوں، مگر یہ سوال تشنہ ہی رہ گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا، کہ منبر پہ موجود خطیب سے بھی تو سوال کی روایت دکھائی نہیں دیتی؟
عاطف حسین نے نہایت دل چسپ انداز میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کا پردہ چاک کیا، کہ اگر کسی ملک کی بدعنوانی میں درجہ بندی بہتر ہوئی ہے، تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بدعنوانی کم ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے سوم آنے والے بچے کی کلاس کے اول اور دوم آنے والے بچے خارج ہوجائیں، تو سوم آنے والا اول آجائے۔ اسی طرح انہوں نے کئی مثالیں پیش کرکے لوگوں کے مغالطے دور کرنے کی کوشش کی۔
ایک نشست میں تین نئی کتابوں پر گفتگو کی گئی۔ مطالعے کی عادت کو زک پہنچانے والے 'سماجی ذرایع اِبلاغ' کی بیٹھک میں مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کی بات خاصی بھلی معلوم ہوئی، یہ شاید ضروری بھی تھا۔ پھر جب 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے روح رواں شکیل عادل زادہ منچ پر براجمان ہوئے، تو پھر بہت دیر تک ساری سماعتوں کا مرکز اور نگاہوں کا محور صرف وہی رہے۔۔۔ 'سب رنگ' کے آغاز سے اس کے مسائل، تعداد اور بندش تک۔۔۔ زبان وبیان کی الجھنوں سے اس کے مستقبل کی تشویش تک۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں سب کہتے چلے گئے، جوں ہی بولنے کی باری اِن کے سامعین کی آئی تو ان سے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کو بحال کرنے کی خواہش کی گئی۔۔۔ 'بازی گر' اور اس طرح کے دیگر سلسلے وار کہانیوں کو آگے بڑھانے اور مکمل کرنے کے بارے میں استفسار ہوا۔ انہوں نے ان سب کے جواب مشروط آمادگی کے ساتھ دیے۔ اس کے ساتھ اس سیمنار کی دو اہم ترین نشستیں بھی تھیں۔
اول 'ایم کیوایم کا ماضی حال اور مستقبل' جس پر عمار یاسر زیدی نے شروع سے لے کر آج تک ایک اچٹتی نگاہ ڈالی۔ دوسری بیٹھک ''کیا کراچی بدل رہا ہے؟'' کے عنوان سے استوار تھی، چوں کہ عام ذرایع اِبلاغ سے لے کر 'فیس بک' تک یہ ایک نہایت چبھتا ہوا موضوع ہے، سو اس کی چبھن یہاں بھی واضح طور پر محسوس کی گئی۔
اس سیمینار میں بائیں بازو کے دانش وَر اعجازمنگی نے بھی علمی موتی بکھیرے۔ ان کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ سماجی ذرایع اِبلاغ سے دراصل لوگ جڑ نہیں رہے، بلکہ کٹ رہے ہیں۔ کہتے ہیں، فیس بک بنانے والوں نے اسے اپنے مفاد کے لیے بنایا، یہاں لوگوں کا جُڑنا ایک وہم ہے۔ فیس بک کے 'فالوورز' اور 'لائکس' کو انہوں نے 'جھوٹا' قرار دیا اور پوچھا کہ ماڈل قندیل بلوچ کے فیس بک پر کتنے 'لائکس' تھے اور جب وہ قتل ہوئی، تو اس کے جنازے پر کتنے افراد شریک ہوئے۔
ایک طرح سے اُن کی یہ بات زیادہ غلط نہیں، لیکن ایک بات یہ بھی تو ہے کہ قندیل بلوچ کا گاؤں فیس بک کی طرح 'عالم گیر' بھی تو نہیں تھا۔ اعجاز منگی نے 'فیس بک' کو ایک منڈی سے تعبیر کیا، جہاں اچھی چیز بھی فروخت کی جاتی ہے اور بری چیز بھی سجا دی جاتی ہے۔ سماجی ذرایع اِبلاغ نے سب کو 'صحافی' بنا دیا ہے، جو خطرناک ہے، یہاں بہت کچھ اچھا بھی ہے، لیکن مجموعی طور پر اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے، یہ سام راجی مفادات کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
سیمینار میں کراچی کے حاضرین اور بلاگرز کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی، تاہم اس کے باوجود فیس بک کے کسی 'صفحے' اور کسی 'پوسٹ' کی طرح یہاں بھی مختلف قسم کی آرا سامنے آئیں۔ جیسے فیس بک پر تبصرہ کرتے ہوئے کبھی کہیں پر شائستگی کچھ کم ہوجاتی ہے اور تلخی در آتی ہے، ایسا ہی ماجرا کچھ اس سیمینار میں بھی سوال جواب کے دوران دیکھنے میں آیا۔ بعض اچھے خاصے سمجھ دار افراد بھی اپنی مرضی کا جواب حاصل کرنے کے لیے مُصر نظر آئے، جس سے ناموافق حقائق سے منہ موڑنے کی سماجی روش جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی، تاہم مجموعی طور پر ڈھلتی شام سے رات گئے جاری رہنے والی اس محفل میں درجنوں 'فیس بک' صارفین پہلی بار ایک دوسرے کے روبرو ہوئے، کئی فرضی تصاویر کے پیچھے چھپے ہوئے صارفین سامنے آئے۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود ماحول بھر میں خوش گوار ہم آہنگی رہی، ایک دوسرے سے مکالمے کی روایت پختہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ منچ سے بھی مختلف مقررین نے مختلف مسائل پر کھلے ذہن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا، نظریاتی اور اختلافی مسافت کو مکالمے کی کمی تسلیم کیا گیا، جو خوش آیند امر ہے۔
اظہار کے ذرائع وسیع ہوئے، 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (Social Media) سامنے آئے، کہ لوگ دور بھی ہیں، مگر پاس ہیں، باسہولت تبادلۂ خیال کو راہ ملی، ملے جلے خیالات کے حامل لوگوں کا تعارف ہوا۔
ہزاروں میل دور زندگی کرنے والوں کی گفت وشنید سے ایک دوجے کو قائل کرنے کی کوشش ہوئی، لکھنے والے کافی تھے تو پڑھنے والے بھی بہت۔۔۔ تحریر کو سراہا گیا، قارئین کی رائے تبدیل بھی ہوئی اور کچھ اختلافات کی جہتیں بھی نئی روشنیوں سے روشناس ہوئیں۔ ایسے میں کمپیوٹر کے روشن پردے پر ہونے والی اس میل ملاقات کو عملی شکل دینے کا خیال کوندا اور اسے عملی شکل دی گئی۔
اسی سلسلے میں 4 مارچ 2017ء کی شام کراچی کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں محفل سجی۔ یہ اہتمام 'سیک' نامی تنظیم کی جانب سے کیا گیا، جس کے روح رواں ثاقب ملک ہیں۔ سیک (SEEK) مخفف ہے Synergy, Enlightenment, Education, knowledge کا، جو اس سے قبل ایسی ہی ایک بیٹھک اسلام آباد اور لاہور بھی منعقد کرا چکے ہیں۔
کراچی کی اس محفل میں دولہائے محفل اردو میں سو لفظوں کی کہانیوں کو متعارف کرانے والے مبشر علی زیدی تھے، بقول شخصے نہیں معلوم، وہ بولتے زیادہ اچھا ہیں، یا لکھتے زیادہ اچھا ہیں۔ 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے روح رواں شکیل عادل زادہ اور دانش وَر اعجاز منگی بھی رونق افروز رہے۔
محمد عامر خاکوانی، عاطف حسین، حافظ صفوان اور دیگر مہمان بطور خاص سیمنار میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ جمیل خان، رانا محمد آصف، اقبال خورشید، عمار یاسر زیدی، فیض اللہ، محمد طاہر، اعظم معراج اور دیگر نے بھی محفل کو چار چاند لگائے۔ ہر نشست میں باقاعدہ سوال وجواب کا سلسلہ تھا، اور کیوں نہ ہوتا آخر سب لوگ سماجی ذرایع اِبلاغ کے جو تھے، یک طرفہ اِبلاغ کیوں کر ہوتا۔۔۔
ڈاکٹر اسحق عالم نے آئمہ مساجد کے کردار پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ریاستوں میں وسعت کی بنا پر ابتداً کچھ ریاستی امور مسجد سے منتقل ہوئے، تاہم عباسی دور تک حاکم منبر سے جڑے رہے، آج کے حاکموں کو بھی منبر کی ذمہ سنبھالنا چاہیے، تاکہ وہ عوام کی دستِ رس میں رہیں اور جواب دہ ہوں، مگر یہ سوال تشنہ ہی رہ گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا، کہ منبر پہ موجود خطیب سے بھی تو سوال کی روایت دکھائی نہیں دیتی؟
عاطف حسین نے نہایت دل چسپ انداز میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کا پردہ چاک کیا، کہ اگر کسی ملک کی بدعنوانی میں درجہ بندی بہتر ہوئی ہے، تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بدعنوانی کم ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے سوم آنے والے بچے کی کلاس کے اول اور دوم آنے والے بچے خارج ہوجائیں، تو سوم آنے والا اول آجائے۔ اسی طرح انہوں نے کئی مثالیں پیش کرکے لوگوں کے مغالطے دور کرنے کی کوشش کی۔
ایک نشست میں تین نئی کتابوں پر گفتگو کی گئی۔ مطالعے کی عادت کو زک پہنچانے والے 'سماجی ذرایع اِبلاغ' کی بیٹھک میں مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کی بات خاصی بھلی معلوم ہوئی، یہ شاید ضروری بھی تھا۔ پھر جب 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے روح رواں شکیل عادل زادہ منچ پر براجمان ہوئے، تو پھر بہت دیر تک ساری سماعتوں کا مرکز اور نگاہوں کا محور صرف وہی رہے۔۔۔ 'سب رنگ' کے آغاز سے اس کے مسائل، تعداد اور بندش تک۔۔۔ زبان وبیان کی الجھنوں سے اس کے مستقبل کی تشویش تک۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں سب کہتے چلے گئے، جوں ہی بولنے کی باری اِن کے سامعین کی آئی تو ان سے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کو بحال کرنے کی خواہش کی گئی۔۔۔ 'بازی گر' اور اس طرح کے دیگر سلسلے وار کہانیوں کو آگے بڑھانے اور مکمل کرنے کے بارے میں استفسار ہوا۔ انہوں نے ان سب کے جواب مشروط آمادگی کے ساتھ دیے۔ اس کے ساتھ اس سیمنار کی دو اہم ترین نشستیں بھی تھیں۔
اول 'ایم کیوایم کا ماضی حال اور مستقبل' جس پر عمار یاسر زیدی نے شروع سے لے کر آج تک ایک اچٹتی نگاہ ڈالی۔ دوسری بیٹھک ''کیا کراچی بدل رہا ہے؟'' کے عنوان سے استوار تھی، چوں کہ عام ذرایع اِبلاغ سے لے کر 'فیس بک' تک یہ ایک نہایت چبھتا ہوا موضوع ہے، سو اس کی چبھن یہاں بھی واضح طور پر محسوس کی گئی۔
اس سیمینار میں بائیں بازو کے دانش وَر اعجازمنگی نے بھی علمی موتی بکھیرے۔ ان کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ سماجی ذرایع اِبلاغ سے دراصل لوگ جڑ نہیں رہے، بلکہ کٹ رہے ہیں۔ کہتے ہیں، فیس بک بنانے والوں نے اسے اپنے مفاد کے لیے بنایا، یہاں لوگوں کا جُڑنا ایک وہم ہے۔ فیس بک کے 'فالوورز' اور 'لائکس' کو انہوں نے 'جھوٹا' قرار دیا اور پوچھا کہ ماڈل قندیل بلوچ کے فیس بک پر کتنے 'لائکس' تھے اور جب وہ قتل ہوئی، تو اس کے جنازے پر کتنے افراد شریک ہوئے۔
ایک طرح سے اُن کی یہ بات زیادہ غلط نہیں، لیکن ایک بات یہ بھی تو ہے کہ قندیل بلوچ کا گاؤں فیس بک کی طرح 'عالم گیر' بھی تو نہیں تھا۔ اعجاز منگی نے 'فیس بک' کو ایک منڈی سے تعبیر کیا، جہاں اچھی چیز بھی فروخت کی جاتی ہے اور بری چیز بھی سجا دی جاتی ہے۔ سماجی ذرایع اِبلاغ نے سب کو 'صحافی' بنا دیا ہے، جو خطرناک ہے، یہاں بہت کچھ اچھا بھی ہے، لیکن مجموعی طور پر اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے، یہ سام راجی مفادات کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
سیمینار میں کراچی کے حاضرین اور بلاگرز کی کمی واضح طور پر محسوس کی گئی، تاہم اس کے باوجود فیس بک کے کسی 'صفحے' اور کسی 'پوسٹ' کی طرح یہاں بھی مختلف قسم کی آرا سامنے آئیں۔ جیسے فیس بک پر تبصرہ کرتے ہوئے کبھی کہیں پر شائستگی کچھ کم ہوجاتی ہے اور تلخی در آتی ہے، ایسا ہی ماجرا کچھ اس سیمینار میں بھی سوال جواب کے دوران دیکھنے میں آیا۔ بعض اچھے خاصے سمجھ دار افراد بھی اپنی مرضی کا جواب حاصل کرنے کے لیے مُصر نظر آئے، جس سے ناموافق حقائق سے منہ موڑنے کی سماجی روش جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی، تاہم مجموعی طور پر ڈھلتی شام سے رات گئے جاری رہنے والی اس محفل میں درجنوں 'فیس بک' صارفین پہلی بار ایک دوسرے کے روبرو ہوئے، کئی فرضی تصاویر کے پیچھے چھپے ہوئے صارفین سامنے آئے۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود ماحول بھر میں خوش گوار ہم آہنگی رہی، ایک دوسرے سے مکالمے کی روایت پختہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ منچ سے بھی مختلف مقررین نے مختلف مسائل پر کھلے ذہن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا، نظریاتی اور اختلافی مسافت کو مکالمے کی کمی تسلیم کیا گیا، جو خوش آیند امر ہے۔