پچھلے پانچ سال کے دوران پیپلزپارٹی کا کردار واضح نہیں رہا
طاہر القادری کی پشت پر وہی قوتیں ہیں جو عمران خان کے پیچھے تھیں، سینیٹر مشاہد اللہ خان
ملکی حالات میں اس وقت شدید کشیدگی پائی جارہی ہے۔
ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کا نظام کی تبدیلی کیلئے لانگ مارچ ہے تو دوسری طرف بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر پاکستانی علاقے میں کئی روزتک شدید گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اورکوئٹہ میں دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے اورہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا مؤقف جاننے کیلئے روزنامہ ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہداﷲ خان نے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد مہدی کے ہمراہ شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں کی گئی ان کی گفتگو قارئین کے مطالعہ کیلئے پیش کی جارہی ہے۔
مشاہداللہ خان
مرکزی سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ(ن) و سینیٹر
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کچھ دنوں سے ملک میں تماشہ لگایا ہوا ہے انکی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کیا اور اب بھی نظام تلپٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کے کسی اقدام سے کبھی بھی جمہوریت کو فائدہ ہوا ہو۔
جمہوریت میں مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھی ہیں مگر پچھلے کچھ عرصے میں جو انتخابی اصلاحات ہوئی ہیں ان سے کافی بہتری آئی ہے اور مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان کی پشت پر وہی قوتیں ہیں جو عمران خان کے پیچھے تھیں،ان کے غبارے سے ہوا بھی نکل جائے گی۔ ان کی پاکستان آمد کی وجہ یہ ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے وقت پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہ ہو۔افغانستان میں 40ممالک کی افواج کے ساتھ ان کی ایجنسیاں بھی موجود ہیں جو فنڈنگ کرکے اس طرح کے مہرے سامنے لارہی ہیں۔
اس طرح کے ڈراموں سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی۔انتخابی اصلاحات کی ضرورت 2002ء کے انتخابات میں تھی جب وفاقی حکومت، تمام صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن مشرف کا غلام تھا مگر اس وقت یہ ان کے ساتھ تھے تب انہیں اصلاحات کا خیال نہیں آیا حالانکہ وہ خود آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہیں اترتے تھے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کا ان کے خلاف فیصلہ موجود ہے، انہوں نے تو نیشنل ٹیکس نمبر بھی 2004ء میں لیا ہے۔
نظام بدلنے کا خیال انہیں اس وقت آنا چاہیئے تھا جب مشرف نے ملک کی جڑیں ہلا دیں تھیں اس وقت تو وہ اس نظام کو مضبوط کرنے کا موجب بنے تھے، مشرف کے اقدامات کی وجہ سے بلوچستان میں علیحدگی کی آوازیں آرہی تھیں اور جب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو قتل کیا گیا اس وقت یہ کہاں تھے،اس وقت بھی انہیں خیال نہیں آیا جب لال مسجد میں قتل عام کیا جارہا تھا اس وقت انہیںزیادہ خیال آنا چاہیے تھا۔ طاہرالقادری ایک مشکوک شخص ہے اور مشکوک شخص ہمیشہ کسی اور کو سروس مہیا کرتا ہے۔ آج 2008ء سے بہتر قوانین و ضابطے موجود ہیں اور یہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنائے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک آزاد الیکشن کمشنر ہے اور پہلی دفعہ ایسا ہونے جارہا ہے کہ نگران حکومت کے پیچھے چھپے ہوئے لوگ نہیں ہوں گے۔
یہ خوش آئند بات ہے چاہیئے تو یہ تھا کہ آپ اس کو سپورٹ کرکے مضبوط کرتے بجائے اس کے کہ اس کو سپورٹ کیا جائے وہ اس کو تلپٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نظام بدلنے کا حق اسے ہے جو ملک کے اندر رہتا ہے اور الیکشن لڑ سکتا ہے۔ طاہر القادری تو دوہری شہریت رکھنے کے باعث الیکشن لڑنے کے بھی اہل نہیں بلکہ آئین کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والا تو کسی پارٹی کا عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا، وہ صرف ذاتی مقاصد کیلئے ملک میں انارکی پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں 40ممالک کی فوج موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی وہاں ہیں انہیں ایجنسیوں نے فنڈ دیئے ہیں تاکہ افغانستان سے محفوظ طریقے سے نکل سکیں اب وہ کچھ نہ کچھ چمتکار تو دکھائیں گے۔ ان کے پیچھے مغربی آقا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔
امریکہ چاہتا ہے کہ 2014ء میں جب وہ افغانستان سے نکلے تو پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہ ہو اور ان کو اپنی مرضی چلانے کا موقع مل جائے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) ہی ایسی جماعت ہے جو آئندہ مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور یہ اسی کا راستہ روکنے کی کوشش ہے۔ قا ئداعظم نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی سسٹم ہوگا مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس نظام کو اکھاڑ کر پھینک دیں۔ کبھی وہ کہتے کہ نگران وزیراعظم بننا چاہتاہوں اور کبھی کہتے ہیں اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکوں گا۔
دوسری طرف ایم کیو ایم ان کے ساتھ بھی ہے اور حکومت میں بھی ہے،وہ واضح کریں کہ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ ایم کیو ایم آج بھی حکومت میں ہے تو طاہر القادری کس کے خلاف لانگ مارچ کررہے ہیں۔ایسی قوتیں جو عدلیہ کی بحالی کے بعد بھی ملک میں نگران حکومت کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہیں اور چاہتی تھیں کہ ان کی مرضی کی نگران حکومت بنے اب بھی وہی قوتیں چاہتی ہیں کہ یہ نظام آگے نہ چل سکے انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کا انداز عمران خان والا ہی ہے وہ انتخابات میں تو ایک کونسلر کی سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکتے مگر نگران وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔
جس کا انہوں نے اعلان بھی کیا مگر بعد میں اپنا بیان بدل لیا۔عمران خان اور طاہر القادری دونوں ایک ایک دفعہ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں مگر دونوں نے اس وقت نظام کی تبدیلی کیلئے کوئی کام نہیں کیا مگر اب نظام بدلنے کے نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ انقلاب اس طرح نہیں آتے بلکہ اس کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں،ماؤزے تنگ جیسے انقلاب کی یہ جو بات کرتے ہیں تو اس جیسی ٹیم بھی ہونی چاہیئے یہ انقلاب نہیں بلکہ ملک کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔
اس وقت پنجاب کے عوام دیگر صوبوں کی نسبت جنت میں رہ رہے ہیں، عمران خان اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مک مکا کی بات کریں تو دکھ نہیں کیونکہ ان کے پاس الفاظ نہیں ہوتے بات کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہوتے اور سیاسی جماعتوں میں ان کو سیریس نہیں لیا جاتاتاہم اگر طاہرالقادری ایسا کریں تو افسوس ہوتا ہے کہ وہ خود کو شیخ الاسلام کہتے ہیں ان کے پاس تو الفاظ کی کمی نہیںہونی چاہیئے۔ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں ہم طاہرا لقادری سے خوفزدہ ہیں تو یہ غلط ہے ہاں یہ ہے کہ ہم نے انہیں سیریئس لیا ہے اور ان پر تنقید کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو ان کے اصل چہرے کا پتہ چل سکے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا کردار واضح نہیں بلکہ پچھلے پانچ سال میں کبھی بھی ان کا کردار واضح نہیں رہاان کے کردار کے ابھی تک کوئی بھی مطمئن نہیں رہا، اگر ان سے مطمئن ہوتے تو ہم ایک ماہ بعد حکومت سے نہ نکلتے بلکہ ابھی تک حکومت میں ہوتے۔چوہدری برادران اس غریب الوطن ہیں انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے یہ سب لوگ مشرف کی باقیات ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت ملک کے اندر جو صورتحال ہے اس میں صرف ایک لیڈر ہے جو ملک کو بہتری کی طرف لے جاسکتا ہے اور وہ ہے نواز شریف۔
نواز شریف پر تمام لوگ اعتماد کرتے ہیں وہ بلوچستان کے عوام ہوں یا دیگر صوبوں کے اور بلوچستان میں تمام لیڈرز نے نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان سے ہر قسم کی بات چیت کی تائید کی ہے یہاں تک کہ براہمداغ بگٹی نے بھی ان سے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ بلوچ رہنماء صرف نوازشریف پر اعتماد کرتے ہیں اور نواز شریف حکومت میں آکر بلوچستان کا مسئلہ حل کریں گے۔ اس وقت صرف مسلم لیگ(ن) ہی ایسی جماعت ہے جو ملک میں مستحکم حکومت بناسکتی ہے اس کا رستہ روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کا اتحاد بھی اسی سلسلے میں ہے۔ آئندہ الیکشن میں ہم نے ایک دو قوم پرست جماعتوںسے بات چیت کی ہے اور جماعت اسلامی سے بھی بات چیت چل رہی ہے مگر ابھی معاملات طے نہیںہوئے۔اس وقت تک نگران حکومت کا اعلان نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی پارٹی کو بہت سے پنچھیوں کے اڑنے کا خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت 5سال صرف ہماری وجہ سے چل سکی ہے کیونکہ انہوں نے تو اپنی حکومت کے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اگر ہم جمہوریت کی بقاء کے باعث ان کا ساتھ نہ دیتے تو ان کی حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔
کنٹرول لائن پر ہونے والی بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج میں بھی پرویز مشرف کی سوچ کے لوگ موجود ہیں وہ بھی نہیں چاہتے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے اور ان کی روٹیاں لگی رہیں کیونکہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے تو ان سے یہ سوال بھی شروع ہوجائے گا کہ اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت ہے اس وقت صورتحال ویسی ہے جو اس وقت تھی جب کارگل کا واقعہ ہوا اس وقت بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری آرہی تھی اب بھی حالات بہتری کی طرف جارہے تھے۔
بھارتی فوج بھی ایک حد سے زیادہ تعلقات نہیں چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا کر یہ ثابت کردیا ان کی طرف سے جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبہ کی حمایت صرف سندھ کی تقسیم کی راہ ہموار کرنے کیلئے تھا مگر مسلم لیگ(ن) سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی۔
ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کا نظام کی تبدیلی کیلئے لانگ مارچ ہے تو دوسری طرف بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر پاکستانی علاقے میں کئی روزتک شدید گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اورکوئٹہ میں دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے اورہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا مؤقف جاننے کیلئے روزنامہ ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہداﷲ خان نے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد مہدی کے ہمراہ شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں کی گئی ان کی گفتگو قارئین کے مطالعہ کیلئے پیش کی جارہی ہے۔
مشاہداللہ خان
مرکزی سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ(ن) و سینیٹر
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کچھ دنوں سے ملک میں تماشہ لگایا ہوا ہے انکی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کیا اور اب بھی نظام تلپٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کے کسی اقدام سے کبھی بھی جمہوریت کو فائدہ ہوا ہو۔
جمہوریت میں مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھی ہیں مگر پچھلے کچھ عرصے میں جو انتخابی اصلاحات ہوئی ہیں ان سے کافی بہتری آئی ہے اور مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ان کی پشت پر وہی قوتیں ہیں جو عمران خان کے پیچھے تھیں،ان کے غبارے سے ہوا بھی نکل جائے گی۔ ان کی پاکستان آمد کی وجہ یہ ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے وقت پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہ ہو۔افغانستان میں 40ممالک کی افواج کے ساتھ ان کی ایجنسیاں بھی موجود ہیں جو فنڈنگ کرکے اس طرح کے مہرے سامنے لارہی ہیں۔
اس طرح کے ڈراموں سے جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی۔انتخابی اصلاحات کی ضرورت 2002ء کے انتخابات میں تھی جب وفاقی حکومت، تمام صوبائی حکومتیں اور الیکشن کمیشن مشرف کا غلام تھا مگر اس وقت یہ ان کے ساتھ تھے تب انہیں اصلاحات کا خیال نہیں آیا حالانکہ وہ خود آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہیں اترتے تھے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کا ان کے خلاف فیصلہ موجود ہے، انہوں نے تو نیشنل ٹیکس نمبر بھی 2004ء میں لیا ہے۔
نظام بدلنے کا خیال انہیں اس وقت آنا چاہیئے تھا جب مشرف نے ملک کی جڑیں ہلا دیں تھیں اس وقت تو وہ اس نظام کو مضبوط کرنے کا موجب بنے تھے، مشرف کے اقدامات کی وجہ سے بلوچستان میں علیحدگی کی آوازیں آرہی تھیں اور جب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کو قتل کیا گیا اس وقت یہ کہاں تھے،اس وقت بھی انہیں خیال نہیں آیا جب لال مسجد میں قتل عام کیا جارہا تھا اس وقت انہیںزیادہ خیال آنا چاہیے تھا۔ طاہرالقادری ایک مشکوک شخص ہے اور مشکوک شخص ہمیشہ کسی اور کو سروس مہیا کرتا ہے۔ آج 2008ء سے بہتر قوانین و ضابطے موجود ہیں اور یہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنائے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک آزاد الیکشن کمشنر ہے اور پہلی دفعہ ایسا ہونے جارہا ہے کہ نگران حکومت کے پیچھے چھپے ہوئے لوگ نہیں ہوں گے۔
یہ خوش آئند بات ہے چاہیئے تو یہ تھا کہ آپ اس کو سپورٹ کرکے مضبوط کرتے بجائے اس کے کہ اس کو سپورٹ کیا جائے وہ اس کو تلپٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نظام بدلنے کا حق اسے ہے جو ملک کے اندر رہتا ہے اور الیکشن لڑ سکتا ہے۔ طاہر القادری تو دوہری شہریت رکھنے کے باعث الیکشن لڑنے کے بھی اہل نہیں بلکہ آئین کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والا تو کسی پارٹی کا عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا، وہ صرف ذاتی مقاصد کیلئے ملک میں انارکی پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں 40ممالک کی فوج موجود ہے جس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی وہاں ہیں انہیں ایجنسیوں نے فنڈ دیئے ہیں تاکہ افغانستان سے محفوظ طریقے سے نکل سکیں اب وہ کچھ نہ کچھ چمتکار تو دکھائیں گے۔ ان کے پیچھے مغربی آقا پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ۔
امریکہ چاہتا ہے کہ 2014ء میں جب وہ افغانستان سے نکلے تو پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہ ہو اور ان کو اپنی مرضی چلانے کا موقع مل جائے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) ہی ایسی جماعت ہے جو آئندہ مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور یہ اسی کا راستہ روکنے کی کوشش ہے۔ قا ئداعظم نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی سسٹم ہوگا مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس نظام کو اکھاڑ کر پھینک دیں۔ کبھی وہ کہتے کہ نگران وزیراعظم بننا چاہتاہوں اور کبھی کہتے ہیں اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکوں گا۔
دوسری طرف ایم کیو ایم ان کے ساتھ بھی ہے اور حکومت میں بھی ہے،وہ واضح کریں کہ ایم کیو ایم کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔ ایم کیو ایم آج بھی حکومت میں ہے تو طاہر القادری کس کے خلاف لانگ مارچ کررہے ہیں۔ایسی قوتیں جو عدلیہ کی بحالی کے بعد بھی ملک میں نگران حکومت کا جواز پیدا کرنا چاہتی ہیں اور چاہتی تھیں کہ ان کی مرضی کی نگران حکومت بنے اب بھی وہی قوتیں چاہتی ہیں کہ یہ نظام آگے نہ چل سکے انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کا انداز عمران خان والا ہی ہے وہ انتخابات میں تو ایک کونسلر کی سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکتے مگر نگران وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔
جس کا انہوں نے اعلان بھی کیا مگر بعد میں اپنا بیان بدل لیا۔عمران خان اور طاہر القادری دونوں ایک ایک دفعہ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوچکے ہیں مگر دونوں نے اس وقت نظام کی تبدیلی کیلئے کوئی کام نہیں کیا مگر اب نظام بدلنے کے نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ انقلاب اس طرح نہیں آتے بلکہ اس کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں،ماؤزے تنگ جیسے انقلاب کی یہ جو بات کرتے ہیں تو اس جیسی ٹیم بھی ہونی چاہیئے یہ انقلاب نہیں بلکہ ملک کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔
اس وقت پنجاب کے عوام دیگر صوبوں کی نسبت جنت میں رہ رہے ہیں، عمران خان اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مک مکا کی بات کریں تو دکھ نہیں کیونکہ ان کے پاس الفاظ نہیں ہوتے بات کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہوتے اور سیاسی جماعتوں میں ان کو سیریس نہیں لیا جاتاتاہم اگر طاہرالقادری ایسا کریں تو افسوس ہوتا ہے کہ وہ خود کو شیخ الاسلام کہتے ہیں ان کے پاس تو الفاظ کی کمی نہیںہونی چاہیئے۔ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں ہم طاہرا لقادری سے خوفزدہ ہیں تو یہ غلط ہے ہاں یہ ہے کہ ہم نے انہیں سیریئس لیا ہے اور ان پر تنقید کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو ان کے اصل چہرے کا پتہ چل سکے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی حکومت کا کردار واضح نہیں بلکہ پچھلے پانچ سال میں کبھی بھی ان کا کردار واضح نہیں رہاان کے کردار کے ابھی تک کوئی بھی مطمئن نہیں رہا، اگر ان سے مطمئن ہوتے تو ہم ایک ماہ بعد حکومت سے نہ نکلتے بلکہ ابھی تک حکومت میں ہوتے۔چوہدری برادران اس غریب الوطن ہیں انہیں نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے یہ سب لوگ مشرف کی باقیات ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت ملک کے اندر جو صورتحال ہے اس میں صرف ایک لیڈر ہے جو ملک کو بہتری کی طرف لے جاسکتا ہے اور وہ ہے نواز شریف۔
نواز شریف پر تمام لوگ اعتماد کرتے ہیں وہ بلوچستان کے عوام ہوں یا دیگر صوبوں کے اور بلوچستان میں تمام لیڈرز نے نوازشریف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان سے ہر قسم کی بات چیت کی تائید کی ہے یہاں تک کہ براہمداغ بگٹی نے بھی ان سے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ بلوچ رہنماء صرف نوازشریف پر اعتماد کرتے ہیں اور نواز شریف حکومت میں آکر بلوچستان کا مسئلہ حل کریں گے۔ اس وقت صرف مسلم لیگ(ن) ہی ایسی جماعت ہے جو ملک میں مستحکم حکومت بناسکتی ہے اس کا رستہ روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کا اتحاد بھی اسی سلسلے میں ہے۔ آئندہ الیکشن میں ہم نے ایک دو قوم پرست جماعتوںسے بات چیت کی ہے اور جماعت اسلامی سے بھی بات چیت چل رہی ہے مگر ابھی معاملات طے نہیںہوئے۔اس وقت تک نگران حکومت کا اعلان نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی پارٹی کو بہت سے پنچھیوں کے اڑنے کا خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت 5سال صرف ہماری وجہ سے چل سکی ہے کیونکہ انہوں نے تو اپنی حکومت کے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اگر ہم جمہوریت کی بقاء کے باعث ان کا ساتھ نہ دیتے تو ان کی حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔
کنٹرول لائن پر ہونے والی بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج میں بھی پرویز مشرف کی سوچ کے لوگ موجود ہیں وہ بھی نہیں چاہتے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے اور ان کی روٹیاں لگی رہیں کیونکہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں گے تو ان سے یہ سوال بھی شروع ہوجائے گا کہ اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت ہے اس وقت صورتحال ویسی ہے جو اس وقت تھی جب کارگل کا واقعہ ہوا اس وقت بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری آرہی تھی اب بھی حالات بہتری کی طرف جارہے تھے۔
بھارتی فوج بھی ایک حد سے زیادہ تعلقات نہیں چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگا کر یہ ثابت کردیا ان کی طرف سے جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبہ کی حمایت صرف سندھ کی تقسیم کی راہ ہموار کرنے کیلئے تھا مگر مسلم لیگ(ن) سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی۔