مذاہب کے خلاف زہر افشانی

اسلام کا نچوڑ یہ ہے کہ ’’تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین‘‘۔

ayazbabar@gmail.com

ISLAMABAD:
توہین آمیز مواد کی پوسٹنگ روکنے کے لیے فیس بک پر پابندی عائد کرنے یا نہ کرنے کی بحث میں سب سے اچھی بات کالم نگار حسن نثار نے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک پر پابندی لگانا ایسا ہی ہے جیسے قاتل کو چھوڑ کر آلہ قتل کو پھانسی دے دی جائے۔ بعض خود ساختہ محافظ بار بار شور مچاتے ہیں اور بعض اوقات تشدد پر بھی اتر آتے ہیں۔ بعض حقیقی اور بعض مفروضہ ریمارکس سے جن اہل ایمان کی دل آزاری ہوتی ہے، ان سے میری گزارش ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے انبیاء کرام پر پختہ یقین رکھتے ہیں تو پھر وہ ان مقدس ہستیوں کے بارے میں بعض غیر سنجیدہ باتوں کا اچھے اور مدلل انداز میں مقابلہ کریں؟

تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ تمام تر تنقیدی حملوں کے باوجود بیشتر مذاہب مسلسل پروان چڑھتے رہے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ فروغ پانے والا دوسرا گروہ صرف ان لوگوں کا ہے جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے اور ان کی زیادہ تعداد مغربی معاشروں میں ہے۔ زیادہ تر انبیاء نے اپنے عہد میں تنقید کرنے والوں کو نظر انداز کیا اور اپنے پیغام کی تبلیغ جاری رکھی۔

ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ سیاسی و معاشی وطن حاصل کرنے کی تحریک کے دوران مذہب کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ توہین کے معاملے پر جنون پیدا کرنے میں پاکستان عام طور پر پیش پیش ہوتا ہے۔ جب کہ باقی عالم اسلام کے رہنما جو 1.5 بلین لوگوں کی نمایندگی کرتے ہیں، کم و بیش دنیا کا 70 فیصد تیل اور40 فیصد دوسرے قدرتی وسائل پیدا کرتے ہیں، دوسروں کی فکری کاوشوں پر زندگی کے معاملات جاری رکھتے ہوئے ان کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی بھی ظاہر کرتے ہیں۔

بیشتر مسلم رہنما اور عوام، دنیا میں اسلام کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب سے پریشان ہیں۔ مگر وہ نفرت کی اس لہر کا مل جل کر مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر القاعدہ اور ISIS نہ صرف اپنے پیغامات کی تشہیر بلکہ رنگروٹوں کی بھرتی کے لیے بھی سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں تو پھر مسلمان ملکوں کے لیے یہ مشکل کام نہیں ہے کہ وہ محبت اور برداشت کے مثبت پیغامات کا ایک بند باندھ دیں، تاکہ توہین آمیز اور عسکریت پسند پروپیگنڈا اس میں ڈوب جائے۔ وہ اتنے مالی وسائل رکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو اسلام کے ناقدین سے زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے دنیا کے بہترین اسکالرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی خدمات حاصل کرسکیں۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم OIC نے 2010 میں اس قسم کا عہد کیا تھا، مگر اجلاس ختم ہونے کے بعد آج تک کوئی ٹھوس چیز سامنے نہ آئی۔

انھوں نے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ اسلام کی توہین کو روکنے کے لیے کوئی ''قانونی طریقہ کار'' ہونا چاہیے، مگر یہ بات غیر واضح ہے کہ کس قسم کا قانونی قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ایک خیال یہ ہے کہ کچھ ایسے قوانین ہونے چاہئیں جیسے یورپ میں یہودیوں کے خلاف پرچار روکنے کے لیے موجود ہیں۔ مگر یہ قوانین صہیونیت کو تنقید کے خلاف تحفظ فراہم نہیں کرتے۔ ان قوانین کو صرف اس صورت میں حرکت میں لایا جا سکتا ہے جب یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جائیں اور ایک نسل کے طور پر انھیں تنقید کا ہدف بنایا جائے۔ مسلمان ایک نسل نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ، ان قوانین کا مطلب جو لوگوں کو کسی مخصوص مذہب یا اس کی متبرک شخصیات پر تنقید سے روکیں گے، یہ ہوگا کہ ان علما کو جو اپنی تقریروں میں دیگر مذاہب کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، اس سے باز رہنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مذاہب کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہوگی۔


مغربی دنیاThe Last Temptation of Christ اور ٹین کمانڈنٹس کی مزاحیہ شکل جیسی موویز بناتی ہے۔ بہت سے ممتاز مغربی مصنفین عیسائیت اور صہیونیت کے خلاف لکھتے اور بولتے رہے ہیں، مگر یہ سب کچھ عیسائیت کو دنیا کا سب سے بڑا مذہب بننے سے نہیں روک سکا۔ صہیونیت کا معاملہ مختلف ہے، کیونکہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرکے یہودیت میں آنے کی اجازت نہیں دیتی، اسی لیے دنیا میں ہر سال یہودیوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔

انڈونیشیا کے سابق صدر عبدالرحمان واحد نے بالکل صحیح کہا تھا کہ زیادہ تر مسلمان اسلام کو سمجھنے سے قاصر ہیں، جو یہ درس دیتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جائے اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے دوسروں کی اقدار کے نظام کو برداشت کرتا ہے۔ اسلام کا نچوڑ یہ ہے کہ ''تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین''۔ یہی تحمل کی روح ہے۔

بے نظیر بھٹو کے مطابق، بھارت کے مسلم اسکالر اور مصنف مولانا وحیدالدین خان نے بھی اسلامی تکثیریت کے اس خیال کی توثیق کی تھی۔ '' اسلام دوسرے مذہب کے لوگوں پر اپنے عقائد مسلط کرنے سے روکتا ہے۔ مسلم ممالک میں بھی مسلمان دوسروں پر اپنے قوانین اور ثقافت مسلط نہیں کر سکتے''۔

پچھلے 1400 سال کے دوران مسلم ممالک میں اسلام کے مختلف معاملات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص اسلامی اصولوں اور عبادات کی روح پر اصرار کرتا ہے تو لکیر کے فقیر خطرہ محسوس کرتے ہیں اور عقلیت پسندوں کے خلاف فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔

اگرچہ انتہاپسند اور عسکریت پسند اقلیت میں ہیں، مگر بدقسمتی سے ان عناصر نے خاص طور سے 9/11 کے افسوس ناک واقعے کے بعد قیادت کو اغوا کر رکھا ہے۔ ان کے عدم برداشت کے طریقے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ عوام کی واضح اکثریت کی نمایندگی نہیں کرتے اور پاکستان کے گزشتہ انتخابات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ مگر پرتشدد ہتھکنڈوں کی وجہ سے انھیں اسلام کا چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کو دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ مسلمان تحمل مزاج لوگ ہیں، ردعمل ظاہر کرنے والا کوئی رویہ اختیار کرنے کے بجائے مثبت طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انھیں اختلاف کو دبانے کا مطالبہ کرنے کی پالیسی کو ترک کر دینا چاہیے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا موقف مضبوط ہے تواس کے حق میں اعتماد کے ساتھ دلائل دیجیے۔ مذہب کو بنیاد بنا کر شعلہ بیانی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے، ایک جدید مسلم معاشرے کو آگے بڑھانا چاہییے، مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان محبت اور برداشت کو فروغ دینا چاہیے اور ایسی اچھی باتیں کرنی چاہیئں جو ہمیں مہذب انسان کے طور پر ظاہر کریں۔
Load Next Story