کتابوں سے محبت
آج جن اقوام نے کتاب سے ناتا توڑا، وہ اقوام تیزی کے ساتھ تنزلی کی گھاٹیوں میں گرتی جارہی ہیں۔
آج انسان جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر ماضی بعید کا کوئی انسان آج کے دور میں زندہ ہوکر دنیا میں آجائے تو اس کی حیرت کا ٹھکانا نہیں ہوگا، وہ آج کی ایجادات کو کوئی خواب ہی سمجھے گا۔
کہاں اونٹوں اور گھوڑوں پر کئی کئی دنوں میں چند میل سفر کرنا اور کہاں آج جہاز کے ذریعے فضاؤں میں اڑتے ہوئے گھنٹوں میں ایک سے دوسرے ملک میں پہنچ جانا، کہاں اپنے عزیز و اقارب کے کسی پیغام یا خط ملنے کا مہینوں انتظار کرنا اور کہاں آج ہزاروں میل دور کسی دوسرے ملک میں بیٹھے اپنے عزیزوں کو چھوٹی سی اسکرین پر لائیو دیکھنا ۔ یہ تو چند مثالیں ہیں، ورنہ اس سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ انسان نے یہ جتنی بھی ترقی کی ہے، یہ سب کتاب کے مرہون منت ہے۔
کتاب نے ہی انسان کو زمین سے اٹھا کر اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے۔ کتاب نے ہی انسان کو غور وفکر کرنے کا سلیقہ اور کچھ نیا کرنے کی تڑپ دی ہے۔ انسان نے جو سوچا کتاب میں لکھا اور جو پڑھا اس کو حقیقت کا روپ دینے کی سعی کی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے انسان نے اتنا کچھ ایجاد کرلیا کہ اپنی ایجادات پر انسان خود بھی حیرت آشنا ہے۔ اگر انسان کتاب سے دوستی نہ رکھتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج ترقی کی ان منازل کو نہ پاسکتا جو پاچکا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے جوکرشمے ہمارے سامنے ہیں، یہ سب صرف کتاب و علم ہی کی بدولت ہے۔
آج جن اقوام نے کتاب سے ناتا توڑا، وہ اقوام تیزی کے ساتھ تنزلی کی گھاٹیوں میں گرتی جارہی ہیں اور جو اقوام کتاب کی جتنی زیادہ دوست ہیں، وہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ کتاب سے لگن اور محبت میں اضافہ ہورہا ہے۔ لوگ چلتے پھرتے، گاڑیوں، ٹرینوں اور جہازوں میں بھی کتابیں اور اخبار پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ مطالعے کا ذوق ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے۔
ان معاشروں میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شایع ہوتی ہیں۔ تب جاکر بہت سی تحقیقات اور ایجادات سامنے آتی ہیں، کیونکہ کتابوں سے نئے نئے آئیڈیاز ملتے ہیں، عقل و فہم اور ادراک میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان نے جب بھی کتاب و علم کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کیا، اسے آگے بڑھنے میں کامیابیاں ملی ہیں۔ انسان کتاب کے وسیلے سے ترقی کی شاہراہ پر قدم رنجہ ہوا۔ کتاب نے اس کے سامنے علم وہنرکے دروازے کھول دیے۔
مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔ کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج وکمال میں اس کی ہم سفر ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ کتابوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں، جو قومیں کتاب سے رشتہ توڑ لیں تو پھر وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ بلاشبہ صرف وہی اقوام زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں، جن کا تعلق کتاب اورعلم سے مضبوط رہا ہو۔
قوموں کی زندگی کا عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق، اشاعت اور مطالعے کا عمل رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک جاتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ بن جائے اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے معاشرے کا مجموعی مزاج کتاب دوست ہونا ضروری ہے۔
اگرچہ جدید ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی ہے۔ جہاں پہلے کوئی ایک بات ڈھونڈنے کے لیے دسیویوں لائبریریوں کے چکر کاٹنا پڑتے تھے، وہاں اب موبائل کی چھوٹی سی اسکرین پر سب کچھ میسر آجاتا ہے۔ دو چار بار انگلیوں کو حرکت دیں تو کئی لائبریریاں سامنے کھل جاتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے پہلے یوں لگتا تھا کہ اکیسویں صدی کتابی دور کو بہا لے جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ عشاق کتاب آج بھی اپنا قیمتی وقت کتابیں پڑھنے اور لکھنے پر صرف کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں نئی آنے والی دو کتابیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مصنفین نے منفرد موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ پہلی کتاب ''ہمارے شہدا'' میں مصنف نے پچاس کے قریب پاک فوج کے ان شہیدوں کی وطن سے داستان عشق و محبت رقم کی ہے، جن پر کسی نے نہیں لکھا، جو شہید ہونے کے بعد بھلا دیے گئے اور گمنام ہوگئے۔ گمنام شہیدوں پر لکھے گئے مضامین کتابی شکل میں آنے سے پہلے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) کے ماہنامہ ''ہلال'' میں شایع ہوئے ، جس کے بعد ان کے معیاری ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
اس کتاب میں وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والے سپاہی سے لے کر جنرل تک کی کہانی پڑھنے کو ملے گی۔ دوسری تصنیف ''تجارتی اخلاقیات'' ہے۔ متعلقہ موضوع پر عربی اور انگلش میں تو بہت سی کتب دستیاب ہیں، مگر اردو میں اس نوعیت کی شاید یہ پہلی کتاب ہو۔ اب تک تعلیمی اداروں میں تجارت کو مغربی حوالوں سے پڑھایا جاتا ہے، مگر اب اردو میں ''تجارتی اخلاقیات'' کی دستیابی خوشی کی بات ہے۔ کتاب کے شروع میں متعدد قد آور علمی شخصیات نے شاندار تبصرے بھی کیے ہیں، جو کتاب کی اہمیت کو دو چند کردیتے ہیں۔
معاشرے میں کتاب کے مطالعے کے ذوق کو پروان چڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، مگر اس کے ساتھ اس پہلو پر بھی ضرور توجہ دینی چاہیے کہ کتابیں لکھنے کا شعور بھی بلند ہو۔ معاشرے میں مختلف شعبوں سے منسلک بہت سے افراد کا کئی کئی سال کا تجربہ ہوتا ہے۔
ان کو چاہیے اپنے تجربات کو سامنے لائیں، نئے آئیڈیاز پر بحث کریں، نئے خیالات کو کتابی شکل دیں، تاکہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ حاصل کریں اور کتابیں لکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، بلکہ حکومتی سطح پر ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، کیونکہ کتاب کا مصنف حقیقت میں قوم اور ملک کا خیر خواہ ہوتا ہے، جو برسوں کے مطالعہ و مشاہدہ کو سپرد قلم کر کے قوم کو بہت کچھ دیتا ہے، بدلے میں اسے بہت کم سرمایا ملتا ہے۔ اپنی مصروفیات میں سے قیمتی وقت نکال کر کتابوں کی شکل میں قوم کے لیے علوم کا بیش قیمت خزانہ عنایت کرنے والے مصنفین سلام پیش کیے جانے کے مستحق ہیں۔