حکومت کیلیے اقتصادی اہداف کا حصول چوتھے سال بھی ناممکن

گردشی قرضے400 ارب سے تجاوز، بجلی کی لوڈشیڈنگ 12 تک، ریکوریز اور چوری کے مسائل پرقابو نہ پایاجاسکتا

شرح نمو، بجٹ خسارہ، ٹیکس محصولات اوربرآمدات میں اضافے جیسے چیلنجز سے 4سال میں بھی نمٹا نہ جاسکا۔ فوٹو: فائل

موجودہ حکومت کے اقتصادی بحالی اور ترقی کے دعوے ہوا ہوگئے۔ مسلسل چوتھے سال بھی حکومت کی جانب سے مقررکیے گئے بیشتر اہداف کا حصول ناممکن نظر آر ہاہے۔

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی زرعی شعبہ بدحالی سے دوچار رہا۔ کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 41 لاکھ گانٹھوں کے ہدف کے مقابلے میں ایک کروڑ 6 لاکھ گانٹھیں رہیںجس کے باعث اقتصادی ترقی کے لیے مقرر کردہ 5.7فیصد کا ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا اور اس بات کا امکان نظر آر ہاہے کہ شرح نمو 5فیصد سے اوپر نہیں جائے گی اور زرعی ترقی کا ہد ف بھی 3.48فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔

حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 24ارب 70کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا تھا مگر جولائی تا فروری کے پہلے 8 ماہ کے دوران برآمدات کا حجم صرف13ارب 31کروڑ 80لاکھ ڈالر رہا، موجودہ صورتحال کے بعد برآمدات کے ہدف کا حصول کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے درآمدات کا ہدف 45ارب 20کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا تھا مگر ناقص پالیسیوں اور نامناسب اقدامات کی وجہ سے 8 ماہ میں درآمدات 33ارب 52کروڑ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جس کے بعد درآمدات کاحصول بھی مشکل نظر آر ہاہے۔

یاد رہے کہ رواں مالی سال کے لیے بجٹ خسارے کا ہدف 3.8 فیصد مقرر کیا گیا ہے جس کا حصول بھی نظر نہیں آر ہا اور امکان ہے کہ بجٹ خسارہ 4 فیصد سے زیادہ رہے گا۔ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے کی دعوی دار حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ سے منصوبوں کے لیے فنڈز کا اجرا بھی انتہائی سست روی سے جاری ہے اور اب تک 800 ارب کے فنڈز میں سے مختلف منصوبوں کے لیے صرف 483 ارب روپے ہی جاری ہو سکے ہیں۔


حکومت کی جانب سے توانائی بحران کے خاتمے کے اعلانات محض اعلان ہی رہے اورابھی تک اس سمت میں کوئی واضح بہتری نظر نہیں آر ہی، سرکلر ڈیٹ ایک مرتبہ 400 ارب کی حدسے تجاوز کر چکا ہے گرمیوں کے آغازسے ہی دیہات میں 12 جبکہ شہروں میں 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جار ہی ہے اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیاں ریکوریز کی صورتحال بہتر کرنے میں ناکام رہیں اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات بھی صرف اخبارات کی سرخیوں تک محدود رہے۔

ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ 30جون کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف کے حصول سے متعلق بھی زیادہ پر امید نہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ٹیکس وصولیوں کے لیے مقرر کردہ 3620ارب روپے کا ہدف حاصل نہیں ہوپائے گا۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ جولائی سے مارچ تک کے دوران ایف بی آر نے 2258ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا اور 3 ماہ کے دوران ہدف کے حصول کے لیے 1362ارب روپے مزید ٹیکس اکھٹا کرنا ہوگا جو ماہانہ ساڑھے 400 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتا ہے۔

واضح رہے کہ یکم جولائی سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال 2017-18کا وفاقی بجٹ مئی کے آخری ہفتے میں پیش کرنے کی تجویز ہے جبکہ مسلم لیگ نون حکومت کو گزشتہ 3 سال سے مسلسل بیشتر اقتصادی اہداف کے حصول میں ناکامی کاسامنا رہا ہے۔

 
Load Next Story