ڈرامے میں مثالی کرداروں کی تخلیق سے معاشرتی اصلاح کی جائے
ایکسپریس اِنک کے تحت اسلام آباد اور پشاور میں منعقدہ سیمینارز کی رپورٹ
NEW YORK:
ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ''ایکسپریس انک'' کے نام سے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد ملک بھر میں ڈرامہ نگاری کے حوالے سے موجود ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ''عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری'' کے موضوع پر گزشتہ دنوں اکادی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں سیمینار منعقد کیاگیا جس میں ڈرامہ نگاروں، ادباء، شعراء ، فنکاروں اور ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات سمیت طلباء و طالبات کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔ا س موقع پر ڈائریکٹر اکادمی ادبیات طارق شاہد ، مسعود ہاشمی، ظہیر چوہدری، پی ٹی وی کے سینئر پرڈیوسر باقر، ممتاز شاعر حسنین نازش، حسن عباس رضا اور اقبال حسین افکار بھی موجود تھے ۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
افتخارعارف (بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب)
اسکرپٹ کسی بھی ڈرامے کی جان ہوتا ہے۔ پروڈیوسر جتنا بھی قابل ہو خراب سکرپٹ پر اچھا ڈرامہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ڈرامہ ان ممالک میں لکھا جاتا تھاجہاں بولی جانے والی زبانوں میں اساطیری داستانیں ہوا کرتی تھیں۔سب سے پہلے ڈرامے کا آغاز یونان سے ہوا جبکہ انگریزدورمیں برصغیر میں ڈرامہ شروع ہوا۔ تقسیم کے بعد پاکستان اورہندوستان میں بھی ڈرامے کا رواج جاری رہا۔ ڈرامہ تو سٹیج پر بھی ہوتا تھا لیکن ریڈیو وہ واحدادارہ تھاجس میں انتہائی قابل ترین اورمعروف لوگ کام کرتے تھے۔ جو اپنی تحریر، زبان اور آواز کے جاود سے اپنا الگ مقام رکھتے تھے۔
جدید دور میں بھی ان نامور افراد کوقدراورعزت کی نگاہ سے دیکھا اورجاناجاتا ہے۔ ترقی کے اس دور میں اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی اہمیت کو کسی صورت کم نہیں کیاجاسکتاہے۔ پی ٹی وی کے آغاز میں صرف 10سے 12ایسے لوگ تھے جنہیں معاوضہ ملتا تھا اور انہیں بہترین کہا جاتا تھا۔ ان میں خواجہ معین الدین، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، رفیع پیر، انتظارحسین ، علی بابا، ریاض فشوری ،سلیم احمد و دیگر شامل تھے۔ادب سے ڈرامہ ریڈیو میں آیا اور پھر ٹی وی پر پہنچا مگر اب جسے کچھ بھی لکھنا آتا ہے وہ پہلے دن سے کالم لکھنا چاہتا ہے اور اگر یہ بھی نہیں آتا تو ڈرامہ لکھ رہا ہے۔
پرائیویٹ چینلوں کے بعد آنے والی یہ تبدیلی فطری ہے۔ ہمارے ہاں ڈرامے کو بعد میں فروغ دینے والوں میں فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، انور مقصود ، منو بھائی، امجد اسلام امجد و دیگر شامل ہیں جنہوںنے بہت محنت کی اور اپنی دلفریب تحریوں سے عوام کو اپنا گرویدہ بنایا۔ آج کے لکھاری محنت نہیں کرنا چاہتے اور ابتداء میں ہی 50 اقساط کا ڈرامہ لکھ لیتے ہیں اور اگر انہیں کچھ کہا جائے تو برا مان لیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ڈرامہ کی مشق کی جاتی تھی اور ڈرامے تحریر کرنے سے پہلے ہم اپنے اساتذہ سے مشاورت اور معاونت حاصل کرتے تھے۔
میرے نزدیک آج کی نوجوان نسل کو نامور لکھاریوں کے لکھے ہوئے ڈراموں کو پڑھنا چاہیے کیونکہ ان ڈرامہ نگاروں کے سکرپٹ جاندار ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرامے میں بغیر ڈوپٹے کے خواتین کو دکھایا جارہا ہے۔ ہم اسی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں خواتین ڈوپٹہ اوڑھتی ہیں اور بعض ایسا نہیں کرتی۔ یہ تبدیلی ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ معاشرے کا غالب کلچر ڈرامے پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس چیز کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ہمیں ڈرامے میں کیا دکھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں وہ نہیں لکھنا چاہیے جو ہم اپنی ماؤں، بہنوں کے سامنے نہیں کرسکتے۔
حدود کا تعین ڈرامہ نگار کو ہی کرنا ہوگا ۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں کس چیز پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں اسلام کی اصل روح سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ ہندوستان نے جب پاکستانی سرحدکے قریب دور درشن چینل کی نشریات کا آغاز کیا تو اس وقت میں نے حکام بالا کوخط لکھا کہ ہمیں بھی پی ٹی وی کی نشریات کے حوالے سے موثراقدامات کرنا ہوں گے۔ آج بھی ہمیں بھارتی ڈراموں کی یلغار اور میڈیا وارکو کم کرنے کے لئے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی پرموشن کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں بہت سارے چیلنجزکاسامناہے ۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر باصلاحیت لوگوں کو سامنے لانا ہوگا۔
ڈاکٹر قاسم بوگھیو (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان )
ایکسپریس میڈیا گروپ نے احسن اقدام اٹھایا ہے جو قابل ستائش ہے۔ یہاں صرف ٹی وی ڈرامے کی بات کی جارہی ہے جبکہ ریڈیو اور سٹیج پر بھی ڈرامہ جاری ہے۔ ڈرامہ کا مقصد لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے بارے میں سوچنے کا موقع بھی فراہم کرنا ہے۔ جس طرح ٹالک شو سے لوگوں کو آگاہی ملتی ہے، اسی طرح ڈرامے میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جارہا ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔
صابن کے اشتہار میں کام کرنے والی ماڈل کو کروڑوں روپے ملتے ہیں لیکن ہزاروں کتابوں کا مطالعہ رکھنے والے قابل لکھاری کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے جو افسوسناک ہے۔ جو خود ڈرامہ بنا کر چینل کو فروخت کرتے ہیں انہیں زیادہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ڈرامہ کے فروغ کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کو زندہ رکھنے کے لئے حکومتی میڈیا کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ میڈیا گروپس کو بھی اپنا ا کردار ادا کرنا ہوگا۔
افشاں عباسی (ڈرامہ نگار)
کمرشل ازم کی وجہ سے وہ ڈرامہ نہیں لکھا جارہا جو ہونا چاہیے۔ ہم اپنے ملکی موضوعات پر نہیں لکھ رہے بلکہ منفی موضوعات پر لکھا جارہا ہے۔ اگر صحیح موضوعات پر لکھا جائے تو ڈرامہ ہمارے معاشرے پر بہت اچھے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ ہمارے 95فیصد لوگ اچھے اور باادب ہیں لیکن چینلوں پر ایک الگ ہی دنیا دکھائی جارہی ہے۔
علی احمد قمر (معروف شاعر وڈرامہ نگار)
عصر حاضر کے اہم ڈرامہ نگاروں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں پرورش پائی اور وہیں سے عروج حاصل کیا۔ ہم نے پی ٹی وی سے ہی سیکھا ہے کہ عوام کیلئے کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے۔ پی ٹی وی نے صحت مند ڈرامہ نگاری کی بنیاد رکھی مگر پھر ہماری روایت اور ذوق میں کمی آگئی، شدت پسندی کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے جس کے باعث ڈرامہ کلچر استحصال اور تنزلی کا شکار ہوا۔ معاشرے کا منفی رجحان کسی بھی مثبت ایجاد کو تباہ کردیتا ہے، ٹی وی کا مقصد تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح کرنا بھی ہے لیکن ہم نے اپنے غلط رویوں سے اسے بھی منفی بنادیا ہے۔
ڈرامے کے مقاصد میں تفریح، آگاہی اور اصلاح شامل ہیں۔ ہم آج تفریح کے نام پر فحاشی کو فروغ دے رہے۔ افسوس ہے کہ ہمارا ڈرامہ آج تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا جبکہ اب ڈرامے کااصل ہدف مقصدیت کے بجائے سرمایہ بن گیا ہے اور ڈرامہ نگاری کمرشل ازم تک محدود ہوگئی ہے۔
فرحین چوہدری (ڈرامہ نگار)
ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بلکہ یہاں لوگوں میں تخلیق کی صلاحیت بہت زیادہ ہے لیکن گروہ بندی اور پسند ، نا پسند کی بنیاد پر لوگوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ ڈرامہ دیکھنے والے ایک منٹ میں فنکار اور سکرپٹ کے میرٹ کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور کسی دوسرے چینل پر کسی دوسرے ملک کا ڈرامہ دیکھتے ہیں۔عصر حاضر میں ڈرامے کی بحالی کیلئے ہمیں میرٹ پر مشتمل ٹیلنٹ کو آگے لانا ہوگااور قابل لوگوں کو مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔
ڈاکٹر وقار (ڈرامہ نگار،پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس)
تفریح کیلئے تو سرکس و دیگر چیزیں موجود ہیں لیکن فطرت کے قریب صرف ڈرامہ ہی کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس پہلے صرف الحمرا تھیٹر ہوا کرتا تھا۔ ہم نے کمپنی بہادر کے چھوڑے ہوئے ڈرامے ترجمہ کرکے پیش کرنے شروع کردیئے لیکن ہم نے اس وقت معاشرے میں پنپنے والی غلط چیزوں کو ڈرامے کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارے ہاں کلچرکی یلغار ہوئی۔
آج ہم اپنی تہذیب و تمدن، لباس، دو قومی نظریہ غرض کے اپنی پہچان سے نفرت کررہے ہیں اور اس کا ذمہ دار ڈرامہ ہے کیونکہ جن چیزوں کو ہم نے ڈرامے کے ذریعے فروغ دینا تھا انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ ہمارے ہاں ایسے ڈرامے بنائے جارہے ہیں جو مذہب، پاکستانیت، نظریہ اور روایات پر حملہ آور ہورہے ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ہمیں ایسی روایات کے خلاف لکھنا چاہیے جو معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
عرفان جمیل (معروف ڈرامہ نگار)
ڈرامے میں شروع سے ہی مقصدیت رہی ہے کہیں ڈرامے سے منفی کام لیا جاتا ہے اور کہیں مثبت۔ چونکہ ہماری اکثریت مثبت کو پسند کرتی ہے اس لیے ہمارے ہاں ڈرامے کی مقصدیت مثبت ہے۔یونان میں ڈرامہ لکھنے کا مقصد مذہب کا فروغ تھا، برصغیر میں جب شکنتلا ڈرامہ لکھا گیا تو اس کا بھی یہی مقصد تھا۔ ہمارے ملک میں ڈرامے کا مقصد یکجہتی، مذہبی و معاشرتی اقدار ہے۔
شعیب خالق (ممتاز ادیب)
عصر حاضر میں ڈرامہ دانشوروں کے بجائے تاجروں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ملک کا تمام ڈرامہ سمٹ کر صرف کراچی تک محدود ہو گیا ہے کیونکہ اس کا مقصد اب اصلاح معاشرہ کے بجائے پیسہ کمانا ہے۔ عصر حاضر کے ڈرامہ کا مرکز صرف عورت ہے۔ ڈرامہ لکھا بھی صرف خواتین کے لیے جارہا ہے جس کی وجہ سے ڈرامے کا مقصد ختم ہوگیا ہے۔ ذوق رکھنے والے ناظرین کے لیے اب کوئی ڈرامہ نہیں ہے کیونکہ ڈرامے میں نہ سکرپٹ ہے اور نہ ہی ڈائیلاگ۔ ڈرامہ ماضی میں انقلاب لاتا رہا ہے، کمرشل ازم کے اس دور میں ہمیں کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے کہ ڈرامے سے مالی فائدہ بھی حاصل ہوتا رہے اور اصل ڈرامہ بھی بحال ہو جائے۔
شمیم جدون (ریڈیو ڈرامہ نگار)
ماضی کے ڈراموں میں خاندانی نوکروں کی عزت کی جاتی تھی، ان ڈراموں سے بچے تہذیب سیکھتے تھے لیکن اب ان میں عریانی و بدتہذیبی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ڈرامہ میں اپنی تہذیب، ثقافت اور کرداروں کو پیش کیا جائے۔ ہم اپنے ریڈیو پروگرام میں گلوکار، موسیقار، شاعر اور فلم کا نام بتاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان عظیم لوگوں کے بارے میں علم ہوسکے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔
مسعود خواجہ (ممتاز اداکار و ڈرامہ نگار)
میں نے لائیو پروگرام کی 1100اقساط اور 150 ڈرامے تحریر کیے لیکن یہ صرف مجبوری میں لکھے کیونکہ ڈرامہ نگار اور شاعر بہت بڑی رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔ کمرشل ازم کے اس دور میں ڈرامے کی روح ختم ہوگئی ہے۔ آج ڈرامہ نگار پیسے کی خاطر وہ کچھ لکھنے پر مجبور ہے جو اسے لکھنے کو کہا جارہا ہے۔
پناہ بلوچ (معروف ڈرامہ نگارو سیکرٹری بلوچی اکیڈمی)
ابتداء میں اصلاحی ڈرامے ہوا کرتے تھے جن میں ہمیں اپنائیت اور اپنی ثقافت بھی نظر آتی تھی۔ پھر بہت سارے ٹی وی چینلز بن گئے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق ڈرامہ نگاروں کی تربیت نہیں ہو سکی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ نے ملک میں زوال پذیر ہوتی ہوئی ڈرامہ انڈسٹری کی بحالی کے لئے جو قدم اٹھایا وہ لائق تحسین ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ایسی صورتحال میں ڈرامہ نگاری معاشرے سے اس ناسور کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ ڈرامے میں صرف معاشرتی بدصورتی کو موضوع بنایا جارہا۔ پاکستان مختلف تہذیبوں کا مسکن ہے، یہاں مختلف ثقافتیں اور رسم ورواج ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تہذیبی و ثقافتی کلچر کوڈراموں میں متعارف کرایا جائے۔
اے ڈی بلوچ (ڈرامہ نگار)
گزشتہ 35سال سے ڈرامہ نگاری کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ ڈرامہ نگار معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور لوگوں کو آئینہ دکھاتا ہے لیکن ہم نے آئینہ بھی توڑ دیا اور اب عکاسی بھی نہیں ہورہی۔آج بھی لوگ اپنی ثقافت اور کلچر کو دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا اس کو موضوع بنایا جائے۔
''ایکسپریس انک'' کے تحت ''عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری'' کے موضوع پر گزشتہ دنوں خانہ فرہنگ ایران، پشاور میں سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ڈرامہ نگاروں، ادباء، شعراء اورڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سعد اللّٰہ جان برق (معروف کالم نگار ، ادیب، ڈرامہ نگار)
شاعر ، ادیب یاڈرامہ نگار کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ یہ بتائے جو کچھ معاشرے میںہورہا ہے کیونکہ جو ہورہا ہے وہ تو اسے پسند نہیں ہے۔ ڈرامہ نگار، شاعر یا ادیب معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔ اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مثالی کر دار تخلیق کر کے وہ چیز دکھائے جس کی معاشرے میں ضرورت ہے تاکہ لوگوں اصلاح ممکن ہو سکے ۔اصل ڈرامے میں برائی کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، اس سے برائی درست تو نہیں ہوسکتی لیکن اس سے متاثر ہونے والے کو ایک لمحے کے لیے تسلی ہوجاتی ہے۔ میرے نزدیک عصر حاضر میں ڈرامے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب تو دنیا بھر میں ڈرامے ہی ڈرامے ہورہے ہیں۔ ان بڑے ڈراموں میں چھوٹے ڈرامے سے افاقہ نہیں ہوگا۔
ڈرامہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے لیے عصر موضوع ہونا چاہیے۔ جس عصر میں کوئی سننے والا نہ ہو اور سب بولنے والے ہوں تو وہاں کوئی کیا بات کرے گا۔ عصر حاضر میں صرف ڈرامہ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ بیکار ہوچکا ہے۔ ملک میں فنون لطیفہ اور ڈرامہ نگاری کے زوال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کے لکھاری کی معاشرے کی نبض پر گرفت ڈھیلی پڑچکی ہے اور اسے معاشرے میں پائے جانے والی خوبیوں اور خامیوں کا صحیح ادراک نہیں ہو پا رہا جس کا اثر براہ راست ڈرامہ نگاری اور تخلیق پر پڑھ رہا ہے ۔ ڈرامہ کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ لکھاری عام آدمی کے درد کو محسوس کر ے ۔
ڈاکٹر سلمہ شاہین (معروف محقق و ادیب)
ڈرامہ پستی کی طرف نہیں جارہا ہے بلکہ اشفاق احمد، اصغر ندیم سید و دیگر لوگوں نے ڈرامہ کے معیار کو برقرار رکھا۔ یہ ڈرامہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نظریے سے کس حد تک مخلص ہے۔ پہلے ہم ڈرامے سے سیکھتے تھے مگر اب ہم ڈرامے سے صرف محظوظ ہوتے ہیں جبکہ ا س میں سیکھنے کا عنصر بالکل موجود نہیں ہے۔ عصر حاضر میں بھی اچھے ڈرامے چل رہے ہیں، خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جارہا ہے جبکہ اردو کے ڈرامے کامیاب جارہے ہیں۔
اردو ڈراموں سے لوگوں کی اصلاح بھی کی جارہی ہے۔ پشتو ڈرامے کے بہت سارے مسائل ہیں۔ پشتو ڈراموں میں سعد اللہ جان برق جیسے لوگ مثبت چیزوں پر ڈرامے لکھتے تھے مگر اب ڈرامہ نگار منفی چیزوں پر لکھ رہے ہیں اور معیاری کام نہیں ہورہا ہے۔ 70ء کی دہائی کا ڈرامہ اس لئے مضبوط تھا کیونکہ اس کے کردار زندہ تھے جبکہ آج کا ڈرامہ حقیقت سے بہت دور کھڑا ہے ۔ کمرشل ازم کی وجہ سے ڈرامہ نگار کمزور ہوگیا ہے، ماضی کے ڈرامہ نگار معاشرے کے مظلوم طبقوں کی آواز بنتے تھے۔ ڈرامے نے جتنی آگاہی لوگوں کو دی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مشتاق شباب (سینئر شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار)
ڈرامہ یونان نہیں بلکہ مصر کی تہذیب سے شروع ہوا۔ یونان میں ڈرامے کو عروج ملا اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا عصر حاضر میں پہنچا ہے۔ ڈرامہ آج بھی یونان کے طرز اصول میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹی وی ڈرامے کی بنیاد ریڈیو نے رکھی جبکہ ریڈیو ڈرامے کی بنیاد سٹیج ڈرامے نے رکھی اور سٹیج ڈرامے کو برصغیر میں بہت عروج ملا ہے۔ تقسیم کے بعد سٹیج ڈرامہ کمزور ہوا تو ریڈیو پر یہی ڈرامے چلائے گئے۔ اسی طرح ٹی وی پر ابتداء میں ریڈیو کے ڈرامے نشر کیے گئے۔
جدید دور کی ڈرامہ نگاری کو بے راہ روی اور حد سے زیادہ آزادی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ دور کے ڈرامے میں معاشرتی مسائل نہیں دکھائے جاتے جبکہ ہم بھارت کی تقلید میں پستی میں چلے گئے ہیں۔ عصر حاضر کے لکھاری اور پروڈکشن ہاؤسسز کو یہ سوچنا ہوگا کہ انہوں نے معیار ی ڈرامہ تخلیق کرنا ہے یا پھر سستی شہر ت کے لئے اس مفید صنف کو مذید پستی کی طرف دھکیلنا ہے۔
لائق زادہ لائق (ریجنل ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان، پشاور)
ڈرامے کے کردار معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی ڈرامہ موجود ہے مگر لکھاریوں کو کرداروں کو پہچاننے اور انہیں زبان دینے کی ضرورت ہے۔ آج کا لکھاری آج کے معاشرے کو سمجھ کر ڈرامہ لکھے تو اچھا ڈرامہ لکھا جاسکتا ہے۔ کردار جا بجا بکھر ے پکڑے ہیں صرف ان کو تراشنے کی ضرورت ہے، اب بھی توجہ سے کام کیا جائے تو نئے کر داروں کو زبان دی جاسکتی ہے۔پہلے اداکار طویل ریہرسل کیا کرتے تھے، مگر اب اداکار بھی توجہ نہیں دیتے۔ ہر شخص جلدی میں ہے۔
اگر ڈرامہ نگار، اداکار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر و دیگر محنت سے کام کریں تو ڈرامہ بحال ہوسکتا ہے۔ عام آدمی ہمیشہ مثبت کر دار کیساتھ چلتا ہے ۔ اگر تنقید کے بجائے مثبت سوچ رکھتے ہوئے کام کیا جائے تو عصر حاضر کی ڈرامہ نگاری کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
خالد سہیل ملک (ڈرامہ نگار)
ڈرامے کی ایک قدیم تاریخ ہے اور انسان نے اس دور میں بھی ڈرامہ لکھا جب بہت ساری چیزیں تحریر میں نہیں تھیں۔ جب تک ڈرامہ پڑھنے کی چیز تھی تو لوگوں نے پڑھا لیکن اب ڈرامہ سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔ یہاں موجود سب لوگوں نے پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ ان ڈراموں کے لکھاریوں اور کرداروں نے بہت محنت کی۔ ایک طرف ہمارا شاندار ماضی ہے جبکہ دوسری طرف جدید دنیا کا شوروغل ہے۔
ہماری آج کی نسل کو شاید عصر حاضر کے ڈراموں سے شکوہ نہ ہو کیونکہ انہوں نے وارث، ان کہی و اس دور کے ڈرامے نہیں دیکھے۔ اس وقت ایک چینل ہوا کرتا تھا اور لوگ بطور قوم ایک وقت میں ایک ہی ڈرامہ دیکھتے تھے مگر اب ہم جس طرح بحیثیت قوم تذبذب کا شکار ہیںاور کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پارہے اسی طرح ہماری ڈرامہ نگاری بھی بین الاقوامی معیار کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کر پارہی جس سے اس کا معیار گر رہا ہے۔
دوسری جانب چند خاندانوں نے ڈرامہ کو قید کر دیا ہے۔چند پروڈکشن ہاؤسز اور چندلوگوں کے باعث ڈرامہ یکسانیت کاشکار ہوگیا ہے اور یہ آگے نہیں بڑ ھ پارہا ۔اگر بین الاقوامی چیلنجوں اور ضرورتوں کا ادراک کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ڈرامہ ایک بار پھر سر اٹھا کر چل سکے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم ماضی کی جانب نہیں جاسکتے، ڈرامے کو جدید تقاضوں کے مطابق لے کر چلنا ہوگا۔
ڈاکٹر شاہد ہ سردار (شاعرہ و ادیبہ )
ڈرامہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے رسم و رواج ڈرامے کے ذریعے ہی سامنے آتے ہیں۔ ماضی اور عصر حاضر کے ڈرامے میں بہت فرق ہے۔ تنہائیاں و دیگر ڈرامے جب لگتے تھے تو مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں اور سب مل کر ڈرامہ دیکھتے تھے۔ آج کے ڈرامے میں جدیدیت آگئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لکھاری کا ذہن بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں اگر نئی نسل کو دکھایا جاتا ہے تو ہمیں ان میں مذہبی اقدار بھی دکھائی جاتی ہیں۔ ہمیں عصر حاضر کے ڈرامے سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اب بھی اچھا ڈرامہ تخلیق ہورہا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لکھاریوں نے اس صنف کو شدید نقصان پہنچایا ہے یا پہنچا رہے ہیں۔ خصوصاً یہ امر بہت مایوس کن ہے۔
قوم کے مختلف طبقوں کو مختلف کرداروں کے لئے مخصو ص کر دیا گیا ہے جس سے ایک جانب نفرت بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب ڈرامہ کو نقصان ہو رہا ہے۔ ڈراموں میں پشتون کو کمتر اور سخت دکھایا جاتا ہے، پشتون اپنے اقدار اور ثقافت کے حوالے سے سخت ہیں لیکن انہوں نے بہت ترقی کر لی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو منوایا ہے اس لئے اب پٹھانوں کے کر دار بھی نئے ہو نے چاہئیں اور انہیں چوکیدار کے بجائے اچھے کردار دینے چاہئیں۔ اگر اس قسم کی منفی کر دار نگار ی بند کی جائے تو ڈرامہ دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے ۔
نور الامین یوسفزئی (دانشورو محقق)
جو کچھ جدید دنیا میں ہورہا ہے اس سے نظر یں نہیں چرائی جاسکتی۔ اب وہ ریاستی ٹی وی یا ریڈیو کا زمانہ نہیں رہا جب پوری قوم ایک ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہو تی تھی۔ آج کے ناظرین جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے پوری دنیا کے چینلوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس لئے اب فرسودہ قسم کی ڈرامہ نگاری نہیں چلے گی بلکہ آج کے ڈرامہ نگار کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا ۔ ڈرامہ میں منفی کرداروں کے بجائے مثبت کر دار تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈرامے کے کردار معاشرے سے لیے جاتے ہیں۔ اگر ڈرامہ نگار اپنے معاشرے کے مسائل سے آگاہ ہے تو وہ بہتر ڈرامہ لکھ سکتا ہے۔ ہمیں اپنی مٹی کے کرداروں کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ڈرامے کی بحالی کیلئے پختون سمیت تمام قومیتوں کاخوبصورت چہرہ سامنے لایا جائے، اچھے کردار پیش کیے جائیں تا کہ لوگ ڈرامہ دیکھنے کی طرف راغب ہوسکیں ۔
ظاہر شاہ (ڈرامہ نگار)
برصغیر میں آغا حشر کاشمیری نے ڈرامے کا آغاز کیا۔ انہوں نے سٹیج کے حوالے سے ڈرامے کو پڑھوان چڑھایا۔ ہمارے صوبے میں ڈرامے نے لوگوں کی سیاسی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ باچا خان کی تحریک کے زیر اہتمام ڈرامے ہوتے رہے۔ ماسٹر عبدالکریم صاحب نے گاندی کا کردار ادا کیا تو گاندھی نے بہترین کردار ادا کرنے پر انہیں 5روپے بطور انعام دیے۔ انگریز راج کے دور میں لوگوں نے ڈرامے کو اپنے احساسات، جذبات اور تصورات کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال کیا۔
بعدازاں یہ ڈرامہ ریڈیو پر آیا اور پھر ٹی وی ڈرامے کا دور شروع ہوا جہاں یہی روایت نظر آئی۔کمرشل اور فر مائشی ڈرامہ نگار ی نے اس کو جمود و قید و بند کا شکار کر دیا ہے۔ اگر ہم نے معیاری ڈرامہ تخلیق کرنا ہے تو پھر کمرشل ازم کو پس پشت ڈال کر ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔
ڈاکٹرصلاح الدین (ڈرامہ نگار)
عصر حاضر میں ڈرامہ مریض بن گیا ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم معیاری ڈرامے کو کھو دیں گے۔ڈرامہ نگاری کے ضمن میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈرامہ نگاروں کو سرکاری اداروں میں وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو فعال کر کے ڈرامہ نگار وں کی تربیت دینے کے لئے مربوط پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
افسوس ہے کہ حکومتی اداروںنے ڈرامہ کی سرپرستی کرنا چھوڑ دی ہے جس سے اس صنف کو کافی نقصان ہو ا ہے۔ اگر ایک بار پھر پرانا سبق دہرایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ڈرامہ دن دگنی رات چگنی ترقی نہ کر سکے۔ عصر حاضر کے چیلنجز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ڈرامہ نگاروں کو ان پربھی توجہ دینی چاہیے۔
ہدایت اللّٰہ گل (ڈرامہ نگار)
خیبر پختونخوا میں ڈرامے، لکھاری اور کردار بہت ہیں لیکن یہاں پروڈکشن نہیں ہے۔ ہمارے جولوگ اردو جانتے تھے وہ اٹک کے اس پار چلے گئے ۔ جس جگہ ڈرامہ نہیں ہوتا وہاں تہذیب، ثقافت اور روایات نہیں ہوتی۔ ہم اسی لیے آپس میں جڑ نہیں رہے کیونکہ ہم الگ سوچتے ہیں اور الگ کرتے ہیں۔ پشتو ڈرامے کے دو طرح کے مسائل ہیں۔ ایک پروڈکشن اور دوسرا پروڈیوسرہے جن کی وجہ سے ڈرامہ ترقی نہیں کررہا اور نہ ہی اس کی اصل صورت سامنے آرہی ہے۔ ہم ایکسپریس میڈیا گروپ کی ڈرامہ کی بحالی کیلئے اس کاوش کو سراہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے کردار موجود ہیں، ہمیں باچا خان کی زندگی پر ڈرامے بنانے چاہئیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ کی جانب سے ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ''ایکسپریس انک'' کے نام سے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد ملک بھر میں ڈرامہ نگاری کے حوالے سے موجود ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں ''عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری'' کے موضوع پر گزشتہ دنوں اکادی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں سیمینار منعقد کیاگیا جس میں ڈرامہ نگاروں، ادباء، شعراء ، فنکاروں اور ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات سمیت طلباء و طالبات کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔ا س موقع پر ڈائریکٹر اکادمی ادبیات طارق شاہد ، مسعود ہاشمی، ظہیر چوہدری، پی ٹی وی کے سینئر پرڈیوسر باقر، ممتاز شاعر حسنین نازش، حسن عباس رضا اور اقبال حسین افکار بھی موجود تھے ۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
افتخارعارف (بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب)
اسکرپٹ کسی بھی ڈرامے کی جان ہوتا ہے۔ پروڈیوسر جتنا بھی قابل ہو خراب سکرپٹ پر اچھا ڈرامہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ڈرامہ ان ممالک میں لکھا جاتا تھاجہاں بولی جانے والی زبانوں میں اساطیری داستانیں ہوا کرتی تھیں۔سب سے پہلے ڈرامے کا آغاز یونان سے ہوا جبکہ انگریزدورمیں برصغیر میں ڈرامہ شروع ہوا۔ تقسیم کے بعد پاکستان اورہندوستان میں بھی ڈرامے کا رواج جاری رہا۔ ڈرامہ تو سٹیج پر بھی ہوتا تھا لیکن ریڈیو وہ واحدادارہ تھاجس میں انتہائی قابل ترین اورمعروف لوگ کام کرتے تھے۔ جو اپنی تحریر، زبان اور آواز کے جاود سے اپنا الگ مقام رکھتے تھے۔
جدید دور میں بھی ان نامور افراد کوقدراورعزت کی نگاہ سے دیکھا اورجاناجاتا ہے۔ ترقی کے اس دور میں اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی اہمیت کو کسی صورت کم نہیں کیاجاسکتاہے۔ پی ٹی وی کے آغاز میں صرف 10سے 12ایسے لوگ تھے جنہیں معاوضہ ملتا تھا اور انہیں بہترین کہا جاتا تھا۔ ان میں خواجہ معین الدین، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، رفیع پیر، انتظارحسین ، علی بابا، ریاض فشوری ،سلیم احمد و دیگر شامل تھے۔ادب سے ڈرامہ ریڈیو میں آیا اور پھر ٹی وی پر پہنچا مگر اب جسے کچھ بھی لکھنا آتا ہے وہ پہلے دن سے کالم لکھنا چاہتا ہے اور اگر یہ بھی نہیں آتا تو ڈرامہ لکھ رہا ہے۔
پرائیویٹ چینلوں کے بعد آنے والی یہ تبدیلی فطری ہے۔ ہمارے ہاں ڈرامے کو بعد میں فروغ دینے والوں میں فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین، انور مقصود ، منو بھائی، امجد اسلام امجد و دیگر شامل ہیں جنہوںنے بہت محنت کی اور اپنی دلفریب تحریوں سے عوام کو اپنا گرویدہ بنایا۔ آج کے لکھاری محنت نہیں کرنا چاہتے اور ابتداء میں ہی 50 اقساط کا ڈرامہ لکھ لیتے ہیں اور اگر انہیں کچھ کہا جائے تو برا مان لیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ڈرامہ کی مشق کی جاتی تھی اور ڈرامے تحریر کرنے سے پہلے ہم اپنے اساتذہ سے مشاورت اور معاونت حاصل کرتے تھے۔
میرے نزدیک آج کی نوجوان نسل کو نامور لکھاریوں کے لکھے ہوئے ڈراموں کو پڑھنا چاہیے کیونکہ ان ڈرامہ نگاروں کے سکرپٹ جاندار ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرامے میں بغیر ڈوپٹے کے خواتین کو دکھایا جارہا ہے۔ ہم اسی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں خواتین ڈوپٹہ اوڑھتی ہیں اور بعض ایسا نہیں کرتی۔ یہ تبدیلی ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ معاشرے کا غالب کلچر ڈرامے پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس چیز کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ ہمیں ڈرامے میں کیا دکھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ ہمیں وہ نہیں لکھنا چاہیے جو ہم اپنی ماؤں، بہنوں کے سامنے نہیں کرسکتے۔
حدود کا تعین ڈرامہ نگار کو ہی کرنا ہوگا ۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہمیں کس چیز پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں اسلام کی اصل روح سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ ہندوستان نے جب پاکستانی سرحدکے قریب دور درشن چینل کی نشریات کا آغاز کیا تو اس وقت میں نے حکام بالا کوخط لکھا کہ ہمیں بھی پی ٹی وی کی نشریات کے حوالے سے موثراقدامات کرنا ہوں گے۔ آج بھی ہمیں بھارتی ڈراموں کی یلغار اور میڈیا وارکو کم کرنے کے لئے ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی پرموشن کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں بہت سارے چیلنجزکاسامناہے ۔ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر باصلاحیت لوگوں کو سامنے لانا ہوگا۔
ڈاکٹر قاسم بوگھیو (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان )
ایکسپریس میڈیا گروپ نے احسن اقدام اٹھایا ہے جو قابل ستائش ہے۔ یہاں صرف ٹی وی ڈرامے کی بات کی جارہی ہے جبکہ ریڈیو اور سٹیج پر بھی ڈرامہ جاری ہے۔ ڈرامہ کا مقصد لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے بارے میں سوچنے کا موقع بھی فراہم کرنا ہے۔ جس طرح ٹالک شو سے لوگوں کو آگاہی ملتی ہے، اسی طرح ڈرامے میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جارہا ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔
صابن کے اشتہار میں کام کرنے والی ماڈل کو کروڑوں روپے ملتے ہیں لیکن ہزاروں کتابوں کا مطالعہ رکھنے والے قابل لکھاری کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے جو افسوسناک ہے۔ جو خود ڈرامہ بنا کر چینل کو فروخت کرتے ہیں انہیں زیادہ معاوضہ مل جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ڈرامہ کے فروغ کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کو زندہ رکھنے کے لئے حکومتی میڈیا کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ میڈیا گروپس کو بھی اپنا ا کردار ادا کرنا ہوگا۔
افشاں عباسی (ڈرامہ نگار)
کمرشل ازم کی وجہ سے وہ ڈرامہ نہیں لکھا جارہا جو ہونا چاہیے۔ ہم اپنے ملکی موضوعات پر نہیں لکھ رہے بلکہ منفی موضوعات پر لکھا جارہا ہے۔ اگر صحیح موضوعات پر لکھا جائے تو ڈرامہ ہمارے معاشرے پر بہت اچھے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ ہمارے 95فیصد لوگ اچھے اور باادب ہیں لیکن چینلوں پر ایک الگ ہی دنیا دکھائی جارہی ہے۔
علی احمد قمر (معروف شاعر وڈرامہ نگار)
عصر حاضر کے اہم ڈرامہ نگاروں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں پرورش پائی اور وہیں سے عروج حاصل کیا۔ ہم نے پی ٹی وی سے ہی سیکھا ہے کہ عوام کیلئے کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے۔ پی ٹی وی نے صحت مند ڈرامہ نگاری کی بنیاد رکھی مگر پھر ہماری روایت اور ذوق میں کمی آگئی، شدت پسندی کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے جس کے باعث ڈرامہ کلچر استحصال اور تنزلی کا شکار ہوا۔ معاشرے کا منفی رجحان کسی بھی مثبت ایجاد کو تباہ کردیتا ہے، ٹی وی کا مقصد تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح کرنا بھی ہے لیکن ہم نے اپنے غلط رویوں سے اسے بھی منفی بنادیا ہے۔
ڈرامے کے مقاصد میں تفریح، آگاہی اور اصلاح شامل ہیں۔ ہم آج تفریح کے نام پر فحاشی کو فروغ دے رہے۔ افسوس ہے کہ ہمارا ڈرامہ آج تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا جبکہ اب ڈرامے کااصل ہدف مقصدیت کے بجائے سرمایہ بن گیا ہے اور ڈرامہ نگاری کمرشل ازم تک محدود ہوگئی ہے۔
فرحین چوہدری (ڈرامہ نگار)
ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بلکہ یہاں لوگوں میں تخلیق کی صلاحیت بہت زیادہ ہے لیکن گروہ بندی اور پسند ، نا پسند کی بنیاد پر لوگوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ ڈرامہ دیکھنے والے ایک منٹ میں فنکار اور سکرپٹ کے میرٹ کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور کسی دوسرے چینل پر کسی دوسرے ملک کا ڈرامہ دیکھتے ہیں۔عصر حاضر میں ڈرامے کی بحالی کیلئے ہمیں میرٹ پر مشتمل ٹیلنٹ کو آگے لانا ہوگااور قابل لوگوں کو مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔
ڈاکٹر وقار (ڈرامہ نگار،پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس)
تفریح کیلئے تو سرکس و دیگر چیزیں موجود ہیں لیکن فطرت کے قریب صرف ڈرامہ ہی کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ ہمارے پاس پہلے صرف الحمرا تھیٹر ہوا کرتا تھا۔ ہم نے کمپنی بہادر کے چھوڑے ہوئے ڈرامے ترجمہ کرکے پیش کرنے شروع کردیئے لیکن ہم نے اس وقت معاشرے میں پنپنے والی غلط چیزوں کو ڈرامے کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارے ہاں کلچرکی یلغار ہوئی۔
آج ہم اپنی تہذیب و تمدن، لباس، دو قومی نظریہ غرض کے اپنی پہچان سے نفرت کررہے ہیں اور اس کا ذمہ دار ڈرامہ ہے کیونکہ جن چیزوں کو ہم نے ڈرامے کے ذریعے فروغ دینا تھا انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ ہمارے ہاں ایسے ڈرامے بنائے جارہے ہیں جو مذہب، پاکستانیت، نظریہ اور روایات پر حملہ آور ہورہے ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ ہمیں ایسی روایات کے خلاف لکھنا چاہیے جو معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
عرفان جمیل (معروف ڈرامہ نگار)
ڈرامے میں شروع سے ہی مقصدیت رہی ہے کہیں ڈرامے سے منفی کام لیا جاتا ہے اور کہیں مثبت۔ چونکہ ہماری اکثریت مثبت کو پسند کرتی ہے اس لیے ہمارے ہاں ڈرامے کی مقصدیت مثبت ہے۔یونان میں ڈرامہ لکھنے کا مقصد مذہب کا فروغ تھا، برصغیر میں جب شکنتلا ڈرامہ لکھا گیا تو اس کا بھی یہی مقصد تھا۔ ہمارے ملک میں ڈرامے کا مقصد یکجہتی، مذہبی و معاشرتی اقدار ہے۔
شعیب خالق (ممتاز ادیب)
عصر حاضر میں ڈرامہ دانشوروں کے بجائے تاجروں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ملک کا تمام ڈرامہ سمٹ کر صرف کراچی تک محدود ہو گیا ہے کیونکہ اس کا مقصد اب اصلاح معاشرہ کے بجائے پیسہ کمانا ہے۔ عصر حاضر کے ڈرامہ کا مرکز صرف عورت ہے۔ ڈرامہ لکھا بھی صرف خواتین کے لیے جارہا ہے جس کی وجہ سے ڈرامے کا مقصد ختم ہوگیا ہے۔ ذوق رکھنے والے ناظرین کے لیے اب کوئی ڈرامہ نہیں ہے کیونکہ ڈرامے میں نہ سکرپٹ ہے اور نہ ہی ڈائیلاگ۔ ڈرامہ ماضی میں انقلاب لاتا رہا ہے، کمرشل ازم کے اس دور میں ہمیں کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے کہ ڈرامے سے مالی فائدہ بھی حاصل ہوتا رہے اور اصل ڈرامہ بھی بحال ہو جائے۔
شمیم جدون (ریڈیو ڈرامہ نگار)
ماضی کے ڈراموں میں خاندانی نوکروں کی عزت کی جاتی تھی، ان ڈراموں سے بچے تہذیب سیکھتے تھے لیکن اب ان میں عریانی و بدتہذیبی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ڈرامہ میں اپنی تہذیب، ثقافت اور کرداروں کو پیش کیا جائے۔ ہم اپنے ریڈیو پروگرام میں گلوکار، موسیقار، شاعر اور فلم کا نام بتاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان عظیم لوگوں کے بارے میں علم ہوسکے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔
مسعود خواجہ (ممتاز اداکار و ڈرامہ نگار)
میں نے لائیو پروگرام کی 1100اقساط اور 150 ڈرامے تحریر کیے لیکن یہ صرف مجبوری میں لکھے کیونکہ ڈرامہ نگار اور شاعر بہت بڑی رقم کا تقاضا کرتے ہیں۔ کمرشل ازم کے اس دور میں ڈرامے کی روح ختم ہوگئی ہے۔ آج ڈرامہ نگار پیسے کی خاطر وہ کچھ لکھنے پر مجبور ہے جو اسے لکھنے کو کہا جارہا ہے۔
پناہ بلوچ (معروف ڈرامہ نگارو سیکرٹری بلوچی اکیڈمی)
ابتداء میں اصلاحی ڈرامے ہوا کرتے تھے جن میں ہمیں اپنائیت اور اپنی ثقافت بھی نظر آتی تھی۔ پھر بہت سارے ٹی وی چینلز بن گئے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق ڈرامہ نگاروں کی تربیت نہیں ہو سکی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ نے ملک میں زوال پذیر ہوتی ہوئی ڈرامہ انڈسٹری کی بحالی کے لئے جو قدم اٹھایا وہ لائق تحسین ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ایسی صورتحال میں ڈرامہ نگاری معاشرے سے اس ناسور کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ ڈرامے میں صرف معاشرتی بدصورتی کو موضوع بنایا جارہا۔ پاکستان مختلف تہذیبوں کا مسکن ہے، یہاں مختلف ثقافتیں اور رسم ورواج ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تہذیبی و ثقافتی کلچر کوڈراموں میں متعارف کرایا جائے۔
اے ڈی بلوچ (ڈرامہ نگار)
گزشتہ 35سال سے ڈرامہ نگاری کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ ڈرامہ نگار معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور لوگوں کو آئینہ دکھاتا ہے لیکن ہم نے آئینہ بھی توڑ دیا اور اب عکاسی بھی نہیں ہورہی۔آج بھی لوگ اپنی ثقافت اور کلچر کو دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا اس کو موضوع بنایا جائے۔
''ایکسپریس انک'' کے تحت ''عصر حاضر اور ڈرامہ نگاری'' کے موضوع پر گزشتہ دنوں خانہ فرہنگ ایران، پشاور میں سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ڈرامہ نگاروں، ادباء، شعراء اورڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
سعد اللّٰہ جان برق (معروف کالم نگار ، ادیب، ڈرامہ نگار)
شاعر ، ادیب یاڈرامہ نگار کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ یہ بتائے جو کچھ معاشرے میںہورہا ہے کیونکہ جو ہورہا ہے وہ تو اسے پسند نہیں ہے۔ ڈرامہ نگار، شاعر یا ادیب معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔ اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مثالی کر دار تخلیق کر کے وہ چیز دکھائے جس کی معاشرے میں ضرورت ہے تاکہ لوگوں اصلاح ممکن ہو سکے ۔اصل ڈرامے میں برائی کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، اس سے برائی درست تو نہیں ہوسکتی لیکن اس سے متاثر ہونے والے کو ایک لمحے کے لیے تسلی ہوجاتی ہے۔ میرے نزدیک عصر حاضر میں ڈرامے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب تو دنیا بھر میں ڈرامے ہی ڈرامے ہورہے ہیں۔ ان بڑے ڈراموں میں چھوٹے ڈرامے سے افاقہ نہیں ہوگا۔
ڈرامہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کے لیے عصر موضوع ہونا چاہیے۔ جس عصر میں کوئی سننے والا نہ ہو اور سب بولنے والے ہوں تو وہاں کوئی کیا بات کرے گا۔ عصر حاضر میں صرف ڈرامہ ہی نہیں بلکہ بہت کچھ بیکار ہوچکا ہے۔ ملک میں فنون لطیفہ اور ڈرامہ نگاری کے زوال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کے لکھاری کی معاشرے کی نبض پر گرفت ڈھیلی پڑچکی ہے اور اسے معاشرے میں پائے جانے والی خوبیوں اور خامیوں کا صحیح ادراک نہیں ہو پا رہا جس کا اثر براہ راست ڈرامہ نگاری اور تخلیق پر پڑھ رہا ہے ۔ ڈرامہ کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ لکھاری عام آدمی کے درد کو محسوس کر ے ۔
ڈاکٹر سلمہ شاہین (معروف محقق و ادیب)
ڈرامہ پستی کی طرف نہیں جارہا ہے بلکہ اشفاق احمد، اصغر ندیم سید و دیگر لوگوں نے ڈرامہ کے معیار کو برقرار رکھا۔ یہ ڈرامہ نگار پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نظریے سے کس حد تک مخلص ہے۔ پہلے ہم ڈرامے سے سیکھتے تھے مگر اب ہم ڈرامے سے صرف محظوظ ہوتے ہیں جبکہ ا س میں سیکھنے کا عنصر بالکل موجود نہیں ہے۔ عصر حاضر میں بھی اچھے ڈرامے چل رہے ہیں، خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا جارہا ہے جبکہ اردو کے ڈرامے کامیاب جارہے ہیں۔
اردو ڈراموں سے لوگوں کی اصلاح بھی کی جارہی ہے۔ پشتو ڈرامے کے بہت سارے مسائل ہیں۔ پشتو ڈراموں میں سعد اللہ جان برق جیسے لوگ مثبت چیزوں پر ڈرامے لکھتے تھے مگر اب ڈرامہ نگار منفی چیزوں پر لکھ رہے ہیں اور معیاری کام نہیں ہورہا ہے۔ 70ء کی دہائی کا ڈرامہ اس لئے مضبوط تھا کیونکہ اس کے کردار زندہ تھے جبکہ آج کا ڈرامہ حقیقت سے بہت دور کھڑا ہے ۔ کمرشل ازم کی وجہ سے ڈرامہ نگار کمزور ہوگیا ہے، ماضی کے ڈرامہ نگار معاشرے کے مظلوم طبقوں کی آواز بنتے تھے۔ ڈرامے نے جتنی آگاہی لوگوں کو دی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مشتاق شباب (سینئر شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار)
ڈرامہ یونان نہیں بلکہ مصر کی تہذیب سے شروع ہوا۔ یونان میں ڈرامے کو عروج ملا اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا عصر حاضر میں پہنچا ہے۔ ڈرامہ آج بھی یونان کے طرز اصول میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹی وی ڈرامے کی بنیاد ریڈیو نے رکھی جبکہ ریڈیو ڈرامے کی بنیاد سٹیج ڈرامے نے رکھی اور سٹیج ڈرامے کو برصغیر میں بہت عروج ملا ہے۔ تقسیم کے بعد سٹیج ڈرامہ کمزور ہوا تو ریڈیو پر یہی ڈرامے چلائے گئے۔ اسی طرح ٹی وی پر ابتداء میں ریڈیو کے ڈرامے نشر کیے گئے۔
جدید دور کی ڈرامہ نگاری کو بے راہ روی اور حد سے زیادہ آزادی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ دور کے ڈرامے میں معاشرتی مسائل نہیں دکھائے جاتے جبکہ ہم بھارت کی تقلید میں پستی میں چلے گئے ہیں۔ عصر حاضر کے لکھاری اور پروڈکشن ہاؤسسز کو یہ سوچنا ہوگا کہ انہوں نے معیار ی ڈرامہ تخلیق کرنا ہے یا پھر سستی شہر ت کے لئے اس مفید صنف کو مذید پستی کی طرف دھکیلنا ہے۔
لائق زادہ لائق (ریجنل ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان، پشاور)
ڈرامے کے کردار معاشرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی ڈرامہ موجود ہے مگر لکھاریوں کو کرداروں کو پہچاننے اور انہیں زبان دینے کی ضرورت ہے۔ آج کا لکھاری آج کے معاشرے کو سمجھ کر ڈرامہ لکھے تو اچھا ڈرامہ لکھا جاسکتا ہے۔ کردار جا بجا بکھر ے پکڑے ہیں صرف ان کو تراشنے کی ضرورت ہے، اب بھی توجہ سے کام کیا جائے تو نئے کر داروں کو زبان دی جاسکتی ہے۔پہلے اداکار طویل ریہرسل کیا کرتے تھے، مگر اب اداکار بھی توجہ نہیں دیتے۔ ہر شخص جلدی میں ہے۔
اگر ڈرامہ نگار، اداکار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر و دیگر محنت سے کام کریں تو ڈرامہ بحال ہوسکتا ہے۔ عام آدمی ہمیشہ مثبت کر دار کیساتھ چلتا ہے ۔ اگر تنقید کے بجائے مثبت سوچ رکھتے ہوئے کام کیا جائے تو عصر حاضر کی ڈرامہ نگاری کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
خالد سہیل ملک (ڈرامہ نگار)
ڈرامے کی ایک قدیم تاریخ ہے اور انسان نے اس دور میں بھی ڈرامہ لکھا جب بہت ساری چیزیں تحریر میں نہیں تھیں۔ جب تک ڈرامہ پڑھنے کی چیز تھی تو لوگوں نے پڑھا لیکن اب ڈرامہ سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔ یہاں موجود سب لوگوں نے پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھے ہیں۔ ان ڈراموں کے لکھاریوں اور کرداروں نے بہت محنت کی۔ ایک طرف ہمارا شاندار ماضی ہے جبکہ دوسری طرف جدید دنیا کا شوروغل ہے۔
ہماری آج کی نسل کو شاید عصر حاضر کے ڈراموں سے شکوہ نہ ہو کیونکہ انہوں نے وارث، ان کہی و اس دور کے ڈرامے نہیں دیکھے۔ اس وقت ایک چینل ہوا کرتا تھا اور لوگ بطور قوم ایک وقت میں ایک ہی ڈرامہ دیکھتے تھے مگر اب ہم جس طرح بحیثیت قوم تذبذب کا شکار ہیںاور کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پارہے اسی طرح ہماری ڈرامہ نگاری بھی بین الاقوامی معیار کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کر پارہی جس سے اس کا معیار گر رہا ہے۔
دوسری جانب چند خاندانوں نے ڈرامہ کو قید کر دیا ہے۔چند پروڈکشن ہاؤسز اور چندلوگوں کے باعث ڈرامہ یکسانیت کاشکار ہوگیا ہے اور یہ آگے نہیں بڑ ھ پارہا ۔اگر بین الاقوامی چیلنجوں اور ضرورتوں کا ادراک کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ڈرامہ ایک بار پھر سر اٹھا کر چل سکے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم ماضی کی جانب نہیں جاسکتے، ڈرامے کو جدید تقاضوں کے مطابق لے کر چلنا ہوگا۔
ڈاکٹر شاہد ہ سردار (شاعرہ و ادیبہ )
ڈرامہ ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے رسم و رواج ڈرامے کے ذریعے ہی سامنے آتے ہیں۔ ماضی اور عصر حاضر کے ڈرامے میں بہت فرق ہے۔ تنہائیاں و دیگر ڈرامے جب لگتے تھے تو مارکیٹیں بند ہو جاتی تھیں اور سب مل کر ڈرامہ دیکھتے تھے۔ آج کے ڈرامے میں جدیدیت آگئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لکھاری کا ذہن بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں اگر نئی نسل کو دکھایا جاتا ہے تو ہمیں ان میں مذہبی اقدار بھی دکھائی جاتی ہیں۔ ہمیں عصر حاضر کے ڈرامے سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں اب بھی اچھا ڈرامہ تخلیق ہورہا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لکھاریوں نے اس صنف کو شدید نقصان پہنچایا ہے یا پہنچا رہے ہیں۔ خصوصاً یہ امر بہت مایوس کن ہے۔
قوم کے مختلف طبقوں کو مختلف کرداروں کے لئے مخصو ص کر دیا گیا ہے جس سے ایک جانب نفرت بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب ڈرامہ کو نقصان ہو رہا ہے۔ ڈراموں میں پشتون کو کمتر اور سخت دکھایا جاتا ہے، پشتون اپنے اقدار اور ثقافت کے حوالے سے سخت ہیں لیکن انہوں نے بہت ترقی کر لی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو منوایا ہے اس لئے اب پٹھانوں کے کر دار بھی نئے ہو نے چاہئیں اور انہیں چوکیدار کے بجائے اچھے کردار دینے چاہئیں۔ اگر اس قسم کی منفی کر دار نگار ی بند کی جائے تو ڈرامہ دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے ۔
نور الامین یوسفزئی (دانشورو محقق)
جو کچھ جدید دنیا میں ہورہا ہے اس سے نظر یں نہیں چرائی جاسکتی۔ اب وہ ریاستی ٹی وی یا ریڈیو کا زمانہ نہیں رہا جب پوری قوم ایک ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہو تی تھی۔ آج کے ناظرین جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے پوری دنیا کے چینلوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس لئے اب فرسودہ قسم کی ڈرامہ نگاری نہیں چلے گی بلکہ آج کے ڈرامہ نگار کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا ۔ ڈرامہ میں منفی کرداروں کے بجائے مثبت کر دار تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈرامے کے کردار معاشرے سے لیے جاتے ہیں۔ اگر ڈرامہ نگار اپنے معاشرے کے مسائل سے آگاہ ہے تو وہ بہتر ڈرامہ لکھ سکتا ہے۔ ہمیں اپنی مٹی کے کرداروں کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ڈرامے کی بحالی کیلئے پختون سمیت تمام قومیتوں کاخوبصورت چہرہ سامنے لایا جائے، اچھے کردار پیش کیے جائیں تا کہ لوگ ڈرامہ دیکھنے کی طرف راغب ہوسکیں ۔
ظاہر شاہ (ڈرامہ نگار)
برصغیر میں آغا حشر کاشمیری نے ڈرامے کا آغاز کیا۔ انہوں نے سٹیج کے حوالے سے ڈرامے کو پڑھوان چڑھایا۔ ہمارے صوبے میں ڈرامے نے لوگوں کی سیاسی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ باچا خان کی تحریک کے زیر اہتمام ڈرامے ہوتے رہے۔ ماسٹر عبدالکریم صاحب نے گاندی کا کردار ادا کیا تو گاندھی نے بہترین کردار ادا کرنے پر انہیں 5روپے بطور انعام دیے۔ انگریز راج کے دور میں لوگوں نے ڈرامے کو اپنے احساسات، جذبات اور تصورات کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال کیا۔
بعدازاں یہ ڈرامہ ریڈیو پر آیا اور پھر ٹی وی ڈرامے کا دور شروع ہوا جہاں یہی روایت نظر آئی۔کمرشل اور فر مائشی ڈرامہ نگار ی نے اس کو جمود و قید و بند کا شکار کر دیا ہے۔ اگر ہم نے معیاری ڈرامہ تخلیق کرنا ہے تو پھر کمرشل ازم کو پس پشت ڈال کر ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔
ڈاکٹرصلاح الدین (ڈرامہ نگار)
عصر حاضر میں ڈرامہ مریض بن گیا ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم معیاری ڈرامے کو کھو دیں گے۔ڈرامہ نگاری کے ضمن میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈرامہ نگاروں کو سرکاری اداروں میں وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو فعال کر کے ڈرامہ نگار وں کی تربیت دینے کے لئے مربوط پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
افسوس ہے کہ حکومتی اداروںنے ڈرامہ کی سرپرستی کرنا چھوڑ دی ہے جس سے اس صنف کو کافی نقصان ہو ا ہے۔ اگر ایک بار پھر پرانا سبق دہرایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ڈرامہ دن دگنی رات چگنی ترقی نہ کر سکے۔ عصر حاضر کے چیلنجز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ڈرامہ نگاروں کو ان پربھی توجہ دینی چاہیے۔
ہدایت اللّٰہ گل (ڈرامہ نگار)
خیبر پختونخوا میں ڈرامے، لکھاری اور کردار بہت ہیں لیکن یہاں پروڈکشن نہیں ہے۔ ہمارے جولوگ اردو جانتے تھے وہ اٹک کے اس پار چلے گئے ۔ جس جگہ ڈرامہ نہیں ہوتا وہاں تہذیب، ثقافت اور روایات نہیں ہوتی۔ ہم اسی لیے آپس میں جڑ نہیں رہے کیونکہ ہم الگ سوچتے ہیں اور الگ کرتے ہیں۔ پشتو ڈرامے کے دو طرح کے مسائل ہیں۔ ایک پروڈکشن اور دوسرا پروڈیوسرہے جن کی وجہ سے ڈرامہ ترقی نہیں کررہا اور نہ ہی اس کی اصل صورت سامنے آرہی ہے۔ ہم ایکسپریس میڈیا گروپ کی ڈرامہ کی بحالی کیلئے اس کاوش کو سراہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے کردار موجود ہیں، ہمیں باچا خان کی زندگی پر ڈرامے بنانے چاہئیں۔