جب جنگ سرمایہ داروں کا کاروبار ٹھہرے
دنیا سدھارنے والوں نے دنیا بگاڑ دی، ڈکٹیٹرز سے نجات دلانے کا جھانسہ دیکر دنیا کو ان سے بڑھ کر ظالموں کے حوالے کردی گئی
ISLAMABAD:
سانس لینے کو ترستا اور تڑپتا ہوا وہ شامی بچہ میری نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی ایک گرد میں اٹے حواس باختہ شامی بچے نے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھنچی تھی، اِس سے بھی پہلے ایلان کردی کی ساحل پر اوندھے منہ پڑی لاش نے انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارا تھا، مگر جب جنگ سرمایہ کاروں کا کاروبار بن جائے تو لڑائی کبھی نہیں تھمتی، نئے لشکرے نئے سرے سے ترتیب پاتے ہیں، اور پھر تراشیدہ میدان جنگ میں اتار دئیے جاتے ہیں۔ طاقتور کی لڑائی میں بے بسوں کی اولادیں ایندھن کا کام کرتیں ہیں، دو مردہ بچوں کو سینے سے لگائے خشک آنکھوں والے باپ کے اندر جو آنسووں کے دریا بہتے ہیں وہ کس نے دیکھے ہیں، ایک کے بعد ایک اور عزیز کا لاشہ اٹھانے اور تباہ شدہ ہسپتال کی طرف ڈھونے کی اذیت بس محبت کے بچاو کی آخری تدبیر ہی سمجھی جا سکتی ہے۔
اِس سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے ریموٹ کنٹرول ویڈیو گیمیز کی عملی مشق عراق کے نخلستان میں خود سے نہ متفق انسانوں کی جان لیکر کی تھی، وہ کیمیائی ہتھیار جس کی دہشت ساری دنیا پر بٹھا کر اچھے بھلے ملک پر دھاوا بولا گیا تھا آج تک اُس وادی خوب رنگ سے لہو رستا ہے، اپنے ملک کی رعایا کو سبھی بنیادی سہولتیں دینے والا قذافی جس عالمی جمہوریت کا شکار بنا کیا اُس کے بعد اُس کے ملک میں راوی چین لکھتا ہے؟
میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ جو بیت رہی ہے وہ کس سے ڈھکی ہوئی ہے؟ فلسطین کے کمزوروں کے ساتھ جو سلوک روا ہے کس کو معلوم نہیں؟ کشمیریوں کی خواب آلود آنکھوں میں پیلٹ گنوں کا زہر انڈیلنے والوں کے چہرے کس سے چھپے ہیں؟ سلامتی کا ڈھونگ رچائے اپنے ہی ہم مذہبوں کی عبادت گاہوں کو خون میں نہلانے والے ظالموں سے کون واقف نہیں؟ ہر سرکش کے مقابل ایک ظالم میدان میں ہے اور قصور وار اگر کوئی ہے تو کمزور انسانیت۔
یورپ کی یخ بستہ راتوں میں کیمپوں میں راتیں بسر کرنے والے بے چارے، اپنے ہی دیس میں پردیسی اور دوسرے درجے کے شہری ٹھہرائے جانے والے مظلوم، اپنی گلیوں میں آزادانہ کھیل کود کو ترسنے والے کمسن، آسمان پر اُڑنے والی ہر شے کو آفت سمجھنے والی نسلیں، یہ وقت کا کونسا لمحہ ہے جب انسانیت روز بروز گراوٹ اور تنزلی کا شکار ہے، انسانی جان کی عظمت کا انحصار بھی رنگ و نسل کا احسان مند ٹھہرا ہے۔
سچ کہیے تو سدھارنے والوں نے دنیا بگاڑ کر رکھ دی ہے، دنیا کو ڈکٹیٹرز سے نجات دلانے کا جھانسہ دیکر ممالک اُن سے بڑھ کر ظالموں کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ جتنے سالوں سے دہشت گردی کی جنگ جاری ہے جنگ کی دہشت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے، کیا بندوق کی نوک پر امن قائم کیا جاسکتا ہے؟
مجھے کچھ سالوں سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ملک ہے جس کا نام امریکہ ہے، جس کی سمت دیکھ کر ملک اپنی پالیساں ترتیب دیتے ہیں، جس کی سلامتی کی جنگ میں دنیا کا امن تباہ ہو کر رہ گیا ہے، جس کی سجھائی ہوئی جمہوریت کی راہ پر ساری دنیا کو چلنا ہوگا، جس کی بتائی ہوئی دہشت گردی کی تعریف پر سب کو قائل ہونا ہوگا، جس کی باہوں میں باہیں ڈال کر آپ انسانیت کو قتل کرتے پھریں تو سب ٹھیک اور مناسب ہے اور جونہی اُس کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جائے گا وہ آپ کے ملک کو تاراج کرکے رکھ دے گا۔ پھر کسی ایسے الزام میں آپ کو قتل کرنا چاہے گا جس طرح کا الزام خود اُس پر ہے، ایٹمی جنگ، کیمائی ہتھیار اور سب سے بڑھ کر کہ دنیا کے لئے خطرہ، چلیے اب کسی اور الزام کی گنجائش ہی نہیں، آپ کے ملک کے معصوم شہری جائیں باڑھ میں اگر دنیا میں کسی کی جان کی قیمت ہے تو وہ امریکی شہری ہے یا امریکی حواری ہے۔
کیا دنیا اندھی ہوچکی ہے؟ یا علم و حکمت کے سب موتی امریکہ سے پھوٹتے ہیں؟ عراق کے لاکھوں لوگ اِس جھانسے میں قتل ہوئے کہ وہاں دنیا کی تباہی کا ہتھیار تیار ہوتا ہے اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہاں کچھ نہ ملا اور کس ڈھٹائی اور بے شرمی سے معذرت کرلی گئی جیسے اُن انسانوں کی جان کوئی معنی نہ رکھتی ہو۔ اب جبکہ امریکہ کی حکومت ایک نسل پرستی کا علی الاعلان اظہار کرنے والے شخص کے ہاتھ میں ہے تو کیا آپ دنیا میں بھلائی کی کوئی امید کرسکتے ہیں؟
ہر اُس انسان کا لہو مقدم ہے جس کی زندگی اُس سے چھین لی گئی ہو، اُس انسان کا خواہ مذہب کوئی بھی ہو، خواہ اُس کا رنگ کوئی بھی ہو، خواہ اُس کا وطن کوئی بھی ہو، اُس کی جان ایک انسان کی جان ہے، اُس کو کوئی قتل کیوں کرے؟ اور آج ہم نے اپنے مشکل معاملات کا حل ایسے لوگوں کو سونپ دیا جنہیں صرف بارود کی زبان آتی ہے، جن کا کاروبار اسلحے کی تجارت ہے ایسے میں دنیا میں انسان قتل ہونے کیونکر کم ہوسکتے ہیں؟
سانس لینے کو ترستا اور تڑپتا ہوا وہ شامی بچہ میری نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی ایک گرد میں اٹے حواس باختہ شامی بچے نے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھنچی تھی، اِس سے بھی پہلے ایلان کردی کی ساحل پر اوندھے منہ پڑی لاش نے انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارا تھا، مگر جب جنگ سرمایہ کاروں کا کاروبار بن جائے تو لڑائی کبھی نہیں تھمتی، نئے لشکرے نئے سرے سے ترتیب پاتے ہیں، اور پھر تراشیدہ میدان جنگ میں اتار دئیے جاتے ہیں۔ طاقتور کی لڑائی میں بے بسوں کی اولادیں ایندھن کا کام کرتیں ہیں، دو مردہ بچوں کو سینے سے لگائے خشک آنکھوں والے باپ کے اندر جو آنسووں کے دریا بہتے ہیں وہ کس نے دیکھے ہیں، ایک کے بعد ایک اور عزیز کا لاشہ اٹھانے اور تباہ شدہ ہسپتال کی طرف ڈھونے کی اذیت بس محبت کے بچاو کی آخری تدبیر ہی سمجھی جا سکتی ہے۔
اِس سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے ریموٹ کنٹرول ویڈیو گیمیز کی عملی مشق عراق کے نخلستان میں خود سے نہ متفق انسانوں کی جان لیکر کی تھی، وہ کیمیائی ہتھیار جس کی دہشت ساری دنیا پر بٹھا کر اچھے بھلے ملک پر دھاوا بولا گیا تھا آج تک اُس وادی خوب رنگ سے لہو رستا ہے، اپنے ملک کی رعایا کو سبھی بنیادی سہولتیں دینے والا قذافی جس عالمی جمہوریت کا شکار بنا کیا اُس کے بعد اُس کے ملک میں راوی چین لکھتا ہے؟
میانمار کے مسلمانوں کے ساتھ جو بیت رہی ہے وہ کس سے ڈھکی ہوئی ہے؟ فلسطین کے کمزوروں کے ساتھ جو سلوک روا ہے کس کو معلوم نہیں؟ کشمیریوں کی خواب آلود آنکھوں میں پیلٹ گنوں کا زہر انڈیلنے والوں کے چہرے کس سے چھپے ہیں؟ سلامتی کا ڈھونگ رچائے اپنے ہی ہم مذہبوں کی عبادت گاہوں کو خون میں نہلانے والے ظالموں سے کون واقف نہیں؟ ہر سرکش کے مقابل ایک ظالم میدان میں ہے اور قصور وار اگر کوئی ہے تو کمزور انسانیت۔
یورپ کی یخ بستہ راتوں میں کیمپوں میں راتیں بسر کرنے والے بے چارے، اپنے ہی دیس میں پردیسی اور دوسرے درجے کے شہری ٹھہرائے جانے والے مظلوم، اپنی گلیوں میں آزادانہ کھیل کود کو ترسنے والے کمسن، آسمان پر اُڑنے والی ہر شے کو آفت سمجھنے والی نسلیں، یہ وقت کا کونسا لمحہ ہے جب انسانیت روز بروز گراوٹ اور تنزلی کا شکار ہے، انسانی جان کی عظمت کا انحصار بھی رنگ و نسل کا احسان مند ٹھہرا ہے۔
سچ کہیے تو سدھارنے والوں نے دنیا بگاڑ کر رکھ دی ہے، دنیا کو ڈکٹیٹرز سے نجات دلانے کا جھانسہ دیکر ممالک اُن سے بڑھ کر ظالموں کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ جتنے سالوں سے دہشت گردی کی جنگ جاری ہے جنگ کی دہشت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے، کیا بندوق کی نوک پر امن قائم کیا جاسکتا ہے؟
مجھے کچھ سالوں سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ملک ہے جس کا نام امریکہ ہے، جس کی سمت دیکھ کر ملک اپنی پالیساں ترتیب دیتے ہیں، جس کی سلامتی کی جنگ میں دنیا کا امن تباہ ہو کر رہ گیا ہے، جس کی سجھائی ہوئی جمہوریت کی راہ پر ساری دنیا کو چلنا ہوگا، جس کی بتائی ہوئی دہشت گردی کی تعریف پر سب کو قائل ہونا ہوگا، جس کی باہوں میں باہیں ڈال کر آپ انسانیت کو قتل کرتے پھریں تو سب ٹھیک اور مناسب ہے اور جونہی اُس کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جائے گا وہ آپ کے ملک کو تاراج کرکے رکھ دے گا۔ پھر کسی ایسے الزام میں آپ کو قتل کرنا چاہے گا جس طرح کا الزام خود اُس پر ہے، ایٹمی جنگ، کیمائی ہتھیار اور سب سے بڑھ کر کہ دنیا کے لئے خطرہ، چلیے اب کسی اور الزام کی گنجائش ہی نہیں، آپ کے ملک کے معصوم شہری جائیں باڑھ میں اگر دنیا میں کسی کی جان کی قیمت ہے تو وہ امریکی شہری ہے یا امریکی حواری ہے۔
کیا دنیا اندھی ہوچکی ہے؟ یا علم و حکمت کے سب موتی امریکہ سے پھوٹتے ہیں؟ عراق کے لاکھوں لوگ اِس جھانسے میں قتل ہوئے کہ وہاں دنیا کی تباہی کا ہتھیار تیار ہوتا ہے اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہاں کچھ نہ ملا اور کس ڈھٹائی اور بے شرمی سے معذرت کرلی گئی جیسے اُن انسانوں کی جان کوئی معنی نہ رکھتی ہو۔ اب جبکہ امریکہ کی حکومت ایک نسل پرستی کا علی الاعلان اظہار کرنے والے شخص کے ہاتھ میں ہے تو کیا آپ دنیا میں بھلائی کی کوئی امید کرسکتے ہیں؟
ہر اُس انسان کا لہو مقدم ہے جس کی زندگی اُس سے چھین لی گئی ہو، اُس انسان کا خواہ مذہب کوئی بھی ہو، خواہ اُس کا رنگ کوئی بھی ہو، خواہ اُس کا وطن کوئی بھی ہو، اُس کی جان ایک انسان کی جان ہے، اُس کو کوئی قتل کیوں کرے؟ اور آج ہم نے اپنے مشکل معاملات کا حل ایسے لوگوں کو سونپ دیا جنہیں صرف بارود کی زبان آتی ہے، جن کا کاروبار اسلحے کی تجارت ہے ایسے میں دنیا میں انسان قتل ہونے کیونکر کم ہوسکتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔