گھوسٹ ایمپلائر کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ
ملک و قوم کا نقصان اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ اب تک سرکاری ملازمین کے کام کرنے سے ہوا ہے
با خبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے گھوسٹ ملازمین کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے باقاعدہ ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کی جائے گی۔ تاکہ ایسے ملازمین کی صحیح تعداد کا اندازہ اور کم از کم آئندہ کے لیے اس برائی کا سد باب کیا جاسکے۔
عام خیال یہ ہے کہ ایسے ملازمین ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو بقول شاعر:
''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں''
بظاہر یہ لوگ سوائے تنخواہیں وصول کرنے کے کوئی اور کام نہیں کرتے لیکن ان کے بارے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ایسے گھوسٹ ایمپلائز معاشرے بلکہ سرکاری خزانے پر ایک بوجھ ہیں جو کسی نہ کسی طرح تنخواہیں وصول کیے جارہے ہیں اور کچھ نہیں کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ در پردہ تخریبی کارروائیوں میں بھی مصروف ہوں جن سے ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہو۔ اگر ایسے افراد کی تنخواہیں روک دی جائیں تو یہی پیسہ کسی تعمیری سرگرمی میں استعمال ہوسکتا ہے۔
مگر دوسرا طبقہ ایسا بھی ہے جس کے خیال میں ایسے ملازمین جینوئن بھی ہوسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے ان کی تنخواہوں سے بعض ضرورت مند افراد کے گھر چل رہے ہوں اور تنخواہیں روک دینے سے ایسے خاندان مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ ملک و قوم کا نقصان اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ اب تک سرکاری ملازمین کے کام کرنے سے ہوا ہے۔ کام نہ کرنے سے نہیں۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ گھوسٹ ملازمین کوئی کام نہ کرکے ملک و قوم کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچارہے ہوںاور کچھ نہ کرکے ملک کے بد قسمت شہریوں پر احسان کر رہے ہوں۔
حکومت بہر حال گھوسٹ ایمپلائز کے لیے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت ایسے ملازمین سے کہا جائے گا کہ وہ اس ''خود ساختہ گمشدگی یا پوشیدگی'' سے نکلیں اپنے آپ کو ظاہر کریں اور منظر عام پر لائیں اس شرط اور یقین دہانی کے ساتھ کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا بس انھیں ریگولرائز کیا جائے گا ان کی تنخواہیں اور مراعات جوں کی توں جاری رہیںگی۔
جیسا کہ باخبر ذریعوں نے بتایا گھوسٹ ایمپلائز بھی دو اقسام کے ہیں۔ ایک وہ جو بوجوہ اپنے آپ کوپوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں سامنے نہیں آنا چاہتے بلکہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ایک گوشے میں پڑے ہیں ترا کیالیتے ہیں صرف یہی کہ مہینہ ختم ہونے پر تنخواہ لے لیتے ہیں۔
دوسری قسم گھوسٹ ایمپلائز کی زیادہ تر ایسے ملازمین پر مشتمل ہے جو بیک وقت دو ملازمتیں کررہی ہے ایک ملازمت اسے سامنے آکر کرنی پڑتی ہے جب کہ دوسری ملازمت بہ امر مجبوری چھپ کر یا جزوی طور پر کرنی پڑتی ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد سرکاری اسکول اساتذہ کی ہے جو اپنے شاگردوں پر یہ احسان کررہے ہیں کہ پڑھا نہیں رہے ہیں دوسری ملازمت میں جو زیادہ تر پرائیویٹ ہوتی ہے آجر یا مالکان نے ان کے ساتھ خاصی زیادتی کی ہوئی ہے۔
یعنی انھیں پابند کیا ہوا ہے کہ وہ ریگولر دفتر یا کارخانے میں آئیں، اوقات کار پورے کریں اور پھر اس کے بعد انھیں تنخواہ دی جائے گی۔ ایسے ملازمین مجبوراً ورکروں کا یہ استحصال برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
ایسے ملازمین کی دوہری ملازمتوں کو اگر ہمارے حکمران چاہیں تو دنیا بھرمیں اپنے ملک کی امیج بہتر بنانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ بڑے فخر سے یہ بتاکر کہ ہمارے ملک میں بہت سے افراد ملک و قوم کی ترقی اور ذاتی فلاح و بہبود کے لیے دوہری ملازمتیں کرتے ہیں جس کے لیے انھیں دس دس بارہ بارہ گھنٹے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کرنا پڑتا ہے۔
حکومت نے یہ بھی طے کیا ہے کہ گھوسٹ ایمپلائز سے سامنے آنے کو جو اپیل کی گئی ہے اگر اس کا رد عمل مثبت اور خاطر خواہ نہیں ہوا اور ایسے ملازمین نے شرماکر گھر بیٹھے رہنے پر ترجیح دی تو حکومت ایسے گھوسٹ ملازمین کے بارے میں تحقیقات کے لیے ایک کمیشن کام کرے گی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ گھوسٹ ملازمین کا چھپے رہنا رضاکارانہ ہے یا وہ بہ امر مجبوری ایسا کررہے ہیں اس کے علاوہ ایسے ملازمین کا سراغ لگانے کے لیے سراغ رسانوں اور جاسوسوں کی خدمت بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جو یہ پتا چلائیںگے کہ یہ گھوسٹ ایمپلائز کتنی تعداد میں ہیں اور کہاں چھپے ہوتے ہیں اور ان سے رابطے کی کیا صورت ہوسکتی ہے اور ان کو تنخواہوں کی ادائیگی کا سلسلہ کیسے روکا جاسکتا ہے۔
حکومت میں کچھ نیک دل حضرات ایسے بھی ہیں جو خلوص اور نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ ایسے گھوسٹ ایمپلائز کی تنخواہیں ور مراعات نہیں روکی جانی چاہئیں کیونکہ ہوسکتا ہے ان سے کچھ مستحق اور ضرورت مند خاندانوں کا بھلا ہورہا ہو۔
اس سلسلے میں گھوسٹ ایمپلائز کے اخلاق و کردار کا بھی پتا چلانے کی کوشش کی جائے گی اگر وہ واقعی محنتی اور ایماندار ہیں تو ان کے معاملے میں نرمی سے کام لیا جائے گا اور اس بات کو بھی خاطر میں لایا جائے گا کہ ایسے ملازمین کام نہ کرکے ملک میں کرپشن کی شرح کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں کیونکہ گھوسٹ ایمپلائز کچھ کر ہی نہیں رہے ہیں تو ان کے کرپٹ پریکٹسز میںملوث ہونے کے امکانات بہت کم ہیں اور بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کا دم بہت غنیمت ہے۔
آخر میں خود پر تھوڑی سی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے ہم یہ وضاحت کرنا چاہیںگے کہ یہ ساری باتیں محض تفنن طبع اور مزاح پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں اس سے کسی کی تضحیک خاص طور پر گھوسٹ ملازمین کی دل آزاری مقصود نہیں ہے پھر بھی ہمارے لکھے سے کسی کے جذبات کو اگر ٹھیس پہنچ جائے تو ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔