ماسٹر عبدالعزیز پاکستان کے مشہور کرکٹ کوچ کا دلنواز تذکرہ
کرکٹ ماسٹر عبدالعزیز کے لیے عشق تھا، بلکہ ایک جنون جس کی خاطر وہ بیوی اور بیٹا تو کیا پوری دنیا چھوڑ سکتے تھے۔
MANSEHRA:
یہ 1953ء کی بات ہے کہ میرے والد (قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی) انجمن ترقی اردو کو چھوڑ کر سندھ یونیورسٹی، حیدر آباد چلے گئے۔ اس وقت میری عمر دس برس تھی۔ میں کراچی کے مشہور اور ممتاز تعلیمی ادارے، سندھ مدرستہ الاسلام میں زیر تعلیم تھا جس کی ایک وجہ شہرت یہ بھی تھی کہ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح بھی کسی زمانے میں اس تعلیمی درس گاہ سے وابستہ رہ چکے تھے۔
جب میں نے سندھ مدرسے میں داخلہ لیا تو اس کی دیواروں پر جابجا ایک نام نمایاں طور پر لکھا نظر آتا: ''کنگ آف کانگو۔'' دس برس کی عمر میں میرے لیے یہ سمجھنا بے حد دشوار تھا کہ کنگ آف کانگو کون ہے اور وہ کیا کرتا ہے، یہ نام دیواروں پر کس نے لکھا اور کیوں لکھا ہے۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ مدرسے کے گراؤنڈ میں ایک لمبے تڑنگے، لحیم شحیم سرپر خشخشی بال لیے سیاہ بھجنگ ایک صاحب تقریباً جھومتے جھامتے چلے آرہے ہیں۔ یہ شدید گرمیوں کے دن تھے لیکن ان صاحب نے سبز رنگ کا کوٹ زیب تن کررکھا تھا جسے کرکٹ کی اصطلاح میں بلیزر کہا جاتا ہے ۔یہ عموماً کرکٹر حضرات ہی پہنتے ہیں۔ دور سے آتے ہوئے حبشیوں کی طرح صرف ان کے سفید دانت اور آنکھوں کی سفیدی ہی دکھائی پڑتی تھی۔
اب کنگ آف کانگو کا مفہوم مجھے سمجھ میں آ گیا۔ یہ صاحب کرکٹر کے شہرۂ آفاق کھلاڑی اور کوچ ماسٹر عبدالعزیز تھے جو ان دنوں سندھ مدرستہ الاسلام کی کرکٹ ٹیم کو کوچ کررہے تھے۔ نئی نسل کے کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ اس زمانے میں یعنی سن انیس سو پچاس کی دہائی میں کراچی شہر کے مختلف اسکولوں کی کرکٹ ٹیموں کے مابین بڑی باقاعدگی کے ساتھ روبی شیلڈ نامی کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا کرتا تھا۔ ان کرکٹ ٹیموں میں سندھ مدرسہ ، شیلڈن ہائی سکول، سینٹ پیٹرک اور ماڈل ہائی اسکول کی ٹیمیں خاص طور پر مشہور اور ممتاز تھیں۔
روبی شیلڈ کے لیے اصل مقابلہ انہی ٹیموں کے درمیان ہوا کرتا تھا۔ ماسٹر عبدالعزیز ہندوستان کی تقسیم سے قبل کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان کا تعلق جنوبی ہندوستان کے مشہور شہر مدراس سے تھا جو اب چنائے کہلاتا ہے۔ حنیف محمد سندھ مدرسے کے طالب علم تھے لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ اس زمانے میں مدرسہ چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اور غالباً پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے ان کا انتخاب بھی ہوچکا تھا۔ میں نے کبھی انہیں مدرسے میں جماعت لیتے نہیںدیکھااور نہ ہی انہوں نے کبھی روبی شیڈ ٹورنامنٹ میں حصہ لیا تھا۔
بہرکیف ساتھی طلبہ کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ لٹل ماسٹر حنیف محمد، ماسٹر عبدالعزیز کے انتہائی چہیتے، لاڈلے اورخاص الخاص شاگرد رہ چکے ہیں۔ان پر ماسٹر عزیز نے کرکٹ کے بارے میں اپنا سارا علم اور تکنیک صرف کردی تھی! اس ہونہار شاگرد پر انہیں غیر معمولی فخر تھا کیوں کہ اپنے اس نو عمر شاگرد پر انہوں نے خصوصی توجہ صرف کی تھی۔ واضح رہے، جب حنیف محمد نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تو ان کی عمر فقط انیس برس تھی۔ نو عمری کا یہ ریکارڈ آگے چل کر بھارت کے اسٹار بیٹسمین ٹنڈولکر نے اس وقت توڑ دیا جب فقط سولہ برس کی عمر میں انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔
اس زمانے میں حنیف محمد کے گرد ایک عجیب اور ُپرکشش ہالہ کھنچا ہوا تھا۔ سپورٹس کی مشہور و معروف دکان ،جناح سپورٹس پر ان کی فریم شدہ چھوٹی سی تصویر جس میں انہوں نے کرکٹ بلیزر پہن رکھا تھا ،آج بھی میری نگاہوں میں گھومتی رہتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حنیف محمد کو پاکستانی کرکٹ میں وہی مقام، رتبہ اور شہرت حاصل ہوئی جو دلیپ کمار کو بھارتی فلم انڈسٹری میں! انہیں صحیح معنوں میں پاکستانی کرکٹ کا لیجنڈ کہا جاسکتا ہے۔
اس زمانے میں ٹرف وکٹ کا رواج عام نہ تھا۔ چناں چہ سبھی اہم میچ میٹنگ پچ پر ہوا کرتے تھے۔ ایک سہ پہر کو میں نے دیکھا کہ ایک میٹنگ وکٹ کے اردگرد پریکٹس نیٹ لگی ہے اور ماسٹر عبدالعزیز، حنیف محمد کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد کو بیٹنگ کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے دیگر اسرار و رموز سمجھانے میں مشغول ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ماسٹر عبدالعزیز صحیح معنوں میں ''فنافی الکرکٹ'' تھے تو یقیناً غلط نہ ہوگا۔ ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔
کرکٹ سے ماسٹر صاحب کی دیرینہ محویت، انہماک اور دلچسپی کے نتیجے میں ان کی بیوی اپنے بیٹے کے ہمراہ واپس بھارت چلی گئی تھیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ماسٹر عبدالعزیز کے اس بیٹے کا نام کیا تھا؟ اس کا نام تھا سلیم درانی جو بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتا رہا ہے۔
کرکٹ ماسٹر عبدالعزیز کے لیے عشق تھا، بلکہ ایک جنون جس کی خاطر وہ بیوی اور بیٹا تو کیا پوری دنیا چھوڑ سکتے تھے۔ اس سلسلے میں دو واقعات میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ ایک دن ماسٹر عبدالعزیز مدرسے کے احاطے میں تالپور ہاؤس کی بلند و بالا چھت کے نیچے کسی کھلاڑی کوکرمچ کی گیند سے بالنگ کرتے ہوئے بیٹنگ کے داؤ پیچ سکھانے میں مصروف تھے۔میں بھی وہیں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔اچانک ماسٹر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ''بیٹا! ذرا جاکر میرے کمرے سے ایک بیٹ تو لے آ۔''
میں حیران پریشان، سوالیہ نشان کی صورت انہیں دیکھنے لگا۔ مجھے بھلا کیا معلوم کہ ماسٹر صاحب کا کمرا کہاں ہے؟ بہرحال ایک ساتھی نے نشان دہی کرتے ہوئے بتلایا کہ ماسٹر صاحب کا کمرا فلاں جگہ ہے۔ خیر میں سرپٹ دوڑتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچ گیا۔ کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔وہاں تھا کیا جو تراغم اسے غارت کرتا! ایک پلنگ پر میلا سا بستر، میلی چادر، ایک گندا، میل چیکٹ تکیہ اور بدبو! یہ تھی ماسٹر عبدالعزیز جیسے عظیم کرکٹر کی کل کائنات!
دروازے کی چوکھٹ سے جراب کے اندر رکھی کرکٹ کی گیند ایک رسی کی مدد سے لٹک رہی تھی جسے بالعموم کرکٹ بیٹ کا اسٹروک لگانے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔ سامنے دیوار کے سہارے ایک بلا رکھا تھا۔ میں نے فوراً وہ بلا پکڑا اور بھاگتے ہوئے واپس آکر ماسٹر صاحب کے حوالے کردیا۔
دوسرا واقعہ اس وقت کا ہے جب سندھ مدرسہ گراؤنڈ پر ایک دوستانہ کرکٹ میچ کے دوران ماسٹر عبدالعزیز نے ایک اوور کی چھ گیندوں پر چھ چھکے لگا کر ہر مرتبہ گیند کو مدرسے کے احاطے سے باہر سڑک پر پھینک دیا تھا۔ ایک نہایت عمدہ بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ ماسٹر عبدالعزیز ایک چوکنے اورچاق و چوبند وکٹ کیپر بھی تھے۔ چناںچہ اپنے عزیز ترین شاگرد حنیف محمد کو بھی انہوں نے وکٹ کیپنگ کی باقاعدہ ٹریننگ دی تھی۔ بہرطور وقت کا کام گزرنا ہے،وہ گزر جاتا ہے!
کئی برس بعد غالباً 1960ء کی دہائی کا آخری زمانہ تھا ۔کراچی میں بس سے سفر کرتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ پچھلی ایک سیٹ پر ماسٹر عبدالعزیز براجمان ہیں۔ بلیزر بدستور انہوں نے پہن رکھا تھا۔ سندھ مدرسے میں وہ عام طور پر ''عزیز سر'' کے نام سے معروف تھے۔ میں نشست سے اٹھا اور ان کے پاس ہی سلام کرکے بیٹھ گیا ''سر! آپ برسوں بعد نظر آئے ہیں'' میں نے ان سے پوچھا۔
''بیٹا! (بیٹا ماسٹر عبدالعزیز کا تکیہ کلام تھا۔ ہر چھوٹے بڑے کو وہ بیٹا کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے) میں مشرقی پاکستان چلا گیا ہوں۔ اور وہاں کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کررہا ہوں، اس لیے اب یہاں رہنا بہت کم ہوگیا ہے۔'' انہوں نے جواب دیا۔
آج بنگلہ دیش کی قومی کرکٹ ٹیم کو اچھی ٹیم تصور کیا جاتا ہے۔لیکن قارئین کو یہ جان کر یقیناً تعجب ہوگا کہ 1960ء کی دہائی تک سابق مشرقی پاکستان اور حال بنگلہ دیش میں جو مقبولیت اور پذیرائی فٹ بال کے کھیل کوحاصل تھی ،اس کا ہماری نئی نسل کو قطعاً اندازہ نہیں ہوگا۔ ''محمڈن اسپورٹس کلب'' مشرقی پاکستان میں فٹ بال کا معروف ترین کلب تھا ۔ قومی اور اجتماعی سطح پر کرکٹ کو وہاں کوئی مقبولیت اور پسندیدگی حاصل نہیں تھی۔ یہ کریڈٹ بھی ماسٹر عبدالعزیز ہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے دور افتادہ خطّے میں جاکر کرکٹ کو مقبولیت دلوائی جہاں اس کھیل کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا۔ یہ انہی کا فیض ہے کہ بنگلہ دیش ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوسکا ۔
ماسٹر صاحب سے بس میں ملاقات آخری ثابت ہوئی۔چند مہینوں بعد اخبارات میں ایک مختصر سی سنگل کالمی خبر شائع ہوئی: ''کرکٹ کے مشہور کھلاڑی اور کوچ ماسٹر عبدالعزیز انتقال کرگئے۔'' اللہ اللہ خیر سلّا!ان کا انتقال کسمپرسی کے عالم میں ہوا تھا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا! کرکٹ کا ایسا شیدائی، ایسا دیوانہ، ایسا جاں نثار میں نے ماسٹر عبدالعزیز کے سوا اور کوئی نہیں دیکھا۔
یہ 1953ء کی بات ہے کہ میرے والد (قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی) انجمن ترقی اردو کو چھوڑ کر سندھ یونیورسٹی، حیدر آباد چلے گئے۔ اس وقت میری عمر دس برس تھی۔ میں کراچی کے مشہور اور ممتاز تعلیمی ادارے، سندھ مدرستہ الاسلام میں زیر تعلیم تھا جس کی ایک وجہ شہرت یہ بھی تھی کہ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح بھی کسی زمانے میں اس تعلیمی درس گاہ سے وابستہ رہ چکے تھے۔
جب میں نے سندھ مدرسے میں داخلہ لیا تو اس کی دیواروں پر جابجا ایک نام نمایاں طور پر لکھا نظر آتا: ''کنگ آف کانگو۔'' دس برس کی عمر میں میرے لیے یہ سمجھنا بے حد دشوار تھا کہ کنگ آف کانگو کون ہے اور وہ کیا کرتا ہے، یہ نام دیواروں پر کس نے لکھا اور کیوں لکھا ہے۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ مدرسے کے گراؤنڈ میں ایک لمبے تڑنگے، لحیم شحیم سرپر خشخشی بال لیے سیاہ بھجنگ ایک صاحب تقریباً جھومتے جھامتے چلے آرہے ہیں۔ یہ شدید گرمیوں کے دن تھے لیکن ان صاحب نے سبز رنگ کا کوٹ زیب تن کررکھا تھا جسے کرکٹ کی اصطلاح میں بلیزر کہا جاتا ہے ۔یہ عموماً کرکٹر حضرات ہی پہنتے ہیں۔ دور سے آتے ہوئے حبشیوں کی طرح صرف ان کے سفید دانت اور آنکھوں کی سفیدی ہی دکھائی پڑتی تھی۔
اب کنگ آف کانگو کا مفہوم مجھے سمجھ میں آ گیا۔ یہ صاحب کرکٹر کے شہرۂ آفاق کھلاڑی اور کوچ ماسٹر عبدالعزیز تھے جو ان دنوں سندھ مدرستہ الاسلام کی کرکٹ ٹیم کو کوچ کررہے تھے۔ نئی نسل کے کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ اس زمانے میں یعنی سن انیس سو پچاس کی دہائی میں کراچی شہر کے مختلف اسکولوں کی کرکٹ ٹیموں کے مابین بڑی باقاعدگی کے ساتھ روبی شیلڈ نامی کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا کرتا تھا۔ ان کرکٹ ٹیموں میں سندھ مدرسہ ، شیلڈن ہائی سکول، سینٹ پیٹرک اور ماڈل ہائی اسکول کی ٹیمیں خاص طور پر مشہور اور ممتاز تھیں۔
روبی شیلڈ کے لیے اصل مقابلہ انہی ٹیموں کے درمیان ہوا کرتا تھا۔ ماسٹر عبدالعزیز ہندوستان کی تقسیم سے قبل کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان کا تعلق جنوبی ہندوستان کے مشہور شہر مدراس سے تھا جو اب چنائے کہلاتا ہے۔ حنیف محمد سندھ مدرسے کے طالب علم تھے لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ اس زمانے میں مدرسہ چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اور غالباً پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے ان کا انتخاب بھی ہوچکا تھا۔ میں نے کبھی انہیں مدرسے میں جماعت لیتے نہیںدیکھااور نہ ہی انہوں نے کبھی روبی شیڈ ٹورنامنٹ میں حصہ لیا تھا۔
بہرکیف ساتھی طلبہ کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ لٹل ماسٹر حنیف محمد، ماسٹر عبدالعزیز کے انتہائی چہیتے، لاڈلے اورخاص الخاص شاگرد رہ چکے ہیں۔ان پر ماسٹر عزیز نے کرکٹ کے بارے میں اپنا سارا علم اور تکنیک صرف کردی تھی! اس ہونہار شاگرد پر انہیں غیر معمولی فخر تھا کیوں کہ اپنے اس نو عمر شاگرد پر انہوں نے خصوصی توجہ صرف کی تھی۔ واضح رہے، جب حنیف محمد نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تو ان کی عمر فقط انیس برس تھی۔ نو عمری کا یہ ریکارڈ آگے چل کر بھارت کے اسٹار بیٹسمین ٹنڈولکر نے اس وقت توڑ دیا جب فقط سولہ برس کی عمر میں انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا۔
اس زمانے میں حنیف محمد کے گرد ایک عجیب اور ُپرکشش ہالہ کھنچا ہوا تھا۔ سپورٹس کی مشہور و معروف دکان ،جناح سپورٹس پر ان کی فریم شدہ چھوٹی سی تصویر جس میں انہوں نے کرکٹ بلیزر پہن رکھا تھا ،آج بھی میری نگاہوں میں گھومتی رہتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حنیف محمد کو پاکستانی کرکٹ میں وہی مقام، رتبہ اور شہرت حاصل ہوئی جو دلیپ کمار کو بھارتی فلم انڈسٹری میں! انہیں صحیح معنوں میں پاکستانی کرکٹ کا لیجنڈ کہا جاسکتا ہے۔
اس زمانے میں ٹرف وکٹ کا رواج عام نہ تھا۔ چناں چہ سبھی اہم میچ میٹنگ پچ پر ہوا کرتے تھے۔ ایک سہ پہر کو میں نے دیکھا کہ ایک میٹنگ وکٹ کے اردگرد پریکٹس نیٹ لگی ہے اور ماسٹر عبدالعزیز، حنیف محمد کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد کو بیٹنگ کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے دیگر اسرار و رموز سمجھانے میں مشغول ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ماسٹر عبدالعزیز صحیح معنوں میں ''فنافی الکرکٹ'' تھے تو یقیناً غلط نہ ہوگا۔ ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی۔
کرکٹ سے ماسٹر صاحب کی دیرینہ محویت، انہماک اور دلچسپی کے نتیجے میں ان کی بیوی اپنے بیٹے کے ہمراہ واپس بھارت چلی گئی تھیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ماسٹر عبدالعزیز کے اس بیٹے کا نام کیا تھا؟ اس کا نام تھا سلیم درانی جو بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتا رہا ہے۔
کرکٹ ماسٹر عبدالعزیز کے لیے عشق تھا، بلکہ ایک جنون جس کی خاطر وہ بیوی اور بیٹا تو کیا پوری دنیا چھوڑ سکتے تھے۔ اس سلسلے میں دو واقعات میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ ایک دن ماسٹر عبدالعزیز مدرسے کے احاطے میں تالپور ہاؤس کی بلند و بالا چھت کے نیچے کسی کھلاڑی کوکرمچ کی گیند سے بالنگ کرتے ہوئے بیٹنگ کے داؤ پیچ سکھانے میں مصروف تھے۔میں بھی وہیں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا۔اچانک ماسٹر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اور بولے ''بیٹا! ذرا جاکر میرے کمرے سے ایک بیٹ تو لے آ۔''
میں حیران پریشان، سوالیہ نشان کی صورت انہیں دیکھنے لگا۔ مجھے بھلا کیا معلوم کہ ماسٹر صاحب کا کمرا کہاں ہے؟ بہرحال ایک ساتھی نے نشان دہی کرتے ہوئے بتلایا کہ ماسٹر صاحب کا کمرا فلاں جگہ ہے۔ خیر میں سرپٹ دوڑتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچ گیا۔ کمرے کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔وہاں تھا کیا جو تراغم اسے غارت کرتا! ایک پلنگ پر میلا سا بستر، میلی چادر، ایک گندا، میل چیکٹ تکیہ اور بدبو! یہ تھی ماسٹر عبدالعزیز جیسے عظیم کرکٹر کی کل کائنات!
دروازے کی چوکھٹ سے جراب کے اندر رکھی کرکٹ کی گیند ایک رسی کی مدد سے لٹک رہی تھی جسے بالعموم کرکٹ بیٹ کا اسٹروک لگانے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔ سامنے دیوار کے سہارے ایک بلا رکھا تھا۔ میں نے فوراً وہ بلا پکڑا اور بھاگتے ہوئے واپس آکر ماسٹر صاحب کے حوالے کردیا۔
دوسرا واقعہ اس وقت کا ہے جب سندھ مدرسہ گراؤنڈ پر ایک دوستانہ کرکٹ میچ کے دوران ماسٹر عبدالعزیز نے ایک اوور کی چھ گیندوں پر چھ چھکے لگا کر ہر مرتبہ گیند کو مدرسے کے احاطے سے باہر سڑک پر پھینک دیا تھا۔ ایک نہایت عمدہ بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ ماسٹر عبدالعزیز ایک چوکنے اورچاق و چوبند وکٹ کیپر بھی تھے۔ چناںچہ اپنے عزیز ترین شاگرد حنیف محمد کو بھی انہوں نے وکٹ کیپنگ کی باقاعدہ ٹریننگ دی تھی۔ بہرطور وقت کا کام گزرنا ہے،وہ گزر جاتا ہے!
کئی برس بعد غالباً 1960ء کی دہائی کا آخری زمانہ تھا ۔کراچی میں بس سے سفر کرتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ پچھلی ایک سیٹ پر ماسٹر عبدالعزیز براجمان ہیں۔ بلیزر بدستور انہوں نے پہن رکھا تھا۔ سندھ مدرسے میں وہ عام طور پر ''عزیز سر'' کے نام سے معروف تھے۔ میں نشست سے اٹھا اور ان کے پاس ہی سلام کرکے بیٹھ گیا ''سر! آپ برسوں بعد نظر آئے ہیں'' میں نے ان سے پوچھا۔
''بیٹا! (بیٹا ماسٹر عبدالعزیز کا تکیہ کلام تھا۔ ہر چھوٹے بڑے کو وہ بیٹا کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے) میں مشرقی پاکستان چلا گیا ہوں۔ اور وہاں کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کررہا ہوں، اس لیے اب یہاں رہنا بہت کم ہوگیا ہے۔'' انہوں نے جواب دیا۔
آج بنگلہ دیش کی قومی کرکٹ ٹیم کو اچھی ٹیم تصور کیا جاتا ہے۔لیکن قارئین کو یہ جان کر یقیناً تعجب ہوگا کہ 1960ء کی دہائی تک سابق مشرقی پاکستان اور حال بنگلہ دیش میں جو مقبولیت اور پذیرائی فٹ بال کے کھیل کوحاصل تھی ،اس کا ہماری نئی نسل کو قطعاً اندازہ نہیں ہوگا۔ ''محمڈن اسپورٹس کلب'' مشرقی پاکستان میں فٹ بال کا معروف ترین کلب تھا ۔ قومی اور اجتماعی سطح پر کرکٹ کو وہاں کوئی مقبولیت اور پسندیدگی حاصل نہیں تھی۔ یہ کریڈٹ بھی ماسٹر عبدالعزیز ہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایسے دور افتادہ خطّے میں جاکر کرکٹ کو مقبولیت دلوائی جہاں اس کھیل کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا۔ یہ انہی کا فیض ہے کہ بنگلہ دیش ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوسکا ۔
ماسٹر صاحب سے بس میں ملاقات آخری ثابت ہوئی۔چند مہینوں بعد اخبارات میں ایک مختصر سی سنگل کالمی خبر شائع ہوئی: ''کرکٹ کے مشہور کھلاڑی اور کوچ ماسٹر عبدالعزیز انتقال کرگئے۔'' اللہ اللہ خیر سلّا!ان کا انتقال کسمپرسی کے عالم میں ہوا تھا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا! کرکٹ کا ایسا شیدائی، ایسا دیوانہ، ایسا جاں نثار میں نے ماسٹر عبدالعزیز کے سوا اور کوئی نہیں دیکھا۔