یوم دستور پر فوجی عدالت کا غیر ملکی ایجنٹ کو پھانسی کا فیصلہ

حکومت نے پھانسی کا اعلان خود کرکےعوامی عدالت میں سرخرو ہونا قبول کیوں نہیں کیا؟ یہ بات میری توسمجھ میں بالکل نہیں آئی


فہیم پٹیل April 11, 2017
حکومت کے لئے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ اتنے عرصے میں ہوا اُس کے نتیجے میں وہ نہ تین میں رہی نہ تیرہ میں، یعنی مکمل گھاٹے میں رہی ہے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ روز پاکستان میں 43واں یومِ دستور بہت جوش و خروش سے منایا گیا۔ یومِ دستور 10 اپریل کو ہر سال اِس لئے منایا جاتا ہے کہ 1973ء میں اِسی دن پاکستان میں ایک متفقہ آئین منظور ہوا تھا، جس پر آج بھی عمل کیا جارہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بار بار ترامیم سے اسے مسلسل نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے ہمارے درمیان موجود ہے اور ملکی نظام اِسی آئین کی روشنی میں چلایا جارہا ہے۔

یومِ دستور پر ایک طرف اسمبلیوں میں خصوصی تقریبات منائی گئیں تو دوسری جانب سیاستدان ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کا دعویٰ بھی کررہے تھے، لیکن تیسری طرف مملکت خداداد میں ایک انتہائی اہم فیصلہ دیکھنے کو ملا، جی ہاں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادو کو پھانسی دینے کا فیصلہ۔ یہ قدم اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی اہم فیصلہ ہے اور اگر اِس پر عملدرآمد ہوجاتا ہے تو جہاں ایک طرف پڑوسی ملک بھارت سے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کے امکانات ہیں وہیں اندرون خانہ یعنی پاکستان کے اندر ایک خوشی کی لہر ڈور سکتی ہے کہ جو شخص پاکستان کے اندر بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی خواہش رکھتا تھا آج اُس کو منطقی انجام تک پہنچادیا گیا۔

اِس سزا کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اِن مشکلات سے نمٹنے کے لئے پاکستان کیا طریقے اختیار کرے گا، اِس حوالے سے آج بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مقصدِ تحریر تو صرف یہ ہے کہ کلبھوشن یادو کی گرفتاری کے بعد سے اب تک حکومت پاکستان کیوں خاموش رہی؟ اور کب تک مزید خاموشی اختیار کیے رکھے گی؟

مجھے آج بھی وہ پریس کانفرنس یاد ہے جب اُس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کی موجودگی میں بھارتی جاسوس کی گرفتاری ظاہر کی گئی تھی اور قوم کو بتایا گیا تھا کہ ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے دشمن کتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کررہا ہے اور اِس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے والا بندہ اب ریاستی اداروں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ اُسی پریس کانفرنس میں کلبھوشن یادو کی ویڈیو بھی جاری کی گئی جس میں اُس نے اپنے تمام منصوبوں کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اُس کو خصوصی طور پر بلوچستان اور کراچی کے حوالے سے ٹارگٹ دیئے گئے ہیں۔

اِس پریس کانفرنس کی خاص بات جہاں ایک طرف کلبھوشن یادو کی گرفتاری ظاہر کرنا تھی، وہیں پریس کانفرنس کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی اہمیت سے بھرپور تھا۔ اُس وقت صحافیوں نے کیا سوال کئے اور پرویز رشید نے کیا جواب دیئے، آئیے اُس پر کچھ بات کرتے ہیں۔

سوال: سننے میں آیا ہے کہ گزشتہ دنوں پنجاب کی ایک شوگر مِل سے کچھ 'را' کے جاسوس پکڑے گئے ہیں اُس کے بارے میں بھی بتائیے۔

جواب: چونکہ یہ پریس کانفرنس آپ کی خواہش پر صرف کلبھوشن یادو کے حوالے سے رکھی گئی ہے لہذا مہربانی فرما کر اِسی سے متعلق سوال کیجیے، دوسرے معاملات میں ہم بعد میں بات کرلیں گے۔

سوال: جیسا کہ ماضی میں بھی ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا گیا ہے تو کیا حکومت اِس بار یہ یقین دہانی کروائے گی کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور بھارتی ایجنٹ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا؟

جواب: دیکھئے ابھی تحقیقات ہورہی ہیں، اِس حوالے سے عدالت میں کیس جائے گا اور فیصلہ بہرحال عدالت نے ہی کرنا ہے۔

سوال: گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے خطاب کیا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ وزیراعظم صاحب اِس ایجنٹ کی گرفتاری سے متعلق بات کرتے؟ یا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہے؟

جواب: پاکستان نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، ذمہ داری پوری کرنے کے جو مروجہ طریقے ہیں اُن کو اپنایا گیا جیسے خارجہ امور پر سفارتکار سے احتجاج کیا گیا، اور جہاں تک وزیراعظم کی بات ہے تو وہ اپنی قومی ذمہ داری کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

یہ وہ چیدہ چیدہ سوال و جواب تھے جن کے ذریعے باآسانی سمجھ آسکتا ہے کہ پرویز رشید اِس معاملے میں کوئی بھی واضح موقف اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں۔

اگر معاملہ یہاں تک ہی رہتا تو بات سمجھ آتی ہے کہ ابھی بہت جلدی ہے اِس پر بات کرنا، لیکن حیران کن طور پر 3 مارچ 2016ء کو گرفتار ہونے والے کلبھوشن یادو کا نام وزیراعظم پاکستان نے آج تک نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن متعدد مرتبہ ایوان میں بیان دے چکے ہیں کہ وہ اِس انتظار میں ہیں کہ، کب نواز شریف کلبھوشن یادو کا نام لیتے ہیں۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جس دن نواز شریف نے کُلبھوشن یادو کا صرف نام لے لیا تو وہ 50 ہزار روپے عطیہ کردیں گے۔ جب آخری بار اعتزاز احسن نے سینیٹ میں یہ بیان دیا تو جواب میں سرتاج عزیز نے ایوان کو جواب دیا کہ وزیراعظم جلد اِس حوالے سے بات کریں گے، لیکن آج تک وہ دن نہیں آسکا۔

یہ معاملہ خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنس کرنے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی اِس معاملے پر زیادہ بات کرنا پسند نہیں کی۔

3 مارچ 2016ء سے 10 اپریل 2017ء تک کلبھوشن یادو کا پورا کیس پاکستان آرمی کے پاس رہا حتٰی کہ پھانسی دینے سے متعلق فیصلے کا اعلان بھی جمہوری حکومت کے نمائندے نے نہیں بلکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعے کیا۔

نہیں جانتا آپ اِس صورتحال پر بہت زیادہ خوش ہیں یا ناخوش لیکن میں تو اِس پوری صورتحال سے بہت زیادہ مایوس ہوا ہوں۔ ایک عام تُاثر یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں، بلکہ کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا بھارت سے مالی مفاد وابستہ ہے، اور بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری پر خاموشی کی بھی یہی وجہ ہے۔ ممکن ہے کہ وجہ شاید یہی ہو لیکن حکومت کے لئے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ اتنے عرصے میں ہوا اُس کے نتیجے میں وہ نہ تین میں رہی نہ تیرہ میں، یعنی مکمل گھاٹے میں رہی ہے۔

مکمل گھاٹے کی بات اِس لیے کررہا ہوں کہ جس بندے کا حکومت نام تک نہیں لے رہی تھی اچانک اُس کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ آئینی اور اصولی طور پر یہ فیصلہ سول اور ملٹری قیادت نے ملکر ہی کیا ہوگا، اگر اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے تو پھر ذاتی رائے یہی ہے کہ فیصلے کا اعلان بھی حکومت کے نمائندے کو کرنا چاہیئے تھا۔ اِس کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ حکومت کی بھارت نوازی سے متعلق عوام میں جو چہ میگوئیاں جاری ہیں وہ دم توڑ جاتی، لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ اعلان کرنے کی وجہ سے نہ صرف حکومت کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا بلکہ اُس کی مقبولیت بھی مزید کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کلبھوشن یادو کو پھانسی دے دی جاتی ہے تو اِس حوالے سے حکومت ہی ذمہ دار ہوگی، اور عالمی سطح پر اگر بھارت کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اُس کا دفاع بھی حکومت کو ہی کرنا ہے تو جب سب کچھ حکومت نے ہی سنبھالنا ہے تو پھر حکومت نے خود اعلان کرکے عوامی عدالت میں سرخرو ہونا قبول کیوں نہیں کیا؟ یہ بات کم از کم میری تو سمجھ میں نہیں آئی، اگر آپ کے آجائے تو مجھے بھی آگاہ کیجیئے گا۔
[poll id="1356"]


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں