جناح ہاؤس پاکستان کی ملکیت

بھارت نے جناح ہاؤس پر اپنے قبضے کا باقاعدہ اعلان 7 اگست 2003ء کو کیا اور اسے اپنے ثقافتی تعلقات کی کونسل کے حوالے کیا

shabbirarman@yahoo.com

ہندو انتہاپسند تنظیم شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ راہول شیوالی نے لوک سبھا میں مطالبہ کیا ہے کہ ممبئی میں واقع جناح ہاؤس کو منہدم کردینا چاہیے کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھارت کی تقسیم کے لیے سازش کی تھی، جناح ہاؤس کی جگہ ہندوؤں کے لیے ایک یادگار تعمیر کی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بی جے پی کے ایک رہنما بھی جناح ہاؤس کو گرانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب قائداعظم نے اپنے پسندیدہ بنگلہ جناح ہاؤس کو خالی کرتے وقت ممبئی کے وزیراعظم بی جی کھر سے کہا تھا کہ کسی وقت بھی میں یہاں آکر رہ سکتا ہوں، اس عمارت کا خیال رکھنا۔ وسطی ممبئی میں سمندر کے عین مقابل ڈھائی ایکڑ رقبے پر مشتمل دنیا کی مہنگی جائیدادوں میں سے ایک ہے۔

2003ء میں جناح ہاؤس کا تخمینہ ڈیڑھ کروڑ پونڈ سے زائد لگایا گیا تھا۔ جناح ہاؤس تاریخی اعتبار سے بھی انمول ہے، کیونکہ تقسیم برصغیر میں اس عمارت کا نمایاں کردار رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح جب مسلم لیگ کی قیادت کے لیے برطانیہ سے لوٹے تو انھوں نے اس وقت اسے بنوایا تھا، اس عمارت میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے علاوہ گاندھی اور نہرو جیسی شخصیتیں بھی آئی ہیں جہاں قائداعظم اور ان کے درمیان تقسیم برصغیر کے حوالے سے فیصلہ کن تاریخی گفتگو ہوتی، دودھیا رنگ اس بنگلے پر 1936ء میں تعمیر کی مد میں دو لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔

یاد رہے کہ قائداعظم نے جناح ہاؤس 7 اگست 1947ء کو خالی کیا تھا، اور جناح ہاؤس خالی کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ پاکستان سے چھٹی منانے آئیں گے۔ لیکن قومی مصروفیات اور پھر ان کی بیماری نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1948ء میں جناح ہاؤس برطانوی ہائی کمیشن کو لیز پر دیا گیا جو 1982ء تک اس کے پاس رہا، اس کے بعد عمارت خالی رہی۔

بھارت نے جناح ہاؤس پر اپنے قبضے کا باقاعدہ اعلان 7 اگست 2003ء کو کیا اور اسے اپنے ثقافتی تعلقات کی کونسل کے حوالے کیا اور ساتھ ہی جناح ہاؤس کو آئی سی سی آر ممبئی شاخ کا نام دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اس میں ایک چھوٹا سا آڈیٹوریم، لائبریری، مطالعے کا کمرہ اور آرٹ گیلری قائم کیے جائیں گے۔ یہ بات جمعرات 7 اگست 2003ء کو راجیہ سبھا کو بھارت کے اس وقت کے خارجہ امور کے وزیر ڈگ وجے سنگھ نے بتائی تھی۔ اس وقت پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان مسعود خان کا کہنا تھا کہ بھارت ممبئی میں واقع قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ جناح ہاؤس پاکستان کے حوالے کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرے گا۔


خیال رہے کہ طویل عرصے سے پاکستان، بھارت سے جناح ہاؤس کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ جولائی 2001ء کو آگرہ مذاکرات میں اس وقت کے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے جناح ہاؤس کے حوالے سے حکومت پاکستان کا دعویٰ دہرایا تھا۔ بھارتی حکومت قائداعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی دینا واڈیا کی اس درخواست پر ہمدردانہ غور کرتی رہی ہے جس میں انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے نام اپنے خط میں جناح ہاؤس پر اپنا دعویٰ جتایا۔ اس طرح جناح ہاؤس کے متعلق حکومت پاکستان اور دینا واڈیا کے درمیان ایک متنازعہ صورت حال کھڑی ہوگئی۔

آج کل اس حوالے سے صورت حال کیا ہے، اس سے ہم بے خبر ہیں۔ البتہ اس وقت اس ضمن میں قائداعظم کے نواسے نسلی واڈیا کا کہنا تھا کہ جناح ہاؤس چونکہ ان کے نانا قائداعظم کی ملکیت ہے، اس لیے اس پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح ایک تاریخی شخصیت ہیں اور کسی بھی تاریخی شخصیت کے اثاثے اور وہ اثاثے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہوں، قومی ورثے میں شمار کیے جاتے ہیں، لہٰذا قائداعظم کی ہر چیز پاکستانی قوم کے لیے معتبر ہے اور اسے قومی ورثے کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے جناح ہاؤس بھی پاکستان کی قومی ملکیت ہے۔ پاکستان اس عمارت کو حاصل کرنے کے بعد اس میں اپنا قونصل خانہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہماری حکومتیں طویل عرصے سے اس امید پر ہیں کہ بھارت ایک نہ ایک دن جناح ہاؤس کو حکومت پاکستان کے حوالے کرکے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بھارت، پاکستان سے کیے گئے وعدوں کے ذریعے وقت حاصل کرتا رہا ہے اور اس مدت میں وہ اپنا مقصد حاصل کرتا رہا ہے، اس حوالے سے بھارت کی فائل ضخیم ہے۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے لیے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت سے لے کر آج تک بھارت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اس دوران انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کرکے ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کو شہید کیا اور ظلم و ستم کی طویل مثالیں قائم کیں اور بربریت کا یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ جب کبھی بھی بھارت پر قیام امن کے لیے عالمی دباؤ بڑھا، بھارت نے پاکستان سے دوستی بڑھانے کی باتیں کیں، لیکن اس دوران اس کا عمل پاکستان کے خلاف رہا اور اب بھی بھارت کا یہ دوغلا عمل جاری ہے۔

ایک طرف بھارت دوستی کی باتیں کرتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کرتا رہا ہے۔ بھارت نے ہر موڑ پر پاکستان اور قائداعظم کی شخصیت کی نفی کی ہے۔ کشمیر تو کشمیر بھارت پورے پاکستان کو اکھنڈ بھارت کا ایک حصہ تصور کرتا ہے، اور صرف عیاری اور مکاری کا سہارا لے کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے اور ہماری امن پسندی کو کمزوری سے تعبیر کرتا ہے لیکن جب اسے پاکستان کی طرف سے منہ توڑ جواب ملتا ہے تب وہ سیدھے راستے پر آجاتا ہے۔

ایک عرصے سے پاکستانی قوم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ جناح ہاؤس کو قومی ورثے میں لیا جائے لیکن ہم بڑی بڑی رقم خرچ کرکے اپنے مخالفین کو سزا دلوانے کے لیے سوئس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، لیکن قائداعظم کی ملکیت جو کہ پاکستان کی ملکیت ہے اسے حاصل کرنے کے لیے صرف ون ٹو ون مذاکرات کرتے ہیں اور اس ضمن میں قوم کو اعتماد میں بھی نہیں لیتے کہ کیا کیا باتیں ہوتی ہیں۔ بھارت نے جناح ہاؤس کے متعلق پاکستان سے کیا وعدہ کیا تھا؟ اور اب بھارتی حکومت کا کیا موقف ہے؟ اور اب انتہاپسند بھارتی جماعت شیوسینا کے اراکین جناح ہاؤس کو منہدم کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں اور ہم خاموش ہیں۔ ایسا کیوں؟

حکومت پاکستان قوم کو اعتماد میں لے کہ جناح ہاؤس کے متعلق کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ کیا حکومت پاکستان جناح ہاؤس کے متعلق اپنے مطالبے کو بھارت سے منواسکے گا؟ کیا حکومت پاکستان دینا واڈیا کو اپنے حق میں قائل کرسکا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جس کے تحت حکومت پاکستان اس امید کا اظہار کرتی رہتی ہے کہ بھارت جناح ہاؤس کے متعلق اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ یہ سب کچھ جاننا پاکستانی قوم کا حق ہے، کیوں کہ جناح ہاؤس پاکستان کی ملکیت ہے اور پاکستان کی ملکیت اصل میں قومی ملکیت ہے۔
Load Next Story