فاختہ کا احتجاج

بلاشبہ صوفی ازم یا خانقائی نظام ہماری مذہبی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے۔

jabbar01@gmail.com

ایک بزرگ اپنے مریدوں کے قافلے کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ قافلے نے درمیان میں ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں بہت سے درخت تھے۔ اگلی صبح کو بہت سے فاختائیں غول کی صورت میں وہاں آگئیں اور اس درخت کے اوپر منڈلانے لگیں جس کے نیچے بزرگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہ فاختائیں برابر کچھ بولیاں نکال رہی تھیں۔ جیسے کہ وہ کسی معاملے کے خلاف احتجاج کررہی ہوں۔

بزرگ نے جب فاختاؤں کے غول کو اس صورت حال میں دیکھا تو ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے اس احتجاج کا سبب پوچھا۔ ایک فاختہ جو غالباً ان کی لیڈر تھی اس نے جواب دیا کہ آپ کے مرید نے ہمارے ساتھ دھوکے کا معاملہ کیا ہے اور ہم اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

اس نے کہاکہ ہم میں سے ایک کبوتر یہاں درخت پر پتوں کے سایہ میں آرام کر رہا تھا کہ آپ کے ایک مرید نے اسے نشانہ بناکر مار گرایا اور پھر اس کو ذبح کر ڈالا۔ بزرگ نے اپنے مذکورہ مرید کو بلایا اور اس سے فاختہ کی اس شکایت کے بارے میں پوچھا۔ مرید نے جواب دیا کہ حضرت میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ ان جانوروں کو اﷲ تعالیٰ نے ہماری خوراک بنایا ہے۔ ان کو مارنا ہمارے لیے حلال ہے۔ پھر اگر میں نے ایک کبوتر کو مار کر ذبح کر ڈالا تو میں نے کون سا غلط کام کیا۔

بزرگ نے مرید کا یہ جواب فاختہ کی لیڈر تک پہنچایا اس نے کہا ہماری شکایت وہ نہیں ہے جو آپ اور آپ کے مرید سمجھ رہے ہیں۔ ہماری شکایت تو یہ ہے کہ آپ لوگوں نے صوفی کا مذہب اختیار کیا اور آپ نے صوفی کے روپ میں آکر یہاں پڑاؤ ڈالا۔ مگر عملاً آپ نے شکاری والا کام کیا۔ آپ کو صوفی کے بھیس میں دیکھ کر ہم مطمئن ہوگئے تھے کہ آپ کے وجود سے ہم کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر آپ شکاری کے روپ میں یہاں آتے تو ہم بھی اپنے بچاؤ کے لیے دفاعی حکمت عملی اختیار کرلیتے۔ جیسا کہ ہم دوسروں سے کرتے ہیں۔

یہ حکایت ایک عالم دین نے اپنی ایک کتاب میں درج کی ہے۔ جو نہ صرف صوفی ازم کے مفہوم کو واضح کرتی ہے بلکہ ہمیں دعوت فکر بھی دیتی ہے۔

بلاشبہ صوفی ازم یا خانقائی نظام ہماری مذہبی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس شعبے کا بنیادی فلسفہ کردار سازی کے ذریعے انسان کے باطنی زندگی کے پہلو کو روشن بناتا ہے۔ یعنی انسان کی عبادات اور معاملات میں اخلاص کیسے پیدا کیا جائے یہی صوفی ازم ہے۔ قبول بقول علامہ اقبالؒ:

خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ بد قسمتی سے اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں وجود میں آگئی ہیں جنھوں نے اس شعبے کو اپنے مال و زر بنانے کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ متواتر اپنی افادیت کھوتا جارہاہے۔

بلا مبالغہ یہ شعبہ ایسے کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے جس میں نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا یعنی بغیر سرمایہ کاری کے نفع ہی نفع وہ بھی صدا بہار ایسے کاروبار میں مافیا کا وجود میں آنا ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں غربت، جہالت، افلاس، بے روزگاری، عدل و انصاف کی عدم فراہمی، سماجی مسائل، بنیادی سہولتوں کا فقدان ایسے مسائل ہیں جس سے عوام الناس دو چار ہیں۔ حکومتی ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں ایسے معاشرے میں لگ اداروں سے مایوس نہیں ہوجاتے ہیں اور ایسے مسیحا کو تلاش کرتے ہیں جو کرامات یا کرشمہ کے ذریعے ان کے مسائل چند لمحوں میں فوری حل کردے۔ ایسے معاشرے میں صوفی ازم کے نام پر کالی بھیڑوں کو اپنا کھیل کھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ عناصر ایسے معاشرے میں تقدس کا نقاب پہن کر نہایت ظالم اور سفاک انسان دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں۔

سرگودھا کی نواحی بستی میں جو کچھ ہوا یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی یہ آخری واقعہ ہے۔ ایسا معاشرے میں ہوتا رہے گا۔ ہمارے معاشرے کے سادہ لوح عوام عقیدت کے اندھے پن میں عطیات اور نذرانے کے نام پر ان عناصر پر اپنا مال و زر نچھاور کرتے رہیںگے۔ بلکہ اپنی عزت اور آبرو کے ساتھ زندگی کی بازی بھی لگاتے رہیںگے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس مافیا کا خاتمہ ممکن ہے، جو لوگ اس کے خاتمے کے خواب میں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ ایک نامور دینی رہنما جو ایک سیاسی جماعت کے قائد بھی ہیں اور صوفی ازم کے علمبردار بھی۔ انھوں نے پاکستان کے سیاسی نظام میں موجود موروثیت کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ آواز بلند کی لیکن صوفی ازم کے اس شعبۂ زندگی میں جس میں سیرت و کردار کو بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ایسے نظر انداز کرکے گدی نشین کے لیے نسلی تعلق کو اولین حیثیت دی جائے گی یعنی سیاسی نظام کی یہ خرابی ہمارے خانقائی نظام میں داخل ہوگئی۔

محترم دینی رہنما اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ ایک اور سیاسی رہنما جو اپنی بیشتر تقاریر میں سرمایہ داروں، جنرلوں، جاگیرداروں، وڈیروں کی للکارتے رہے ہیں لیکن عوام کا مذہبی استحصال کرنے والے اس گروہ کو للکارنے کی جرأت نہ کرسکے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا جانا چاہیے۔ میرا علم بہت محدود ہے اس لیے اس پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار اہل علم و دانش بالخصوص علما ہی کرسکتے ہیں میری ناقص رائے میں یہ ایک حساس معاملہ ہے حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات ضرور کرنے چاہیے جس سے یہ شعبہ جو تزکیہ نفس اور کردار سازی میں اہم کردار رہا ہے اس شعبہ زندگی سے اس داخل کالی بھیڑوں کا خاتمہ ہوسکے۔
Load Next Story