باریاں لینے کا کھیل
کون جانے یہ کس کے حق میں ہوں گے اور کس کے خلاف۔
سنا تھا حکومت پیپلز پارٹی کو اس کے اعلان کردہ لانگ مارچ سے باز رکھنے کے لیے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے چاروں مطالبات ماننے جارہی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے قریبی حلقوں کے حوالے سے خبر گرم تھی کہ حکومت، پیپلز پارٹی کو سڑکوں پر نکل کر غیر ضروری طور پر عمران خان کی تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا سہارا بننے اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا باعث بننے سے روکنے کے لیے اس کے پیش کردہ مطالبات کا مثبت جواب دینے کا ارادہ رکھتی ہے، جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق قرارداد پر عملدرآمد، قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو، پی پی پی کے ڈرافٹ کردہ پانامہ بل کی منظوری اور کل وقتی وزیر خارجہ کے بلا تاخیر تقرر کے مطالبات شامل ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق حکمراں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تعلقات سدھارنے اور اس کے تمام مطالبات مرحلہ وار تسلیم کرنے کا طریقہ تلاش کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے کیے جارہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سی پیک سے متعلق قرارداد پر فوری طور پر عملدرآمد کرنے اور بلاتاخیر وزیر خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا جب کہ وزیراعظم نواز شریف پی پی پی کا پانامہ بل منظور کیے جانے کے بھی خلاف نہیں تھے اور وہ اب بھی بلا امتیاز احتساب کے لیے تیار ہیں۔
بلاول کہہ چکے ہیں کہ پانامہ بل کا منظور ہونا شریفوں کے احتساب کی واحد ضمانت ہے جب کہ موجودہ قوانین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور چونکہ پی پی پی کے نوجوان سربراہ اپنی پارٹی کو چاروں صوبوں میں نئے سرے سے منظم کر رہے ہیں اور حکومت کو اپنے چاروں مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کے لیے وہ دوسری پارٹیوں کی بھی حمایت چاہتے ہیں۔ پی پی پی کے ایک رہنما فیصل کریم کنڈی نے پچھلے دنوں لاہور میں چیئرمین بلاول سے ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ابھی تک مطالبات ماننے یا نہ ماننے کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا اور پارٹی اس کے قطعی جواب کی منتظر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی تک صرف اشارے ملے ہیں، مگر حکومت کو اشارے دینے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں صاف صاف بتانا چاہیے کہ وہ ہمارے مطالبات ماننے جا رہی ہے کہ نہیں۔ اگر مہلت ختم ہونے تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو پی پی پی کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو مہلت گزرنے سے پہلے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
آپ کو یاد ہوگا پچھلے ہفتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ چیئرمین پی پی پی کے چار میں سے تین مطالبات جلد پورے کردیے جائیں گے، جب کہ پی پی پی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کے پیش کردہ چاروں مطالبات در اصل حکمرانوں کے پاس خود کو بچانے کا موقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبات پی پی پی کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے ہیں۔ اگر وہ ہمارے مطالبات نہیں مانتے تو انھیں ہمارے احتجاج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور اگر وہ یہ مطالبات مان لیتے ہیں تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ہمارے مطالبات ماننے کے لیے تیار ہے، ابھی تک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری یا سید خورشید شاہ میں سے کسی سے بھی با قاعدہ کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔
سینیٹر موصوف کا کہنا تھا کہ حکومت صرف اشارے اور عندیے دیے جارہی ہے جب کہ ہم ٹھوس فیصلہ چاہتے ہیں، اگر وہ ہمارے تین مطالبات بھی مان لیتے ہیں تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، ہم چاہیں گے کہ ملک کے مفاد میں چاروں مطالبات تسلیم کیے جائیں اور امید کرتے ہیں کہ حکومت ایسا ہی کرکے دانشمندی کا مظاہرہ کرے گی۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ معمول کے رابطے جاری ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ اگر لانگ مارچ ہوتا ہے تو اس کی ذمے دار صرف اور صرف حکومت ہوگی کیونکہ وہ پی پی پی کی طرف سے مناسب وقت نہ دیے جانے کا گلہ نہیں کرسکتی۔
تو صاحبو بظاہر نظر یہ آ رہا ہے کہ پھر باریاں لینے کا کھیل شروع ہونے والا ہے اور کچھ ایسے انتظامات کیے جانے والے ہیں کہ 2018ء میں جونہی موجودہ حکمرانوں کی باری پوری ہوگی، دوسری پارٹی اپنی باری لینے کے لیے تیار کھڑی ہوگی جب کہ عمران خان کبھی باری لینے والوں کی طرف دیکھیں گے تو کبھی باری دینے والوں کی طرف، اور بار بار دائیں بائیں مڑ کر دیکھنے سے ان کے لیے اپنی گردن ایک جگہ روکنا مشکل ہوجائے گا۔
سیاسیات میرا مضمون تو کبھی نہیں رہا لیکن اس کے بارے میں جو تھوڑا بہت غیر نصابی مشاہداتی علم رکھتا ہوں اس کے مطابق سیاستدانوں کی کامیابی اور ناکامی کا ان کے رویوں میں لچک سے گہرا تعلق ہوتا ہے، جس سیاستدان کے پاس جتنی زیادہ لچک ہوتی ہے وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے خان صاحب کو لچک سے الرجی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ صرف انھی کی بات سنی اور مانی جائے، یہی وجہ ہے کہ احتجاج اور دھرنے ان کی پہچان بن کر رہ گئے ہیں، کہ حاصل واصل تو کچھ ہونا نہیں۔
سندھ کے نامور کمیونسٹ رہنما اور دانشور، کامریڈ سوبھوگیان چندانی کی ایک کچہری میں کہی ہوئی بات مجھے آج بھی یاد ہے کہ اگر بھٹو کے پاس لچک ہوتی تو وہ کبھی پھانسی نہ چڑھتے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے مشکل حالات کے باوجود دو بار وزیراعظم منتخب ہونے کو بھی اسی لچک کا مرہون منت قرار دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر بھٹو کو اپنی بیٹی کی اس خوبی کا پہلے سے ادراک ہوتا تو وہ کب کے سیاست کو خیرباد کہہ کے لاڑکانہ کے المرتضی میں وڈیروں کی طرح محفلیں جما رہے ہوتے اور بیٹی کو میدان سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے دیکھ کر خوش ہوتے۔
ان کا تجزیہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھئے اور اپنی یادداشت پر زور دیجیے، آپ کو ایک جانب وہ بحیثیت لیڈر آف دی اپوزیشن قومی اسمبلی میں ''گو بابا گو'' کے نعروں کی گونج میں احتجاج کرتی تو دوسری طرف انھی غلام اسحاق خان کے ساتھ بیٹھی مذاکرات کرتی اور بعد ازاں ان سے بطور وزیر اعظم حلف لیتی نظر آئیں گی۔ سیاست میں لچک اسی رویہ کا نام ہے۔
میاں نواز شریف بھی اگر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سارے مطالبات مان لیتے ہیں تو یہ ان کی جانب سے گویا اسی لچک کا مظاہرہ ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے عوض وہ حاصل کیا کرتے ہیں، یا تو بلاول کو باری دے کر انھیں اپنا گرویدہ بنانے اور ان کی پیپلز پارٹی سے میثاق جمہوریت کی تجدید کرانے کی کوشش کریں گے یا پھر 2018ء میں چوتھی باری لینے کو یقینی بنائیں گے، دونوں صورتوں میں نتائج کا انحصار وقت اور حالات پر ہوگا۔
کون جانے یہ کس کے حق میں ہوں گے اور کس کے خلاف۔ آثار بتاتے ہیں کہ بھتیجا بازی لے جائے گا اور چچا دیکھتا رہ جائے گا، اس وقت کم ازکم خیبر پختونخوا میں تو انھیں پروٹوکول ملتا ہے، مجھے لگتا ہے اگر انھوں نے اب تک گزرے ہوئے وقت سے کوئی سبق نہ سیکھا اور اپنے رویہ میں تبدیلی نہ لائے تو شاید وہاں بھی انھیں ہماری آپ کی طرح لائن میں لگنا پڑے۔ دیکھتے ہیں خان صاحب اپنے لیے کیا پسند کرتے ہیں۔ باریوں کا کھیل صرف لینے دینے کیلیے نہیں، دیکھنے کیلیے بھی تو ہوتا ہے۔