آج ہم کل تمہاری باری ہے
پورے شہر میں بے ہنگم، بغیر منصوبہ بندی کے قانونی اور غیر قانونی عمارتوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔
ناسا سے تعلق رکھنے والے گوڈارڈ انسٹیٹیوٹ برائے خلائی تحقیق کے مطابق 137 برسوں میں فروری 2017ء تاریخ کا دوسرا گرم ترین مہینہ تھا۔ ناسا نے دنیا بھر کے 630 موسمیاتی اسٹیشنوں سے حاصل کیے جانے والے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ نتائج مرتب کیے ہیں۔
واضح رہے کہ فروری 2016ء تاحال تاریخ کا سب سے گرم ترین فروری تھا۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق تین دہائیوں میں آنے والے مارچ کے مہینوں میں رواں سال مارچ کا مہینہ یورپ اور خاص طور پر مشرقی یورپ گرم ترین مہینہ ثابت ہوا۔ سرد علاقہ ہونے کے حوالے سے مشہور اس خطے میں رواں سال مارچ کے مہینے کا درجہ حرارت پچھلی تین دہائیوں میں سب سے زیادہ رہا۔ بات صرف یورپ تک محدود نہیں بلکہ امریکا کا کچھ حصہ اور مشرقی انٹارٹیکا پر بھی بدلتے موسموں کے شدید اثرات مرتب ہورہے ہیں جہاں برف جمنے کی اوسط مقدار کا حجم بھی کم ترین سطح پر رہا۔
23 مارچ کو موسمیات کے عالمی دن پر جاری کی جانے والی عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے کرۂ ارض کو ایک نامعلوم خطے میں تبدیل کردیا ہے۔ ہم کو بدلتے ہوئے موسموں کا کوئی ارداک یا فہم نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری زمین واقعی ایک نامعلوم زمین بن چکی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ شدید موسم اور بدلتے ہوئے موسمی حالات کا سلسلہ 2017ء میں بھی جاری رہے گا۔ 2015ء کے وسط میں عالمی درحہ حرارت اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا جس کا دورانیہ مارچ 2016ء تک رہنے کے بعد جون میں نارمل ہونا شروع ہوا تھا۔ مارچ 2016ء میں درجہ حرارت 0.10 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا تھا جب کہ فروری اور مارچ 2017ء میں درجہ حرارت 0.69 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ خط استوا کے نزدیکی ممالک جن میں ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں رواں سال شدید ترین گرمی کا شکار رہیں گے۔
پاکستان میں شدید موسم اور بدلتے ہوئے موسمی حالات کے واضح مظاہر 2010ء سے مسلسل دیکھے جار ہے ہیں اور اس کے نتیجے میں سنگین جانی، مالی اور سماجی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ پورے سال ملک کا ہر حصہ کسی نہ کسی موسمیاتی آفات کے زیر اثر رہتا ہے۔ شدید موسمی حالات کے نتیجے میں ہونے والے جانی، مالی نقصانات کا شکار ملک کا عام شہری بن رہا ہے طبقہ اشرافیہ ابھی ان نقصانات کے دائرے میں نہیں آیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا رویہ اس ضمن میں بے حسی کا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل پر آواز اٹھانے والی سول سوسائٹی اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی 2015ء میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سنگین نتائج بھگت چکا ہے جب گرمی کی شدید لہر نے ہزاروں افراد کی قیمتی جانیں لیں۔ شہر کے چند بڑے اسپتالوں سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار جاری کرکے اس کے اثرات کو کم کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی لیکن ایدھی کے رضا کار اصل کہانی سنانے کے لیے ابھی موجود ہیں چونکہ وہ خون خاک نشیناں تھا اس لیے قابل توجہ سمجھا ہی نہیں جانا تھا۔
پاکستان کے معروف سائنسدان اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کا تجزیہ ہے کہ اپریل کے مقابلے میں مئی اور جون زیادہ گرم رہیں گے، وہ کہتے ہیں کہ موسم گرما کے آغاز میں ہی ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری کا ہندسہ عبور کرچکا ہے، مئی اور جون پاکستان کی آب و ہوا کے خشک اور گرم ترین مہینے ہیں اس دوران میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے تجاوز کرجاتا ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی ہیٹ ویو کے امکانات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق اگر 5 دنوں سے زیادہ درجہ حرارت بڑھا رہے تو گرمی کی شدید لہر یا ہیٹ ویو کہلاتی ہے۔ واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق اگرآسمان صاف اور موسم بھی خشک رہے اور ہوا کی رفتار بھی کم ہو تو اس صورت میں آنے والی گرمی کی لہر کو عالمی پیمانوں کے مطابق پہلے درجہ میں رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں شدید جانی نقصان کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ 2015ء میں کراچی میں یہی کچھ ہوا۔
ناسا، عالمی موسمیاتی تنظیم اور پاکستان کے محکمہ موسمیات کی پیشگی اطلاع اپنی جگہ، ہم فروری سے تاحال بدلتے موسموں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے واضح مظاہر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس سے متاثر بھی ہورہے ہیں، گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے، تیز آندھی کے جھکڑ چلے اور بے موسم کی برفباری سمیت تمام چیزیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن ہم بدلتے موسموں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا تیاری کر رہے ہیں، یہ ایک پرانا مگر ہر بار نیا سوال ہے۔ اگر پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کے علاوہ کراچی کی بات کریں جہاں آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں اضافے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق صوبہ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں شدید گرمی اب ہر سال کا مسئلہ بن گیا ہے جب کہ سردی کا دورانیہ اس علاقے میں انتہائی کم ہوچکا ہے۔ ہم نے ہیٹ ویو سے بچاؤ کی تیاری کے لیے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے یہ کیا کہ کچھ دن پہلے محکمہ صحت کی جانب سے شہر کے 10 بڑے اسپتالوں کو ایک الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ گرمی کی شدید لہر سے بچاؤ کے لیے انتظامات مکمل کرلیں کیونکہ اس سال بھی 2015ء کی طرح گرمی کی شدید لہر متوقع ہے۔ 2015ء کی ہیٹ ویو کے بعد لگائے گئے 5 لاکھ پودوں کی تلاش تاحال جاری ہے۔ مئی کے آخری ہفتے میں رمضان المبارک کا آغاز ہوگا جو جون کے آخر تک جاری رہیں گے۔
پائیدار شجر کاری کا تصور ہمارے پاس سرے سے موجود ہی نہیں ہے اس لیے جہاں ایک طرف حکومتی ادارے ہزاروں کی تعداد میں پودے لگانے کی تصاویر میڈیا کو جاری کرکے عوام کا پیسہ برباد کرتے ہیں تو دوسری جانب مختلف تنظیمیں اور افراد پودے لگانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک پودے کو سایہ دار درخت بننے میں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
ایک طرف نئی شجرکاری کے حوالے سے یہ تشویش ناک صورتحال ہے تو دوسری جانب اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے باوجود 10 سے 100 سال پرانے اور سایہ دار درختوں کی کٹائی کا عمل انتہائی ڈھٹائی سے مسلسل جاری ہے۔ آج سندھ کے دارالحکومت کراچی کے 80 فیصد سے زائد علاقے سے سایہ دار درختوں کا مکمل صفایا ہوچکا ہے۔ ماحولیات کی بہتری کے نام پر کروڑوں روپے کی فنڈنگ حاصل کرنے والی تنظیموں سمیت ماحولیات کے خود ساختہ چیمپئن سوشل میڈیا پر اپنی تشویش کا اظہار ضرور کررہے ہیں، رہی عوام کو ماحولیاتی آگہی پہنچانے کے لیے کوئی کام نہیں ہورہا۔
پورے شہر میں بے ہنگم، بغیر منصوبہ بندی کے قانونی اور غیر قانونی عمارتوں کا جال بچھایا جارہا ہے جس نے صاف ہوا کے تمام راستے بند کردیے ہیں۔ شہری حکومت، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ماحولیاتی ایجنسی اس عمل پر مکمل خاموش ہیں، ہم المیوں کے بعد کچھ دن تک رونے والی قوم بن چکے ہیں۔ اب عمل کا وقت آچکا ہے سب کو یہ یاد رکھنا ہوگا بدلتے موسموں کی شدت کی زد سے کوئی محفوظ نہیں، آج ہم تو کل تمہاری باری بھی آنے والی ہے۔