کلبھوشن یادیو کی پھانسی اور ہماری سفارتکاری
ملکی میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا میں ایسی آگ لگی ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
LOS ANGELES:
2015 میں ''برج آف سپائیز''(Bridge of Spies) یعنی جاسوسوں والا پل نامی ہالی وڈ مووی ریلیز ہوئی جو 60 کے دہائی میں امریکا اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ کے واقعات پرمبنی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سی آئی اے نیویارک میں ایک نہایت پروفیشنل روسی جاسوس کو گرفتار کرتی ہے جو یہ تو تسلیم کرتا ہے کہ وہ جاسوس ہے لیکن اس کے آگے کچھ بھی نہیں بتاتا۔
فلم کا مرکزی کردار ٹام ہینک نامی مشہور اداکار نے ادا کیا ہے، وہ اس جاسوس کا وکیل بن کر پہلے اسے موت کی سزا سے بچاتا ہے اور پھر روس کے ساتھ ایک ڈیل کرکے ان کی قید میں ایک امریکی پائلٹ کی رہائی کے بدلے اس روسی جاسوس کو رہا کروا لاتا ہے۔ فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے پوری امریکی عوام اس روسی جاسوس کے خلاف ہوتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اسے سزا دی جائے۔
ایک موقع پر آرگومنٹ کرتے ہوئے ٹام ہینکس امریکی حکام سے کہتا ہے کہ روسی جاسوس ایک پروفیشنل شخص ہے جو اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور یہ اسے عزت دینے کیلیے کافی ہے۔ اگر آپ کا کوئی جاسوس روس کے ہاتھ آجاتا ہے تو کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ اس کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جائے؟ اب آجائیں اصل واقعے کی طرف جو بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو)کی شکل میں پاکستان میں موجود ہے۔
کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے تک تو فلم ''برج آف سپائز'' میں بتائی گئی روایت کے مطابق کلبھوشن کو ایک ''جاسوس'' کا پروٹوکول دیا جارہا تھا ، اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جا رہا تھا لیکن ایک دم سے یہ کیا ہوگیا ۔ کچھ لوگ اسے حال ہی میں نیپال میں اغواء ہونے والے پاکستان کے ریٹائرڈ فوجی افسر کی بازیابی کے لیے پیشرفت سمجھ رہے ہیں جب کہ کچھ لوگوں کہتے ہیں کہ جس طرح بھارت نے اجمل قصاب کو پھانسی دینے کے بعد اعلان کیا تھا بالکل اسی طرح پاکستان کو بھی کلبھوشن یادو کو پھانسی پرچڑھا کر اعلان کرنا چاہیے تھا۔
ہمارے حکمرانوں کے چونکہ بھارت کے ساتھ تعلقات بھی ہیں تو اس لیے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس سطح پر چلے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ خیر کلبھوشن کو اب پھانسی کا اعلان ہو چکا، ملکی میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا میں ایسی آگ لگی ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی، انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادو کو بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے ، پھر کیا ہوگا، پاکستان کو وقتی طور پر پھانسی کو موخر کرنا پڑے گی اور سارے جگ میں پتا چل جائے گا کہ پاکستان اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے کیا بھارت ، پاکستان کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری کے منصوبوں کو ترک کردے گا؟ یا اس پھانسی سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کی امید پیدا ہو سکے گی؟ان سوالوں کا جواب اپنی جگہ مگر میرے خیال میں جوش و خروش کے عالم میں کلبھوشن کے جرائم سے قطع نظر، اس سزا پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ، اس کے سفارتی اور سیاسی نتائج اور اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے لیکن بھارت کا دعویٰ ہے کہ یادیو بحریہ کا سابقہ افسر ہے اور وہ اس وقت ایران یا پاکستان میں کیا کررہا تھا ، اس سے بھارتی حکومت یا 'را' کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کلبھوشن یادیو نے البتہ ایک ریکارڈ شدہ انٹرویو میں ان سب الزامات کا اعتراف کیا تھا۔
اس کے باوجود دونوں ملک کبھی اس بات پر متفق نہیں ہوں گے کہ اصل سچ کیا ہے۔ ایسے معاملات میں سچ ہمیشہ قومی مفادات کی روشنی میں متعین ہوتا ہے۔ کوئی ملک کبھی یہ اقرار نہیں کرتا کہ وہ دوسرے کی جاسوسی کرتا ہے لیکن ملکوں کے درمیان اس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے معاملہ میں جاسوسی کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کو منظم کرنے کے الزامات معاملہ کو سنگین اور تشویشناک بناتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور معروضی حالات کی صورت حال میں یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہو نا چاہیے کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرکے بھارت کا جاسوسی اور تخریب کاری کا جو نیٹ ورک توڑا تھا ، اس دوران اسے دوبارہ استوار کرلیا گیا ہوگا۔ اس لیے ایک کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے یہ گمان کرلینا محال ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل ہو جائیں گے یا پاکستان کی سلامتی کا تحفظ کرلیا جائے گا۔ اس مقصد کیلیے دونوں ملکوں کو مذاکرات کرنے ، ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کا تعلق استوار کرنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تصادم اور دشمنی دونوں ملکوں کے مفادات کے خلاف ہے۔
میں اپنے پچھلے کالموں میں بھی کہتا آیا ہوں کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسایہ ملک ہیں۔ انھیں بہر صورت ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ ہمسایے کبھی نہیں بدلتے۔ دونوں ملکوں میں سے جس ملک میں بھی یہ تصور راسخ کیا جاتا ہے کہ دوسرے کو تباہ کرکے یا زیر کرکے وہ سرفراز ہو سکتا ہے، اسے ختم کرنے اور اس سچائی کو مان لینے کی ضرورت ہے کہ بر صغیر خواہ کن ہی حالات میں معرض وجود میں آیا تھا مگر اب چار پانچ نسلوں کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں ہی اٹل حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی خود مختار حیثیت برقرار رہے گی۔ اس سچائی کو قبول کیے بغیر مسائل حل کرنے کے رویہ کو عام نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرکے بھارت کے پاکستاب دشمن ارادوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اصل مسئلہ ہماری سفارتکاری کا ہے جس کے ذریعے دنیا کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ بھارت ایک طرف پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے لیکن دوسری طرف خود اس کے خلاف تشدد اور تخریب کاری منظم کرنے کے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی ایک جاسوس پاکستان سے گرفتار کیے جاچکے ہیں جن میں کشمیر سنگھ، سربجیت سنگھ، نریندرا کوشک وغیرہ نمایاں ہے، ہمیں سفارتکاری کے ذریعے پوری دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح بھارت پاکستان میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے تخریب کاری کرا رہا ہے اور اگر ہم مضبوط سفارتکاری میں کامیاب نہ ہوئے تو ہم کسی صورت بھی کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کو سزائیں دینے میں کامیاب نہیں ہوں گے!!!