ڈیل اور تحفظات کی کرشمہ کاریاں
دنیا میں ایسی کوئی دیگ نہیں جس کا کفگیر نہ ہو۔
WASHINGTON:
آخر کار وہ بیان آہی گیا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔ ہم بھی حیران بلکہ پریشان تھے کہ عرصہ ہوا ہے ''ڈیل اور تحفظات'' کی فیکٹری سے کوئی نئی پراڈکٹ لانچ ہی نہیں ہو رہی ہے۔ اگلے زمانوں میں جب یہ فیکٹری تازہ تازہ چالو ہوئی تھی یعنی پرانی انتظامیہ کی جگہ نئے لوگوں نے نئے جوش و خروش کے ساتھ پرانی خاندانی فیکٹری کو قبضے میں لے لیا تھا.
دراصل پرانی انتظامیہ کے لوگ اگلے وقتوں کے سادہ مزاج اور کاروبار کے راز و رموز سے قطعی نابلد تھے اس لیے فیکٹری نقصان میں چل رہی تھی لیکن ان کے پیش نظر تجارت اور منافع نہیں بلکہ خلق خدا کے فلاح و بہبود کا مقصد تھا، لیکن موروثی فیکٹری جب نئے لوگوں کے زیر انتظام آئی تو انھوں نے وسیع پیمانے پر اوور ہالنگ کی' بے کار مشینری دور پھینک دی' نئے پرزے گراریاں لگائیں اور فیکٹری کو جدید خطوط اور ٹیکنالوجی کے ساتھ چالو کر دیا، پہلے تو اس میں صرف ''ڈیل'' تیار ہوتی تھی چنانچہ انھوں نے خسارہ بخش مال بنانا بند کر دیا اور ایک خوب صورت ''ڈیل'' کے ساتھ نئی پروڈکشنزکا آغاز کر دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری ایک مقامی کارخانے کے بجائے پہلے ملک گیر ہوئی اور پھر ''خارجی'' مارکیٹ پر بھی چھا گئی، جیسا کہ ہم نے بتایا پہلے اس فیکٹری میں صرف ''ڈیل'' تیار ہوتی تھی، یہ ایک ایسی پراڈکٹ ہے کہ اس پر خرچہ تو کچھ بھی نہیں آتا لیکن فوائد بے شمار ہیں ۔ تاریخ میں جس سب سے پہلی ڈیل کا سراغ ملتا ہے' تفصیل اس ڈیل کی یہ تھی کہ
میں ترا قاضی بگویم تو مرا ملا بگو
یہ ڈیل زیادہ پائیدار تو ثابت نہیں ہوئی کیونکہ بے چارا قاضی تو ہروقت منتیں کرتا رہتا تھا لیکن ملا موقع بہ موقع تو استعمال کرتے ہی ہیں' زیادہ تر بے موقع بھی تحفظات کا استعمال جاری رکھتے ہیں، ابھی ایک صاحب کا تازہ ترین بیان آیا ہے اس میں یہ دونوں پراڈکٹس موجود ہیں۔ فرماتے ہیں، مرکزی حکومت کے ساتھ ہماری ''ڈیل'' ہو چکی ہے کہ آئنہ پانچ سال تک فاٹا کا انضمام نہیں ہو گا اور نیشنل ایکشن پلان پر ہمیں ''تحفظات'' ہیں۔ اسے کہتے ہیں ''فن'' کہ کس خوب صورتی سے دونوں پراڈکٹس کا استعمال فرما دیا، یقین جانئے کبھی کبھی تو ہمیں شبہ سا ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ سیاستدان صاحب اس زمانے کے امیر خسرو تو نہیں ہیں۔
امیر خسرو کا وہ قصہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا نا کہ وہ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں کچھ شریر پنہاری لڑکیوں سے سامنا ہو گیا۔ لڑکیوں نے امیر خسرو کو زچ کرنے کی ٹھان لی اور بولیں کہ ایسا شعر کہئے کہ جس میں ''کھیر'' آئے، دوسری نے کہا اور ''چرخہ'' بھی ہو، تیسری نے کہا اس میں ''کتا'' بھی ہونا چاہیے، چوتھی نے کہا کہ ''ڈھول'' بھی ہونا چاہیے اور مطالبہ یہ تھا کہ یہ چاروں ہی چیزیں ایک ہی شعر میں آئیں ۔ امیر خسرو نے فی البدیہہ کہا
''کھیر'' پکائی جتن سے ''چرخا'' دیا جلا
''کتا'' ایا کھا گیا تو بیٹھی ''ڈھول'' بجا
تحفظات ہر کوئی بناتا ہے یا رکھتا ہے لیکن ہمارے صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے تحفظات واہ جی واہ ۔
بہرحال ''ڈیل'' کی صنعت کافی پھل پھول گئی ہے اور سیاست میں تو ڈیل ہی ڈیل چلنے لگی ہے، حتیٰ کہ قطعی مختلف اور متضاد قسم کی چیزوں میں بھی ڈیل ہونے لگی، ایسی ہی ایک ''ڈیل'' پلیٹ اور چمچے میں بھی بتائی جاتی ہے جو پھر ترقی پا کر دیگ اور کفگیر کی باہمی ڈیل میں بدل گئی اور یہ اتنی مضبوط ڈیل ہے کہ نہ جانے کتنے زمانوں سے شروع ہوئی ہے اور ابھی تک چل رہی ہے بلکہ مستقل بنیادوں پر قائم و دائم ہے.
دنیا میں ایسی کوئی دیگ نہیں جس کا کفگیر نہ ہو اور نہ ایسا کوئی کفگیر ہے جو دیگ میں غوطہ زن نہ ہو، ڈیلنگ کی اس دنیا میں سب سے کمزور اور ناکارہ ڈیل وہ ہے جو چار پانچ سال میں لیڈروں اور عوام کے درمیان ہوتی ہے، یہ بالکل کوے اور فاختہ کی ڈیل ہوتی ہے کہ سارے دکھ تو بی فاختہ سہتی ہے اور انڈے کوے ہڑپ کر جاتے ہیں ، خیر تو ایک صاحب نے موروثی فیکٹری کو اپ ڈیٹ کر کے نہ صرف اعلیٰ درجے کی ڈیلیں متعارف کرائی ہیں بلکہ ساتھ ہی ایک کمال کی دوسری پراڈکٹ بھی لانچ کی ہے جسے ''تحفظات'' کہتے ہیں۔
کمال کی پراڈکٹ ہے، اتنی خوبیاں کبھی امرت دھارے میں بھی نہیں تھیں جتنی ''تحفظات'' میں پائی جاتی ہیں۔ یہ پراڈکٹ ان صاحب کو اتنی پسند ہیں کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی ساتھ زیر بحث بیان ہیں، یہ نہ دیکھئے کہ یہ ملک موجودہ مرکزی حکومت کی جاگیر ہے یا قبائل حضرت صاحب کی بھیڑوں کا ریوڑ ہیں کہ ان سے پوچھے بغیر بتائے بغیر اسلام آباد کے ''صوفوں'' پر ڈیلیں ہو رہی ہیں، قبائل کو حکومت نے اور ان سیاستدان صاحب نے آخر کس سن میں کس نرخ پر مکمل ملکیتی حقوق بمعہ شاملات کے خریدا تھا ، کیا قبائل ابھی تک بھیڑ بکریاں ہیں کہ اسلام آباد کے سوداگر چادر کے دامن تلے انگلیوں سے ان کے ذبح کرنے یا نہ کرنے کا سودا کریں.
یہ اعلان کب ہوا ہے کہ پاکستان اور اس کی سرزمین کھوپڑیوں سمیت کسی کی ذاتی جاگیر ہو گئی ہے، لیکن ان باتوں کوایک طرف کر دیجیے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے ملکوں میں۔ لیڈروں میں اور اندھیرے کی ڈیلوں میں صرف یہ دیکھئے کہ حضرت صاحب کس اعتماد اور فخر کے ساتھ اپنی پراڈکٹ ڈیل اور تحفظات لانچ کر رہے ہیں' یہ اعتماد کسی میں ایسے ہی نہیں آتا' اس کے پیچھے وہ عظیم الشان کمال اور ہنر ہے جو انھیں مستقل اقتدار میں رکھے ہوئے ہے.
غالباً پچیس تیس سال تو ہو ہی چکے ہیں کہ چاہے کوئی آئے یا جائے آندھیاں چلیں طوفان آئیں، مشرف آئے نواز شریف آئے بے نظیر جائے زرداری آئے یہ صاحب مستقل اپنی مسند اقتدار پر براجمان ہیں بقول رحمان بابا ایک پیڑ کی طرح اپنے مقام پر مسقیم کھڑے ہیں' چاہے خزان آئے یا بہار ، اسے کہتے ہیں ڈیل اور تحفظات کی کرشمہ سازیاں۔