عوام کی اے سی آر
ہر ادارے کے سربراہ کا اپنا امیج ہوتا ہے اور اس کے امیج اور شہرت کے مطابق ہر طرف پیغام چلا جاتا ہے۔
لاہور:
کسی دور میں پنجاب میں پولیس ا فسروں کی تعیناتی میں وزیر اعلیٰ شہبازشریف صاحبIntegrity اور effectiveness کو سب سے زیادہ اہمیّت دیتے تھے مگراب فیصلہ سازی میں کچھ اور بھی شراکت دار بن چکے ہیں۔ لگتاہے نئے فیصلہ سازوں نے ترجیحات تبدیل کرادی ہیں اورPolitical Expediency کو ترجیحِ اوّل بنوا دیا ہے۔
اُدھر اُن کے دوست وزیر داخلہ جو خودایماندار ہیں مگر اپنے ضلعے میں شائد اس لیے کوئی ایماندار پولیس چیف نہیں لگنے دیتے کہ کہیں ان کے ووٹروں کی عادتیں خراب نہ ہوجائیں اور انھیں انصاف کی بدہضمی نہ ہو جائے۔ ریٹائر ہونے والے آئی جی مشتاق سکھیرا بھی مشکوک افسروں کے ہی مشتاق نکلے اورا ُن کی پشت پناہی کر تے رہے۔ وہ جی سی اور لاء کالج میں مجھ سے ایک سال جونئیر تھے، ہم ایک دوسرے کو عرصۂ دراز سے جانتے ہیں وہ دیہاتی پس منظر کی وجہ سے پولیسنگ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بلوچستان میں انھوں نے اپنی کارکردگی دکھائی اسلیے مجھے حسنِ ظن تھا کہ وہ پنجاب میں کچھ تبدیلی لائیں گے مگر بد قسمتی سے وہ وردی کے سوا کچھ بھی تبدیل نہ کر سکے۔
ہر ادارے کے سربراہ کا اپنا امیج ہوتا ہے اور اس کے امیج اور شہرت کے مطابق ہر طرف پیغام چلا جاتا ہے۔ تین سالوں میں مشتاق سکھیرا کا ایسا تاثر قائم نہ ہو سکا جس سے فورس یہ سمجھتی کہ انکا کمانڈر کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہے۔ میں نے پنجاب میں تعینّات بیسیوں پولیس افسروں سے پوچھا کہ'' کیا تین سالوں میں صوبے کی پولیس میں کرپشن کم ہوئی ہے؟'' جواب ملا بالکل نہیں۔
مختلف علاقوں کے لوگ ملتے رہتے ہیں اُن سے پوچھتا ہوں ''کیا رشوت اور سفارش کے بغیر عام آدمی کو ریلیف ملتا رہا ہے؟'' تو ہر طرف سے جواب نفی میں ا ٓتا ہے۔ پولیس افسروں سے پوچھا ''کیا ضلعوں کو ملنے والے فنڈز میں کی جانے والی فنڈ خوری میں کمی ہوئی ہے ؟'' جواب پھرنفی میں تھا۔
بہت سے سینئر افسروں سے پوچھا کہ تفتیشوں کا ناقص معیار پولیس کا بہت کمزور پہلو ہے اس پر تو تو ّجہ دی گئی ہوگی اور ہر ضلعے اور ہر ڈویژن میں ٹریننگ کروائی گئی ہو گی!پھر ناں ہی سننے کو ملی! غیر قانونی جلوس یا ہجوم سے نپٹنا (Mob / Crowd control) پولیس کاسب سے کمزور ایریا ہے جس میں پولیس کی تربیت نہ ہونے کے برابرہے وہ ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے اکثر خود ہجوم بن جاتی ہے، اور مجمعے کو بڑے بھونڈے اور نان پروفیشنل طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے اسمیں اکثر ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں، جس طرح ماڈل ٹاؤن یا کئی اور جگہوں پر ہوئیں۔
بعض اوقات پولیس والے ہجوم سے خوفزدہ ہو کر بھیڑ بکریوں کی طرح جلوس کے آگے آگے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور عوام کے سامنے مذاق بنتے ہیں اسی لیے میں پولیس افسروں سے پوچھتا رہا کہ '' Crowd Control کے سلسلے میں پولیس کو اعلیٰ پائے کی ٹریننگ دیکر ان میں Professionalism لانے کی مخلصانہ کوشش ہوئی ؟'' جواب نفی میں ملا۔ آخر مایوس ہو کر میں نے پوچھا عوام کو بہت زیادہ شکایات تھانہ اسٹاف سے ہیں کیا تھانوں میں تعینات پولیس اسٹاف کی سوچ اور طرز ِ عمل بدلنے کیلیے کوششیں ہوئیں؟
اس کا خودآئی جی نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مضحکہ خیز جواب دیا تھاکہ ''ہم نے آئی ٹی سیلوشن ڈھونڈا ہے اورتھانوں کے فرنٹ ڈیسک پر پڑھے لکھے سو یلین بٹھا دیے ہیں'' اس جواب کا ہر پڑھے لکھے شخص نے تمسخر اُڑایا کہ لو گ تھانے کے باوردی اسٹاف سے نالاں ہیں اور آپ نے اس کا حل یہ نکالا کہ تھانے کے باوردی عملے کو ہٹا یا چھپا دیا ہے اور ایک کمرے میں ایک سویلین لڑکا یا لڑکی بٹھا دی ہے ۔دوسرے لفظوں میں آئی جی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ''بھائی ہم تھانہ اسٹاف کو ٹھیک نہیں کر سکتے لہٰذا تم ان سے نہ ملا کرو'' اس مضحکہ خیز حل پر چند ہفتے قبل پولیس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرائم منسٹر نے خود ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ یہ کیا تماشہ کر رہے ہیں۔
لوگوں کو تھانہ اسٹاف کی کرپشن ، بدتمیزی اور غیرہمدردانہ رویے سے شکایتیں ہیںاس کے لیے آپ کو اپنے تھانہ اسٹاف یعنی باوردی پولیس کی سوچ اور طرز ِ عمل بدلنے پر زور دینا چاہیے مگر آپ نے اس کی بجائے وہاں سویلین اسٹاف بٹھا دیا ہے۔'' مانیٹرنگ تو SHOکی ہونی چاہیے یا تفتیشی افسروں اور محررّوں کی ہونی چاہیے، آپ نے تھانے کے ایک کمرے میں نوجوان لڑکیوں کو بٹھا کر ان کے سروں پر کیمرے لگا دیے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔
تھانے کا ماحول اور کلچر بدلنے کا یہ احمقانہ اور حوالدارانہ حل جس نے بھی تجویز کیا ہے وہ قابلِ گرفت ہے۔ ایک اورمذاق یہ بنا ہے کہ بے شمار تھانوں کی عمارتوں کے سب سے پہلے کمرے کی بجائے،کہیں پیچھے (جہاں بیرکوں سے گزر کر پہنچنا پڑتا ہے) کسی کمرے کے باہر فرنٹ ڈیسک کی تختی لگا دی گئی ہے ، یہ بھی شکایات ملی ہیں کہ تھانے کی کانِ نمک میں پہنچ کر بہت سے سویلینز بھی نمک بن گئے اور اُسی رنگ میں رنگے گئے ہیں، کئی سویلین توتفتیش سے متعلقہ اہم راز افشاء کر دینے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
کئی نوجوانوں کی طر زِ گفتار بڑی تیزی سے متا ّثر ہوئی ہے اور وہ تھانیداروں کو متاثر کرنے اور اس ''احساسِ کمتری'' سے نکلنے کیلیے کہ وہ صرف ممّی ڈیڈی قسم کے بابو نہیں ہیں ، چند ہفتوں کی تربیّت یا صحبت سے ہی گالیوں میںطاق ہو گئے ہیں اور کئی تو بد گفتاری میں پرانے تھانیداروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ تھانوں میں سویلین اسٹاف تعینات کرنے کا بیوقوفانہ تجربہ بالکل ناکام ہو چکا ہے اور اس پر غریب قوم کے کروڑوں روپے بلا وجہ ضایع کر دیے گئے ہیں۔
بہت سے افسروں کا کہنا ہے کہ آئی جی نے آخری چند مہینوں میں سوچا ہوگاکہ تین سالوں میں اور تو کچھ نہیں بدل سکا چلو وردی ہی بدل دیں چنانچہ سینئر افسروں کواعتماد میں لیے بغیر وردی تبدیل کر دی ۔نئی وردی پر افسروں اور جوانوںکی واضح اکثریت کو سخت تحفّظات ہیں ، عوام بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ نئی وردی میں ملبوس پولیس افسروں کو کوئی رضاکار کہتا ہے اور کوئی سیکیورٹی گارڈسمجھتا ہے ۔ میڈیا پر بھی مذاق اُڑایا جا رہا ہے عوام کی نظر میں اس وردی کا کوئی رعب اور دبدبہ نہیں ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ''سبز وردی پوشوں کی حفاظت کے لیے ایک دستہ کالی وردی والوں کا بھی ہونا چاہیے'' چیف منسٹرپنجاب نے نہ جانے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا شاید اب پنجاب کے معاملات میں ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وردی تبدیل کرنے کا نامناسب اوربے سود فیصلہ بدل دیں۔ دوسرے صوبوں کو ناراض ہونے کا ایک سبب مہیّا کر دیا گیا ہے۔
پانچوں صوبوں کی ایک جیسی وردی پورے ملک میں امن و امان کی علامت سمجھی جاتی تھی پنجاب نے دوسرے صوبوں سے مشورہ کیے بغیر وردی کیوں تبدیل کر لی ہے ایسے اقدامات قومی یکجہتی کے لیے سخت نقصان دہ ہیں، وزیر اعلیٰ صاحب یہ بھی پتہ کروائیں کہ نئی وردی کے لیے کپڑے کی خریداری میں قوائدو ضوابط کا بھی خیال رکھّا گیا یا نہیں ، ٹینڈر ہوا یا کسی کو oblige کرنے کے لیے آرڈر دے دیا گیا ہے ؟
بہت سے پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ سابق آئی جی مشکوک کردار کے افسروں کو سپورٹ اور پروموٹ کرتے رہے اور نیک نام افسروں کونشانۂ ستم بناتے رہے۔ان کے بقول دو سال قبل پروموشن بورڈ میں زیرِ غور افسروں میں سب سے زیاد ہ دیانتدار، با کردار،محنتی اور پروفیشنل افسرایس ایس پی کیپٹن شعیب تھا اُسکی پروموشن روک کرسکھیرا نے اتنا بڑا ظلم کیا ہے جسکا اسے آخرت میں بھی جواب دینا ہوگا۔
کبھی وہ دور تھا جب کسی بیورو کریٹ کوزیادتی یا من مانی کرنے کی جر أت نہیں ہوتی تھی اور اگر معاملہ چیف منسٹر تک پہنچ جاتا تو اس کا فوری ازالہ ہو تا تھا۔ وہ چیف منسٹر نہ جانے کہاں ہے ؟ وہ شہباز شریف بہت یاد آتا ہے جو میرٹ اور انصاف کا سمبل سمجھا جاتا تھا، جسکے نام سے کرپٹ افسر ڈرتے اور کانپتے تھے۔ آج بدنام افسر سینہ تان کر اقتدار کی غلام گردشوں میں پھرتے ہیں اور وہاں سے اپنی مرضی کے پوسٹنگ آڈر لے آتے ہیں۔ایسا کیوںہو رہا ہے؟
پنجاب میں آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے کیس میں دس ہزار کے قریب پولیس افسر متاّثر ہوئے ہیں اس اِشو کو بھی فہم و فراست سے ہینڈل نہیں کیا گیا،جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی بار پولیس فورس میں بغاوت کی سی کیفیّت پیدا ہوئی ۔ اگر کچھ افسروں کے ساتھ ذاتی عناد کے جذبے سے بالا تر ہو کر کھلے ذہن کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالا جاتا تو متاثرین کی تعداد بہت کم ہوتی اور پولیس کے جو نئیررینکس میں پیدا ہونے والا غم و غصّہ بھی ختم ہو جاتا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جانے والے آئی جی عوام میں کوئی مثبت تاثر چھوڑ کر نہیں جا رہے، کسی بھی افسر کی صیحح پرکھ (Evaluation) عوام ہی کر سکتے ہیں ، عوام نے مشتاق سکھیرا کی جو اے سی آر لکھی ہے اس کے مطابق ریٹنگ Average سے زیادہ نہیں بنتی۔
پنجاب پولیس کے نئے سربراہ کو ان تمام اُمور پر توّجہ دینا ہوگی ۔ وہ کتنی دیر اس عہدے پر رہتا ہے یہ بات اللہ پر چھوڑ کر اُسے پیشہ ورانہ امور پر توّجہ دینی چاہیے ۔ ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس کو اعلیٰ معیار کی لیڈر شپ درکار ہے جو اسے ایک غیر جابندار قومی ادارے میں بدل دے۔ اب تنخواہیں معقول ہیں، حکومت نے فنڈز فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، نئے آئی جی کو فنڈز کے درست اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہو گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو نئے آئی جی کے انتخاب میں اُسکی Integrity ، بے داغ کرداراور قائدانہ صلاحیتّوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ صاحب ! اگر آپ پنجاب پر کوئی مشکوک کردار کا آئی جی تعیّنات کرا دینگے تویہ صوبے کے اُن شہریوں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو آپ کو کئی دھائیوں سے مسند ِ اقتدار پر بٹھا رہے ہیں۔
کسی دور میں پنجاب میں پولیس ا فسروں کی تعیناتی میں وزیر اعلیٰ شہبازشریف صاحبIntegrity اور effectiveness کو سب سے زیادہ اہمیّت دیتے تھے مگراب فیصلہ سازی میں کچھ اور بھی شراکت دار بن چکے ہیں۔ لگتاہے نئے فیصلہ سازوں نے ترجیحات تبدیل کرادی ہیں اورPolitical Expediency کو ترجیحِ اوّل بنوا دیا ہے۔
اُدھر اُن کے دوست وزیر داخلہ جو خودایماندار ہیں مگر اپنے ضلعے میں شائد اس لیے کوئی ایماندار پولیس چیف نہیں لگنے دیتے کہ کہیں ان کے ووٹروں کی عادتیں خراب نہ ہوجائیں اور انھیں انصاف کی بدہضمی نہ ہو جائے۔ ریٹائر ہونے والے آئی جی مشتاق سکھیرا بھی مشکوک افسروں کے ہی مشتاق نکلے اورا ُن کی پشت پناہی کر تے رہے۔ وہ جی سی اور لاء کالج میں مجھ سے ایک سال جونئیر تھے، ہم ایک دوسرے کو عرصۂ دراز سے جانتے ہیں وہ دیہاتی پس منظر کی وجہ سے پولیسنگ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بلوچستان میں انھوں نے اپنی کارکردگی دکھائی اسلیے مجھے حسنِ ظن تھا کہ وہ پنجاب میں کچھ تبدیلی لائیں گے مگر بد قسمتی سے وہ وردی کے سوا کچھ بھی تبدیل نہ کر سکے۔
ہر ادارے کے سربراہ کا اپنا امیج ہوتا ہے اور اس کے امیج اور شہرت کے مطابق ہر طرف پیغام چلا جاتا ہے۔ تین سالوں میں مشتاق سکھیرا کا ایسا تاثر قائم نہ ہو سکا جس سے فورس یہ سمجھتی کہ انکا کمانڈر کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہے۔ میں نے پنجاب میں تعینّات بیسیوں پولیس افسروں سے پوچھا کہ'' کیا تین سالوں میں صوبے کی پولیس میں کرپشن کم ہوئی ہے؟'' جواب ملا بالکل نہیں۔
مختلف علاقوں کے لوگ ملتے رہتے ہیں اُن سے پوچھتا ہوں ''کیا رشوت اور سفارش کے بغیر عام آدمی کو ریلیف ملتا رہا ہے؟'' تو ہر طرف سے جواب نفی میں ا ٓتا ہے۔ پولیس افسروں سے پوچھا ''کیا ضلعوں کو ملنے والے فنڈز میں کی جانے والی فنڈ خوری میں کمی ہوئی ہے ؟'' جواب پھرنفی میں تھا۔
بہت سے سینئر افسروں سے پوچھا کہ تفتیشوں کا ناقص معیار پولیس کا بہت کمزور پہلو ہے اس پر تو تو ّجہ دی گئی ہوگی اور ہر ضلعے اور ہر ڈویژن میں ٹریننگ کروائی گئی ہو گی!پھر ناں ہی سننے کو ملی! غیر قانونی جلوس یا ہجوم سے نپٹنا (Mob / Crowd control) پولیس کاسب سے کمزور ایریا ہے جس میں پولیس کی تربیت نہ ہونے کے برابرہے وہ ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے اکثر خود ہجوم بن جاتی ہے، اور مجمعے کو بڑے بھونڈے اور نان پروفیشنل طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے اسمیں اکثر ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں، جس طرح ماڈل ٹاؤن یا کئی اور جگہوں پر ہوئیں۔
بعض اوقات پولیس والے ہجوم سے خوفزدہ ہو کر بھیڑ بکریوں کی طرح جلوس کے آگے آگے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور عوام کے سامنے مذاق بنتے ہیں اسی لیے میں پولیس افسروں سے پوچھتا رہا کہ '' Crowd Control کے سلسلے میں پولیس کو اعلیٰ پائے کی ٹریننگ دیکر ان میں Professionalism لانے کی مخلصانہ کوشش ہوئی ؟'' جواب نفی میں ملا۔ آخر مایوس ہو کر میں نے پوچھا عوام کو بہت زیادہ شکایات تھانہ اسٹاف سے ہیں کیا تھانوں میں تعینات پولیس اسٹاف کی سوچ اور طرز ِ عمل بدلنے کیلیے کوششیں ہوئیں؟
اس کا خودآئی جی نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مضحکہ خیز جواب دیا تھاکہ ''ہم نے آئی ٹی سیلوشن ڈھونڈا ہے اورتھانوں کے فرنٹ ڈیسک پر پڑھے لکھے سو یلین بٹھا دیے ہیں'' اس جواب کا ہر پڑھے لکھے شخص نے تمسخر اُڑایا کہ لو گ تھانے کے باوردی اسٹاف سے نالاں ہیں اور آپ نے اس کا حل یہ نکالا کہ تھانے کے باوردی عملے کو ہٹا یا چھپا دیا ہے اور ایک کمرے میں ایک سویلین لڑکا یا لڑکی بٹھا دی ہے ۔دوسرے لفظوں میں آئی جی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ''بھائی ہم تھانہ اسٹاف کو ٹھیک نہیں کر سکتے لہٰذا تم ان سے نہ ملا کرو'' اس مضحکہ خیز حل پر چند ہفتے قبل پولیس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرائم منسٹر نے خود ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ یہ کیا تماشہ کر رہے ہیں۔
لوگوں کو تھانہ اسٹاف کی کرپشن ، بدتمیزی اور غیرہمدردانہ رویے سے شکایتیں ہیںاس کے لیے آپ کو اپنے تھانہ اسٹاف یعنی باوردی پولیس کی سوچ اور طرز ِ عمل بدلنے پر زور دینا چاہیے مگر آپ نے اس کی بجائے وہاں سویلین اسٹاف بٹھا دیا ہے۔'' مانیٹرنگ تو SHOکی ہونی چاہیے یا تفتیشی افسروں اور محررّوں کی ہونی چاہیے، آپ نے تھانے کے ایک کمرے میں نوجوان لڑکیوں کو بٹھا کر ان کے سروں پر کیمرے لگا دیے ہیں اور ان کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔
تھانے کا ماحول اور کلچر بدلنے کا یہ احمقانہ اور حوالدارانہ حل جس نے بھی تجویز کیا ہے وہ قابلِ گرفت ہے۔ ایک اورمذاق یہ بنا ہے کہ بے شمار تھانوں کی عمارتوں کے سب سے پہلے کمرے کی بجائے،کہیں پیچھے (جہاں بیرکوں سے گزر کر پہنچنا پڑتا ہے) کسی کمرے کے باہر فرنٹ ڈیسک کی تختی لگا دی گئی ہے ، یہ بھی شکایات ملی ہیں کہ تھانے کی کانِ نمک میں پہنچ کر بہت سے سویلینز بھی نمک بن گئے اور اُسی رنگ میں رنگے گئے ہیں، کئی سویلین توتفتیش سے متعلقہ اہم راز افشاء کر دینے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
کئی نوجوانوں کی طر زِ گفتار بڑی تیزی سے متا ّثر ہوئی ہے اور وہ تھانیداروں کو متاثر کرنے اور اس ''احساسِ کمتری'' سے نکلنے کیلیے کہ وہ صرف ممّی ڈیڈی قسم کے بابو نہیں ہیں ، چند ہفتوں کی تربیّت یا صحبت سے ہی گالیوں میںطاق ہو گئے ہیں اور کئی تو بد گفتاری میں پرانے تھانیداروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ تھانوں میں سویلین اسٹاف تعینات کرنے کا بیوقوفانہ تجربہ بالکل ناکام ہو چکا ہے اور اس پر غریب قوم کے کروڑوں روپے بلا وجہ ضایع کر دیے گئے ہیں۔
بہت سے افسروں کا کہنا ہے کہ آئی جی نے آخری چند مہینوں میں سوچا ہوگاکہ تین سالوں میں اور تو کچھ نہیں بدل سکا چلو وردی ہی بدل دیں چنانچہ سینئر افسروں کواعتماد میں لیے بغیر وردی تبدیل کر دی ۔نئی وردی پر افسروں اور جوانوںکی واضح اکثریت کو سخت تحفّظات ہیں ، عوام بھی مذاق اڑاتے ہیں۔ نئی وردی میں ملبوس پولیس افسروں کو کوئی رضاکار کہتا ہے اور کوئی سیکیورٹی گارڈسمجھتا ہے ۔ میڈیا پر بھی مذاق اُڑایا جا رہا ہے عوام کی نظر میں اس وردی کا کوئی رعب اور دبدبہ نہیں ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ''سبز وردی پوشوں کی حفاظت کے لیے ایک دستہ کالی وردی والوں کا بھی ہونا چاہیے'' چیف منسٹرپنجاب نے نہ جانے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا شاید اب پنجاب کے معاملات میں ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وردی تبدیل کرنے کا نامناسب اوربے سود فیصلہ بدل دیں۔ دوسرے صوبوں کو ناراض ہونے کا ایک سبب مہیّا کر دیا گیا ہے۔
پانچوں صوبوں کی ایک جیسی وردی پورے ملک میں امن و امان کی علامت سمجھی جاتی تھی پنجاب نے دوسرے صوبوں سے مشورہ کیے بغیر وردی کیوں تبدیل کر لی ہے ایسے اقدامات قومی یکجہتی کے لیے سخت نقصان دہ ہیں، وزیر اعلیٰ صاحب یہ بھی پتہ کروائیں کہ نئی وردی کے لیے کپڑے کی خریداری میں قوائدو ضوابط کا بھی خیال رکھّا گیا یا نہیں ، ٹینڈر ہوا یا کسی کو oblige کرنے کے لیے آرڈر دے دیا گیا ہے ؟
بہت سے پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ سابق آئی جی مشکوک کردار کے افسروں کو سپورٹ اور پروموٹ کرتے رہے اور نیک نام افسروں کونشانۂ ستم بناتے رہے۔ان کے بقول دو سال قبل پروموشن بورڈ میں زیرِ غور افسروں میں سب سے زیاد ہ دیانتدار، با کردار،محنتی اور پروفیشنل افسرایس ایس پی کیپٹن شعیب تھا اُسکی پروموشن روک کرسکھیرا نے اتنا بڑا ظلم کیا ہے جسکا اسے آخرت میں بھی جواب دینا ہوگا۔
کبھی وہ دور تھا جب کسی بیورو کریٹ کوزیادتی یا من مانی کرنے کی جر أت نہیں ہوتی تھی اور اگر معاملہ چیف منسٹر تک پہنچ جاتا تو اس کا فوری ازالہ ہو تا تھا۔ وہ چیف منسٹر نہ جانے کہاں ہے ؟ وہ شہباز شریف بہت یاد آتا ہے جو میرٹ اور انصاف کا سمبل سمجھا جاتا تھا، جسکے نام سے کرپٹ افسر ڈرتے اور کانپتے تھے۔ آج بدنام افسر سینہ تان کر اقتدار کی غلام گردشوں میں پھرتے ہیں اور وہاں سے اپنی مرضی کے پوسٹنگ آڈر لے آتے ہیں۔ایسا کیوںہو رہا ہے؟
پنجاب میں آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے کیس میں دس ہزار کے قریب پولیس افسر متاّثر ہوئے ہیں اس اِشو کو بھی فہم و فراست سے ہینڈل نہیں کیا گیا،جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی بار پولیس فورس میں بغاوت کی سی کیفیّت پیدا ہوئی ۔ اگر کچھ افسروں کے ساتھ ذاتی عناد کے جذبے سے بالا تر ہو کر کھلے ذہن کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالا جاتا تو متاثرین کی تعداد بہت کم ہوتی اور پولیس کے جو نئیررینکس میں پیدا ہونے والا غم و غصّہ بھی ختم ہو جاتا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جانے والے آئی جی عوام میں کوئی مثبت تاثر چھوڑ کر نہیں جا رہے، کسی بھی افسر کی صیحح پرکھ (Evaluation) عوام ہی کر سکتے ہیں ، عوام نے مشتاق سکھیرا کی جو اے سی آر لکھی ہے اس کے مطابق ریٹنگ Average سے زیادہ نہیں بنتی۔
پنجاب پولیس کے نئے سربراہ کو ان تمام اُمور پر توّجہ دینا ہوگی ۔ وہ کتنی دیر اس عہدے پر رہتا ہے یہ بات اللہ پر چھوڑ کر اُسے پیشہ ورانہ امور پر توّجہ دینی چاہیے ۔ ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس کو اعلیٰ معیار کی لیڈر شپ درکار ہے جو اسے ایک غیر جابندار قومی ادارے میں بدل دے۔ اب تنخواہیں معقول ہیں، حکومت نے فنڈز فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، نئے آئی جی کو فنڈز کے درست اور شفاف استعمال کو یقینی بنانا ہو گا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو نئے آئی جی کے انتخاب میں اُسکی Integrity ، بے داغ کرداراور قائدانہ صلاحیتّوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ صاحب ! اگر آپ پنجاب پر کوئی مشکوک کردار کا آئی جی تعیّنات کرا دینگے تویہ صوبے کے اُن شہریوں کے ساتھ زیادتی ہو گی جو آپ کو کئی دھائیوں سے مسند ِ اقتدار پر بٹھا رہے ہیں۔