اسلام دشمنی جاری ہے
عربوں کی باہمی مخالفت کا فائدہ امریکا نے اٹھایا اور ان کو آپس میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کامیاب رہا۔
امریکی قیادت میں آنے والی تبدیلی کے بعد جن خدشات کا دنیا بھر میں اظہارکیا جا رہا تھا وہ کسی حد تک درست ثابت ہو رہے اور دنیا بھر کے بسنے والوں کیلیے مشکلات کا سبب بھی بن رہے ہیں اس کی وجہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پالیسیاں ہیں جن کے لاگو کرنے کا وعدہ وہ اپنی الیکش مہم کے دوران بار بار کر چکے تھے اور اب بالآخر جب اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ ہی گیا ہے تو انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر ان پر علمدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔
ان کے پیشرو باراک حسین اوباما نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو مسلمان ممالک میں اس خوش فہمی کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ چونکہ نسلاً مسلمان ہیں اس لیے مسلمانوں کو ان کے دور میں سکون نصیب ہو گا لیکن دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے کس طرح دنیا بھر میں امریکا کی ان اسلام دشمن پالیسیوں کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا جو پہلے سے جاری تھیں بلکہ ان میں مزید اضافہ بھی کیا کیونکہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جس کے صدر کے اختیارات تو اس کے صدر کے پا س ہی ہوتے ہیں لیکن ان کا استعمال وہ مشاورت کے بغیر نہیں کر سکتا اور اس مشاورت کیلیے مختلف تھنک ٹینک موجود ہیں جو دنیا بھر کے ممالک کیلیے پالیسیاں بناتے اور ان پر عملدرآمد کیلیے ایوان نمایندگان کے ذریعے اس کی منظوری بھی حاصل کی جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی منصب پر براجمان ہونے کے بعد خاص طور مسلمانوں کے بارے میں جن اقدامات کا اعلان کیا اس سے نہ صرف دنیا بھر کر مسلمانوں میں بے چینی پھیلی بلکہ امریکا میں بسنے والے امریکا شہریت کے حامل مسلمان بھی اس سے پریشان نظر آتے ہیں وہ تو بھلا ہو امریکا کے عدالتی نظام کی مضبوطی کا جس نے مختلف مسلمان ممالک کے افراد کے امریکا میں داخلے پرپابندی کے اس ابتدائی حکم کو ہی معطل کر دیا جس پر سپر پاور کے اس حکمران نے اپنی ناپسنددیدگی کا بر ملاء اظہار بھی کیا اور اس کو برا بھلا بھی کہا لیکن جہاں پر عدالتی نظام اتنا مضبوط ہو وہاں پر حکمرانی بھی سوچ سمجھ کر کرنی پڑتی ہے اس حکم کی معطلی کی بنیادی وجہ شاید امریکا کا وہ جمہوریت پسندانہ بھرم برقرار رکھنا تھا جس کا وہ دنیا بھرکے ممالک میں مداخلت کے وقت ڈھول پیٹتا ہے تا کہ دنیا میں اس کے اقدامات کو ناپسنددیگی سے نہ دیکھا جائے۔
پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے دنیا بھر کے مسلمان ممالک امریکا کی معاشی اور فوجی جارحیت کا شکار ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اگر دنیا میں کسی کا نقصان ہوا تو وہ مسلمانوں کا تھا جو خود کئی سالوں تک دنیا کی سپر پاور رہنے کے بعد اپنی بداعمالیوں اور اقتدار کی ہوس کیلیے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر اپنی حکمرانی تو گنوا ہی بیٹھے لیکن حالات اس نہج کو پہنچ گئے تھے کہ ان کے لیے موجودہ دنیا کی دو سپر پاور میں سے کسی ایک کا طفیلی بننا ضروری ہو گیا۔ ان دونوںبڑی طاقتوں کے درمیان ہم پستے تو رہے لیکن دنیا میں طاقت کا ایک توازن قائم رہا۔
سوویت یونین کی مسلمان ریاستوں میں بیداری کے بعد آزادی کی لہر نے جب جڑ پکڑی جس کے نتیجے میں سوویت یونین کی مختلف ریاستوں نے آزاد ملکوں کا روپ دھار لیا اور ان کے درمیان وسائل ا ور ذخائر بھی تقسیم ہوئے تو دنیا کی دوسری سپر پاور کا شیرازہ بھی بکھر گیا جس کی بنیاد بھی پاکستان اور افغانستان کے بہادر جنگوؤں نے رکھی تھی لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ مسلمان کمیونزم کے خاتمے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کا شکارہو جائیں گے اور آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا والی صورتحال پیدا کر دی جائے گی۔
اس صورتحال کا نقصان دنیا بھر کے ملکوںکو ہوا لیکن اس کا فائدہ امریکا نے اٹھایا اور طاقت کا توازن بگڑتے ہی دنیا کی سیاست پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کو اپنا طفیلی بھی بنا لیا۔ بدقسمتی سے ہمارے عرب بھائیوں نے ہمیشہ کی طرح ان حالات میں بھی امریکا کا دم بھرا جس کا خمیازہ وہ اور عرب عوام اب بھگت رہے ہیں۔
عربوں کی باہمی مخالفت کا فائدہ امریکا نے اٹھایا اور ان کو آپس میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کامیاب رہا۔ پہلے تو ایران اورعراق کے مابین لسانیت کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کیا گیا اور ان کو ایسے حالات میں ڈھالا گیا کہ وہ آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور امریکا نے اسے اپنے آتشیں ہتھیاروں کی منافع بخش منڈی میں تبدیل کر کے اپنے اسلحہ کے ذخائر کو بیچ کر اپنی اس صنعت کوبھی فروغ دیا۔ایران کے ساتھ بیرونی دنیا کے رابطہ کو منقطع کرنے اور دنیا کے بااثر ممالک کی جانب سے اس پر معاشی پابندیاں عائد کرکے اور دوسروں سے کرا کے ان کی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا لیکن ایرانیوں نے بطور ایک قوم کے ان پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عالمی دنیا کے اس سرمایہ دارانہ نظام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے آپ کو ایک طاقت کے طور پر منوایا اور دوبارہ ان غلطیوں سے اجتناب کیا جو ان حالات کا موجب بنی تھیں۔
امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے بعد ایران نے بیرونی دنیا سے تعلقات کی بحالی کے بعد اپنا جھکاؤ اور وزن اس مرتبہ یورپی یونین کے پلڑے میں ڈال دیا اور اپنے کاروباری مفادات کی خاطر اپنی مرضی کے سودے طے کرنے شروع کیے لیکن یہ ایرانی ادا بھی امریکا بہادر کو ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے ایران سے کی جانے والی ڈیل کو یک طرفہ طور پر ختم کیا اور ایک دفعہ پھر وہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو سرد مہری کی انتہا پر پہنچا دیا اور شام میں ایک ایسی جنگ کا آغاز کر دیا گیا جو عربوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے علاوہ ان کی تباہی کا سبب بن سکے۔
ان حالات میں پہلے تو سعودی عرب اور یمن کی جنگ کا آغاز کیااور دوسرے اسلامی ممالک کو بھی اس کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی، پاکستان سے بھی برادرانہ تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب پر یہ پریشر ڈالنے کی کوشش کی ہماری فوج بھی اس جنگ کا حصہ بنے لیکن اس موقع پر اندرونی حالات کو مدنظر رکھ کر ملک بھر کی سیاسی جماعتوںنے اس کو غیر دانشمندانہ اقدام قرار دینے ہوئے اس کی حمایت سے انکار کر دیا کیونکہ اس سے ہمارے پڑوسی بردار اسلامی ملک ایران کے ساتھ تعلقات کو بگاڑ دینے کا امریکا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچ جانا تھا اور اس سے سوائے شرمندگی کے حاصل وصول کچھ نہیں ہونا تھا کیونکہ امریکا اس خطے میں ایران کو ایک دفعہ پھر زیر دست کرنا چاہتا ہے اور پاکستان اپنے جغرافیائی لحاظ سے اس بالا دستی کو مکمل سپورٹ اور تحفظ فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے شاید خارجہ امور کے متعلق یہی ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو معمول پر رکھنے کیلیے آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اور پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کر کے ریاض اور تہران کے مابین تعلقات کو دوستانہ یا کم از کم اس سطح تک لا سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پیدا کی گئی غلط فہمیوں کا تدارک کر سکیں۔(اس سلسلے میں مزید معروضات پیش کی جائیں گی اگلے ہی کالم میں)